حیات انسانی لمحہ بہ لمحہ اپنے اختتام کے اور رواں دواں ہے ۔عقل مند اور ہوشیار ہے وہ بندۂ خدا جوحیات مستعار کے ان بیش بہا لمحات اور گھڑیوں کی یوں قدر کرے کہ اس کے اعمال نیک کا صدور ہوا ور بُرے اعمال و افعال سے وہ کلی طور اجتناب کرے کیونکہ کل کو داورِ محشر کے ہاں سے اُسے جنت کا پروانہ ملے نہ کہ جہنم کا۔بخاری شریف کی پہلی ہی حدیث کی رُو سے ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ‘‘۔نیت دُرست ہو،اس میں اخلاص ہو تو عمل بارگاہِ ایزدی میں شرف قبولیت سے نوازا جائے گا ،بصورت دیگر عمل مستوجب سزا ہوگا ۔۔۔امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں نیت کی اہمیت کے حوالہ سے یوں ایک سبق آموز واقعہ در ج کیا ہے کہ دو بھائی تھے ،ان میں سے ایک انتہائی نیک جب کہ دوسرا بھائی انتہائی بُرا تھا ۔نیک بھائی مکان کی اوپر ی منزل میں رہائش پذیر تھا اور بُرا بھائی مکان کی نچلی منزل میں بود باش اختیار کئے ہوئے تھا۔نیک بھائی کی زندگی عسرت و مفلسی کی زندگی تھی جب کہ بڑے بھائی کی زندگی عیش و عشرت اور مسرت و انبساط سے عبارت تھی۔طویل عرصہ کے بعد نیک بھائی کے دل میں یہ نیت پیدا ہوئی کہ میں طویل عرصہ سے نیکی کی راہ پر گامزن ہوں اور یوں افلاس و غربت میرا مقدر ٹھہری ،کیوں نہ میں مکان کی نچلی منزل میں جاکر اپنے دوسرے بھائی ہی کی معیت میں اسی طرح کی طرب و نشاط اور نازونعم کی زندگی گزاردوں جس طرح میرا دوسرا بھائی گزار رہا ہے ۔۔۔نیک بھائی کے دل میں اس خیال کا آغاز ہی تھا کہ نچلی منزل میں رہائش پذیر بُرے بھائی کے دل میں یہ نیت اٹھی کہ بُرائی کی راہ پر مدت مدیر سے گامزن ہونی کی پاداش میں جہنم میراٹھکانہ ہوگا ،کیوں نہ میں اللہ بزرگ و برتر کے حضور توبہ کرکے عیش و عشرت کی اس بُری زندگی سے دست کش ہوکر مکان کی اوپر ی منزل میں رہائش پذیر بھائی کے ہاں جاکر اسی کی طرح نیکی کی راہ پر گامزن ہوجائوں،جس پر میرا بھائی مدت مدیر سے گامزن ہے ۔اوپری منزل میںرہائش پذیر بھائی اسی نیت سے ،جس کا اوپر ذکر ہوا ،نکل پڑا اور عین اُسی وقت اس کا بُرا بھائی جو مکان کی نچلی منزل میں مقیم تھا بھی اسی نیت کے ساتھ ، جس کا اوپر ذکر ہوا۔نیک بھائی اور بُرا بھائی کے اپنے اپنے کمروں سے نکلنے کی دیر تھی کہ دونوں بیچ سیڑھی کے جو مکان کے دونوں منازل کے بیچ میں تھی کچھ اس طرح ٹکرائے کہ دونوں کی موت معاًواقع ہوئی۔امام مسلمؒ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نیک بھائی اپنی نیت کی بنیاد پر جہنمی ٹھہرا اور بُرا بھائی اپنی نیت ہی کے بل پہ جنتی قرار پایا ۔آپ ؐکا فرمان ہے کہ ’’رو ز قیامت بندہ اسی حال میں اٹھایا جائے گا جس حال میں اس کی موت واقع ہوئی ہو۔‘‘اس فرمان ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میںہمیں اپنی حیات مستعار کا ہر لمحہ انتہائی حزم و احتیاط اور انتہائی ہوشیاری و عقل مندی سے کچھ اس طرح اٹھانا چاہئے کہ ہر لمحہ ہم سے ’’خیر‘‘ہی کا صدور ہو نہ کہ ’’شر‘‘کا تا ایں کہ ہمارا انجام ،انجام خیر ہو نہ کہ انجام ِ شر۔آپ ؐ کا لایا ہوا دین ہمیں سکھاتاہے کہ وجود نوع ِ انسانی کے لئے بلا امتیاز مذہب و ملت،رنگ و نسل ،ملک و علاقہ ،قوم و خاندان منافع بخش ہو نہ کہ شرو فساد کا باعث ؎
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے
حلال کھانا سچ بولنا
مومنین کا شیوہ اور شعار
امام احمدبن حنبلؒ ،امام شافعیؒ کے شاگرد ِرشید تھے۔دنیا کی مسلم آبادی کا معتدبہ حصہ حنبلی مسلک کا قائل ہے ۔امام احمدبن حنبلؒ کے تقویٰ اور تفقہ فی الدین کے حوالہ سے درج ذیل تاریخی واقعہ میں ہمارے لئے بصیرت کا حزینہ پنہاں ہے ۔اس تاریخی واقعہ کی رو سے امام شافعیؒ جو مصر میں سکونت پذیر تھے، نے اپنے شاگرد ِ رشید امام احمدبن حنبلؒ کو خط ارسال کیا کہ مدت ِ مدید سے آپ سے ملاقی ہونے کی تڑپ اور آرزو ہے ۔خط ملتے ہی ہمارے ہاں تشریف لایئے ،ہم آپ کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں ۔خط کے ملنے کی دیر تھی کہ امام احمدبن حنبلؒ نے رخت ِ سفر باندھ لیا اور اپنے استاد ِ محترم کے حکم کی تعمیل میںبسوئے مصر روانہ ہوئے۔مصر میں استاد محترم کے علاوہ حاکم وقت ،اس کے اعوان و انصار ،علماء و فضلاء نے امام احمد بن حنبلؒ کا نہایت ہی گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا اور اسی پُر شکوہ و دیدنی منظر میں امام موصوف کو استاد ، مکرم امام شافعیؒ کے گھر لیا گیا جہاں آپؒ کے طعام و قیام کا اہتمام کیا گیا تھا ۔امام شافعی ؒ کے گھر میں امام موصوف کی آمد سے عید کا سا منظر تھا ۔امام شافعی ؒ کی بیٹیاں مہمان ِ مکرم کی مہمان نوازی کے حوالے سے مسرت وخوشی میں مستغرق تھیں کیونکہ انہیں اپنے والد محترم کی وساطت سے امام موصوف کے علم و فضل اور تقویٰ و عمل کی بابت آگہی مل چکی تھی ۔مہمان مکرم کی مہمان نوازی کے جذبے سے سرشار امام شافعی ؒکی بیٹیوں نے امام موصوف کے سامنے شام کا کھانا رکھا ۔کھانارکھنے کی دیر ہی تھی کہ امام موصوف نے نہایت ہی جلدی کے ساتھ کھانے کی کافی مقدار تناول فرمائی حالانکہ شکم پُری عامیانہ رویہ ہے نہ کہ خواص کا ۔امام موصوف کی اس ادا نے امام شافعیؒ کی بیٹیوں کو حیران و ششدر کرکے رکھ دیا ۔خیر امام موصوف نماز عشاء ادا کرنے لگے تو امام شافعیؒ کی بیٹیوں نے مخصوص کمرے میں مہمان ِمکرم کے لئے نہ صرف بسترہ ڈال کے رکھ دیا بلکہ برتن میں نماز تہجد کے لئے پانی بھی رکھ دیا ۔صبح ہونے پر امام موصوف اپنے استاد امام شافعیؒ کی معیت میں نماز فجر ادا کرنے مسجد گئے تو امام شافعیؒ کی بیٹیوں نے مہمان مکرم کا بستر ہ اس دوران لپیٹ کے رکھ دیا لیکن برتن میں پانی جوں کا توں مقدار دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئیں اور انہوں نے ایسا منظر دیکھ کر اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ مہمان ِ مکرم رات بھر غفلت کی نیند میں اس طرح غرق ہوئے ہیں کہ نماز تہجد بھی ان سے چھوٹ پڑی ہے۔امام شافعیؒ کی بیٹیوں سے رہا نہ گیا کیونکہ وہ خود بھی باعلم و باعمل تھیں ، انہوں نے اپنے والد ِ محترم سے اس واقعہ کے بارے میں یوں ذکر کیا کہ مہمان مکرم رات بھر اتنا سوئے پڑے ہیں کہ نماز تہجد بھی انہوں نے پڑھی نہیں ہے کیونکہ برتن میں پانی کی مقدار جوں کی توں ہی تھی۔
خیر امام شافعیؒ کے لئے بھی اپنے شاگرد ِرشید کے حوالہ سے رات کا کھانا کھانے کا معاملہ اور اب نماز تہجد کے چھوٹ جانے کا معاملہ بھی حیرانگی و پریشانی کا باعث بنا اور آپؒ نے اپنے شاگرد رشید سے ان دونوں معاملات کی بابت وضاحت طلب کی۔امام احمد بن حنبلؒ نے کھانا جلدی جلدی کھانے اور کھانے کی کافی مقدار تناول کرنے کے ضمن میں اپنے استاد محترم کے استفسار پر فرمایا کہ’’ایسا پاک و حلال رزق میں نے زندگی بھر نہیں کھایا ہے، لہٰذا ایسی غذا کھانا میں نے عبادت سمجھ لیااور میں نے بے شک اس نیت کے ساتھ اس کھانے کی زیادہ مقدار کھالی کہ ایسے پاک اور حلال رزق کی برکت و رحمت سے حتی الوسع مستفید ہوجائوں،چاہے ایسا کرکے مجھے چند دن فاقہ ہی سے کیوں نہ رہنا پڑے ۔ ایسے پاک اور حلال رزق کے کھانے سے مجھے عملی و علمی فضیلتیں حاصل ہوئیں۔عملی فضیلت ایسے کہ ایسا پاک و حلال رزق کھاکر مجھے نماز ِ تہجد اور نماز فجر کے لئے وضو کی ضرورت ہی نہ پڑی بلکہ عشاء کے وضو ہی سے میں نے یہ دونوں نمازیں ادا کیں اور علمی فضیلت ایسے کہ ایسے پاک و حلال رزق کی بدولت مجھ پر نیند کی کیفیت بالکل ہی طاری نہ ہوئی بلکہ میں رات بھر بستر پر بیٹھا قرآن کریم کی ایک آیت پر رات بھر تدبر و تفکر کے نتیجہ میں،میں نے ایک سو مسائل کا حل اس آیت قرآنی سے اخذ کیا ۔امام شافعی ؒ اپنے شاگرد ِ رشید کے ان تاثرات سے بے حد متاثر ہوئے اور انہیں اپنی نیک دعائوں سے نوازا۔
اللہ بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اکل ِحلال اور صدق مقال جیسی مومنانہ خصائص سے نوازے کیونکہ اکل ِحلال اور صدق ِ مقال ہی کی راہ سے خود شناسی اور خدا شناسی کی منزل ِ مقصود حاصل ہوتی ہے ؎
وہ بھی خوب دن تھے ملائکہ میرے سامنے تھے سرنگوں
وہ میرا عروج ِ کمال تھا یہ زوال کتنا عجیب ہے
(اقبالؒ)