کیا کہیں جناب !یہ کشمیر ہے نا بہت پہلودار ہے، زُلف ِخم دار ہے ، بے اعتبار و بے قرار ہے ۔ یاد ہے وہ بھی وقت تھا جب سیلابِ کشمیر کا ایک اَن دیکھا جلوہ گرہو ا۔ اُس دن سے موسم کا ڈھنڈورچی سونم لوٹس اپنے یہاں اتنا مشہور یا بدنام ہو گیا کہ لوگ شادی بیاہ کے لئے تاریخ مقرر کرنے سے پہلے اُن کی پیش گوئی سن لیتے ہیں۔ کوئی کوئی اُن سے کہتا ہے:بھائی صاحب! واللہ آپ کو بھی رستہ گشتابہ کھلائیں گے بلکہ ایک عدد وازہ ترامی بھی دفتر بھجوادیں گے جیسے ہم بجلی والوں کو بھیجتے ہیں تا کہ عین موقع پر بجلی بند نہ کردیں، بس ایک کرپاکریں ، یہ بتائیں،ذرا غور سے دیکھیں، نقشہ جاتِ افلاک کو ٹٹولیں،سٹیلائٹ چا ر چشمی عینک سے دیکھیں، فلاں تاریخ کو آسمان کہاں کہاں اَبر آلودہ ہو سکتا ہے ؟ بادل کس جانب محو پرواز ہوں گے؟ بدلیوں کا رنگ کالا ہوگا کہ گھورا ؟ دل والے کدھرہوں گے ؟ جگر کا کوئی ٹھکانہ ہوگا ؟مطلب عام خام ستاروں کی گردش دیکھنے پیر پنڈت کے پاس نہیں جاتے بلکہ سونم جی کو اَبر کرم کی اُچھل کود دیکھنے پرکھنے کی گزارش کرتے ہیں۔
جب اپنے لوگ ماہر موسمیات سے بصد ادب یہ سب اناپ شناپ کہیں توآشپاز کس شمار وقطار میں رہا ؟ ہاں جی ، ضافتیں اُسے ہی پکانی ہیں لیکن موسم کے آگے اس کی حیثیت ثانوی ہو ئی نا؟ لوگ اُس سے صاف لفظوں میں کہتے ہیں: تمہارے دیگ مصالحے اپنی جگہ مگر درجۂ حرارت کا اُلٹ پھیر، دھوپ چھاؤں کا حال احوال ، برف وباراں کی گردش معلوم کرنا زیادہ اہم ہے کہ بھائی صاحب رستہ گشتابے کی عزت کا سوال ہے۔کوئی بھی مصیبت برداشت کرسکتے ہیں لیکن وازہ وان کا مزا خراب موسم کے سبب کرکرا ہوجائے تو ہم منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ تم ہی بتاؤباراتی اور دوسرے مہمان گرم گرم گریوی سے منہ میں خوشبو پھیلا رہے ہوں لیکن بارش کا پانی کہیں سے رِس کر ترامی میں سیلابی صورت حال پیدا کردے،پھر سرکارِ ناپائیدر کو اس وقت کہاں ڈھونڈیں جو میٹنگ کر کے یہ اعلان کردے کہ صورت حال قابو میں ہے ، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور یہ سرکار بھی کن کی ہوتی ہے ؟ اُن کی جو گورنر کی منت سماجت کریں بمہربانی ا سمبلی بنگ کریں مگر شاہی صوبیدار دبنگ انداز میں فرمان سناتے رہا: نہیں، نہیں نہیں ،پھر جب والی ٔسلطنت کو موسمی کرسی کے دعویدار راج بھون کے فیکس پریلغار کرتے نظر آئے تو ایک دَم جلالِ اکبری میں دوسرا فرمان جاری کرگئے : مابدولت نے اسمبلی کو نوٹ بندی کی طرح سر شام بنگ کیا۔ ہاں، اگر تم ہماری شاہی مرضی پر دَنگ ہو تو بند کمروں میں باتوں کی جنگ کرو، میدان میں آگئے تو اَنگ اَنگ پر بجرنگ کے رنگ چڑھیں گے!
ملک ِ کشمیر کا یہ ایک پہلو ہوا ۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ بسنت رَتھ کے دن کیا آئے کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کہ ٹریفک کی بد نظمی پر ٹوٹ پڑے۔چلتی گاڑی میںموبائل استعمال کرنے والوں کے موبائل چھین لئے ، غلط پارکنگ کی ا چھی عادت پر چار پہیے مع دوپہیے ضبط کرڈالے ۔ بعد میں وہ تہہ در تہہ بند گوبھی کی رازداری کا شکار ہوگئے لیکن سیلاب مزاج لوگ تھے کہ نیٹ پر ان سے بات چیت کرتے، ان سے مصافحے، سیلفیاں معمول بن گیا ۔ اب حال یہ ہے کہ بسنت رتھ اس بھری دنیا میں کہیں نظر نہیں آتے ، لگتا ہے وہ بھی حسیب درابو کی طرح قیامت سے پہلے شاید ہی سیلابِ کشمیر میں کہیں تیرتے نظر آئیں ۔ درابو جی نے شاہی خزانہ کھوکر اب غربت سے یارانہ کیا ہے، لگتا نہیں ہے دل ان کا اُجڑے دیار میں ، کس کی بنی ہے عالم ناپائیدرا میں ۔
اب تیسرے پہلوکے بھی درشن کیجئے ۔اب کی بار دوبارہ مودی سرکار کے دن انگلیوں پر گنے جا رہے ہیں۔ اس مہاشئے نے کہہ دیا ٹھوکو تالی اور لوگوں نے آئو دیکھا نہ تائو کھٹاک سے تالی ماری کہ معاملہ ہی کچھ ایسا تھا۔اپنے بر صغیر میں آ ج کل عمران خان،جنرل باجوہ ، نوجوت سنگھ سدھو بڑی خبریں بنار ہے ہیں۔ کیوں نہ ہو تینوں نے مل کر ایسا کچھ چمتکار کردیا کہ ستر سال بعد لوگ ٹھوکو تالی پر مجبور ہوگئے۔کرتار پور کی راہداری کا کھلنا تھا کہ ناگپور میں زلزلہ آیا ۔اچھا یہ منہ مسور کی دال ! کیا زمانہ آگیا، مودی کے جیتے جی ہم زعفرانیوں، بجرنگیوںکی اجازت کے بغیر ، ہماری چاہت پوچھے بنا یہ قیامت کیسے آگئی ؟ اس زلزلے کے ذیلی جھٹکوں(after shocks) سے جو سنبھلے تو الزام دیا کہ یہ راہداری اب سکھ دہشت گردی کی سواری بنے گی،یعنی نون میں نقطہ ڈھونڈنے کا کام کرنے ناگپوری بھکت چھوٹی چڈی پہنے خوردبین لے کر نکلے ہیں ۔ اُن کی کسی نے نہ سنی، کچھ نہ بنا تو نوجوت کی داڑھی میں تنکوں کی تلاش شروع کی ، کہتے ہیں ہو نہ ہو کہیں سدھو پنجاب کی اعلیٰ کرسی کا دعویدار تو نہ بنا؟ کیا پتہ وہ مملکت خداداد میں ہی الیکشن لڑ بیٹھے۔ بھائی لوگو! راج نیتی میں ایسا چلتارہتا ہے۔ بے اعتبار الیکشن موسم میں جہاں کئی ریاستوں میں ناگپوری چڈیاں مزید چھوٹی ہونے کا ڈر ہے، وہاں راہداری کا سارا کریڈٹ سدھو کے پالے میں جاتے دیکھ مینڈکی کو زکام ہو جانا ہی ہے ؎
ہر حماقت کاکوئی مفہوم ہونا چاہئے
کیوں حماقت کی گئی معلوم ہونا چاہئے
چار سُو جو سیاست میں اندھے ہو چلے
آدمی کو عقل سے محروم ہونا چاہئے
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شاید جنرل باجوہ کی دیکھا دیکھی میںدلی کے سپہ سالار کو بھی ا ب ذراسا ہٹ کے دوسرے شغل فرمانے کا شوق چرایا ہے ۔ عالی جاہ کی دلچسپی اب ڈرون یلغاروں میں بڑھ رہی ہے۔ لطف کی بات یہ کہ پیشگی طور بولے اگر جنتا اُنہیں ڈرون حملوں کے اضافی نقصانات یا تباہیوں پر معاف کردیں تو وہ ڈرون استعمال کرنے کا شوق بھی فرمائیں گے ۔واہ کیا بات ہے کہ مرنے مٹنے والے اس بات کا بیان حلفی داخل کردیں کہ اگر ہم ڈرون سے پرلوک سدھاریں تو فوج پر الزام نہ آئے بلکہ ہم ہنسی خوشی موت کو گلے لگائیں گے تاکہ دیش بھگتی کے اِتہاس لکھا جائے کہ لوگوں کا ستیا ناس ہواضرور مگر فوجی باس کی طمع ِخام بھی پوری ہوئی۔ حلفی بیان میں مرنے والے یہ وعدہ وعید بھی دیں ہم بشری حقوق اداروں سے سورگ جاکر کیا خاک رجوع کریں کہ جنرل راوت کے شوق ِ ڈرون نے ہمیں جیتے جی مار ڈالا۔ہو نہ ہو آگے جنرل جی مرنے والوں سے ایک عدد توصیفی سند بھی بدیں الفاظ مانگیں : ڈرون حملے میں بنا درد بلا تکلیف مارنے پر ہمیں کوئی آپتی نہیں کیونکہ ویسے بھی مہنگائی اور بے روزگاری پل پل ہماری جان لے رہی تھی،اس لئے ہم سینا پتی کے اَبھاری ہیں کہ ایک ہی بار ویرتا دکھائی کہ نہ رہی بھینس نہ بجی بانسری ۔اور یہ ڈرون تھوڑی کوئی پیلٹ ہے کہ لگ جانے کے بعد ہسپتالوں کا چکر کاٹیں ، جراحتوں کا بار اٹھائیں، مصیبتوں کے دور سے گزریں اور ساتھ ہی پولیس بھی مفت میں آدھمکے کہ چلو بھائی کیس بن گیا۔ بتاؤ تمہیں بھلا پیلٹ کیوں لگا؟مانا کہ مارا ہم نے تھا لیکن لگا تمہیں ہی کیوں ؟ دال میں کیا کیا کالا ہے ؟ بتاؤ ورنہ ۔ یہ بڑا اہم سوال ہے جس کا جواب خود زخمی کو دینا ہو گا۔اس لئے تم ہی شکار بھی ، حریت پسندوں کا آلہ ٔ کار بھی، بندوق برداروں کا راز دار بھی ، جلسے جلوسوں کا سر تال بھی، سنگ بازی کا گرو گھنٹال بھی ،لہٰذا خود کو بے قصور بے گناہ ثابت کرنا بھی تمہارے ذمہ ۔ڈرون کے بھڑوں والے چھتے پر ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ مملکت خداداد یاد آئی ۔کچھ تو شاید سدھو کی مقبولیت دیکھ کر وزیر داخلہ کو بھی مملکت خداداد یاد آئی اور یہ ایک عدد نسخہ ٔ مشاورت ارسال کردیا : بھائی لوگو! اگر دہشت گردی سے لڑ نہیں پاتے ہماری مدد طلب کرو۔ شاید وزیر داخلہ نے اینٹ کا جواب پیلٹ سے اور پتھر کا جواب گولی سے دینے کے نئی فارمولہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نسخہ مانا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وزارت داخلہ کی نئی تحقیق میں سیب کے پیڑ بھی ملک دشمن ہیں، جبھی تو ان کو تہہ و تیغ کردیا جاتا ہے۔اور تو اور سیبوں کی بھرائی کے لئے جمع ڈبے نذر آتش ہوتے ہیں کہ یہ دہشت گرد سیبوں کی ڈُھلائی میں مدد دیتے ہیں ،یعنی خود سیب آتنک وادی ہوئے تو سیبوں کے ڈبے بالائی ورکر ۔اور جنرل صاحب نے بالائی وکروں کی بھی سزا وہی مقرر کر رکھی ہے جو بندوق بردار کی۔ جبھی تو سن سولہ میں ایک سو چالیس کی موت کو دودھ ٹافی خریدنے کا ووچر تسلیم کرلیا۔ہو سکتا ہے تازہ ترین عسکری بیس ماہ کی ہبہ نثار کو زیر کرنے پر فخر ہو کہ شاید یہی طریقہ مملکت خداداد کو بھی سکھانا چاہتے ہیں،یعنی سنگ اٹھایا ہی تھا کہ سر یاد آیا۔ جنرل نے مملکت کو سیکولر بن جانے کا مفت مشورہ بھی دیا بلکہ چیتاؤنی دے ڈالی کہ دوستی کرنی ہے تو سیکولر بن جائو نہیں تو ہم ذمہ دار نہیں ۔ لگتا ہے سپہ سالار نے سیکولرازم کا اصلی پاٹ ناگپور سے ہی حاصل کیا ہو گا جبھی تو اپنا علم اور تجربہ سرحد پار پہنچانا چاہتے ہیں۔سیکولرازم کی تعلیم کوئی سیکھنا چاہے تو مودیا۔ شاہ پاٹ شالہ میں داخلہ لے اور تین دن تک فوج کو انتظار کروانے کا ہنر سیکھے تاکہ بھکت جن اپنا غصہ اُتار دیں۔اور غصے کے عال میں گجرات کانڈ کی طرح منٹوںمیں دو ہزار نہتوں کا قتل کردیں، رحم ِمادر سے بچے نکال کر مار ڈالیں، آبرو ریزیانکریں ،املاک نذر آتش کردیں، احسان جعفری اوراخلاق احمد کی گم انگیز کہا نیاں خون کی روشنائی سے لکھیں ۔سیکولرازم کا فلسفہ کسی کو گھول کر پینا ہو تو گئوماتا کے پجاری یوگی آدتیہ ناتھ کی صحبت میں تھوڑا وقت گزارے جبھی تو مردہ مسلم خواتین کی بے حرمتی راس آئے گی۔گائے کے نام پر بے گناہوں کا گلا کاٹ دیں۔ ناگپوری سیکولرازم کی جڑ تک پہنچنا ہو تو ترشول بردار بجرنگیوں اور سینکوں سے سیکھ لیں کہ کس طرح رام مندر بنانے کے نام پر رام چند جی کے تیاگ کو بھول جائیں ، رام جی کی مانوتا سے آنکھیں پھیرلیں ، مسلم ودلت اقلیتوںکو دھمکیاں دیں کہ مان جائو نہیں تو جان جائو گے ۔ گویاسیکولرازم کا اصل سبق وہاں پڑھاجائے جہاں سے ہندو راشٹر کے بلبلے اٹھتے ہیں اور اقلیتوں کو مکین ِآسمانی بنانے کی تیاریاں ہوں۔
خیر یہ تو سیکولر بھارت ورش کی بات ہوئی جس کے ساتھ اپنے ہل والے الحاق کر کے تیس مار خان بنے تھے ۔یہ اور بات ہے تب سے کئی ہزار تیس مار اپنے ملک کشمیر میں اُچھلے، کودے۔ کوئی مانے نہ مانے ہم تو پہلے سے کہتے آئے ہیں کہ اپنے ہل والے نیشنلیوں کو اقتدار کی کوئی بھوک نہیں ۔ اب تو اپنے ہل والے قائد ثانی نے بھی اس کی تصدیق کردی کہ ہل والے اقتدار نہیں مانگتے، بس ایک ہی چیز مانگتے ہیں اور وہ ہے اہل کشمیر کے لئے عزت و آبرو کا مقام،۳۵؍اے اور ۳۷۰؍ کی حفاظت میں پوری نیشنل فوج بر سر پیکار ہے،ہاتھ میں تلوار ہے کاندھے پر لٹھ کے انبار ہیں ،اور دکھانے کو ہل کا پھل ہے۔حالانکہ ماضی میں بھی ہل برداروں نے اقتدار کو جھوٹ موٹ کی لات ماردی۔لال چوک میں من تو شدم تو من شدی کی لے پر کسی نے زبردستی اقتدار کی مالا پہنائی نہیں تو وہ اس کو لینے کے طرف دار نہیں تھے۔ سنہ۳ ۵ میں بلا دستخط پرچی کے عوض کرسی چھنی تو بائیس سال آوارہ گردی کی لیکن اقتدار کو منہ نہ لگایا۔ جیلوں میں رہ کر مرغیاں پالتے رہے مگر کرسی کی تمنا نہیں کی۔ بات تو تب بنی جب وزارت عظمیٰ سے گرکر مول تول کر کے وزارتِ اعلیٰ تک آگئے۔پھر آگے کچھ نہ بچا تو سبز رومال میں لال کوہستانی نمک کی ڈلی لپیٹ لی ۔وہ بھی یاد کرو کہ’’ الہ وانگن‘‘ بن جانے کے بعد ہی کرسی کو گلے لگایا۔کبھی ڈبل فاروق کا راگ الاپا کبھی راجیو فاروق کا دُم چھلا بنے ، اور اگر اقتدار کو منہ لگایا بھی تو خاندان کو ذی وقار اور عوام کو بے بہار بنانے کی نیت سے۔ وہ کبھی کرسی کے بھوکے نہ تھے بلکہ کرسی خود اُن کی پیاسی تھی۔ سن چھیانوے میں بلک بلک کر روئے کہ سارا ہندوستان ہمارے پیٹھ پیچھے کھڑا تھا اور جب زور زبردستی سے اقتدار کے پھول سر مبارک پر نچھاور ہوئے تب مرتا کیا نہ کرتا، کرسی پر براجمان ہونے کا من بنایا، ورنہ حیف ہے اس کرسی پرجس کی چار ٹانگیں اٹونومی کی لکڑی سے نہ ہو ؎
حالِ ہل کچھ اس طرح ہے ہمارا
یاد ِکرسی ہر پل کیا کرتے ہیں
جو نہ آئے کسی دن کرسی کا بلاوا
پرانا ہی یاد کرکے جیا کرتے ہیں
رابط ([email protected]/9419009169)