اپنی قلم دوات کنول مخلوط سرکار کو سنا ہے اہل کشمیر کی شناخت نہیں ہوتی حالانکہ اس نے فوج کیا، نیم فوجی کیا، ریاستی پولیس اور سب سے بڑھکر ٹاس پٹاس فورس بھی ان کے پیچھے لگا دی ہے کہ انہیں پہچانو ، جانو ، ان کے شناختی کارڈ چیک کرو اور پھر ایسے نشان ان کے جسم پر ڈال دو کہ یہ دور سے پہچانے جائیں۔اگر ٹانگ لہرا کر چلیں تو پتہ چلے کہ ٹارچر سینٹر میں دن گزار کے آیا ہے اور ٹانگوں پر رولر چلنے کے عتاب سے گزرا ہے اسلئے کشمیری ہے۔اگر بازو ٹیڑھا کر چلے تو معلوم ہو کہ کریک ڈائون یا تلاشی مہم میں ہینڈس اپ کرکے آیا ہے پھر واضح ہے کہ کشمیری ہے۔ جسم پر رنگ برنگے نشان ہوں تو سیدھا مطلب ہے کہ کسی جیل یا تھانے میں ہوا کے ساتھ ساتھ لاٹھیاں جوتے کھا کے لوٹا ہے اسلئے کشمیری ہے۔ سوجھے ہوئے چہرے ، بنا بینائی کی آنکھیں ،یا جسم پر اتنے چھید کہ پتہ نہ چلے سانس کہاں سے لیں اور پادیں کہاں سے، بھی اہل کشمیر کی نشانی ہے ۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ پیلٹ گن کا شکار ہوا ہے۔مگر مخلوط سرکار کو ان نشانات پر کوئی تسلی نہیں ہوئی نا ہی آدھار یا الیکشن کارڈ بھا گیا اسلئے مخصوص کشمیر کارڈ بنانے کی سوجھی۔ہم بھی کتنے سیدھے سادھے ہیں کہ کشمیر کارڈ کو کشمیر اکارڈ کے ساتھ خلط ملط کردیا اور خوشی سے ناچے گائے کہ شاید کوئی نیا کشمیر اکارڈ بنا جا رہا ہے ۔ایک طرف سے یشونت سنہا دوسری جانب دنیشور شرما کی خبریں جو موصول ہوتی رہیں تو کارڈ کے بدلے اکارڈ دماغ میں سرایت کرنا بن ہی جاتا ہے ۔ویسے ہماری کہانی میں اکارڈ کی اہمیت کون نہ جانے بلکہ ہم تو اکارڈ کی سیاست کے مار گزیدہ ہیں اور وہی تاریخی درد سہلا رہے ہیں ۔خیرمانا کہ سرکار کے ذہن میں اس الگ کارڈ کی شناخت سمجھ آگئی ہے لیکن ہم چونکہ صحافی ہے اسلئے اس کارڈ کے بارے میں بھی سوچتے رہے کہ نئے کارڈ کا وجود کیسا ہوگا ۔شکل و صورت کیسی ہوگی۔اس کا حجم کیا ہوگا اسکی پہنائیاں کیا ہونگی ۔اس بات پر سوچتے سوچتے ہماری رگ ظرافت پھڑکی اور مخلوط سر کار کا داغ داغ کا لا پیرہن ذہن میں کوندا۔ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اب کی بار مخلوط سرکار اہل کشمیر کے ماتھے پر شناختی کارڈ گودے گی جیسے جنگلوں میں پیڑوں پر نمبر گودے جاتے ہیں ۔اس کے لئے چھنی ہتھوڑے کی ضرورت پڑے گی ۔ایسے میں شناختی کارڈ ماتھے پر چھپیں گے اور کئی ایک لوگوں کو روزگار بھی نصیب ہوگا کہ مخلوط سرکار کو بیروزگار نوجوانوں کی سخت فکر لگی ہوئی ہے ۔اسی وجہ سے بانوئے کشمیر آجکل ضلعی صدر مقامات کا دورہ کرکے لوگوں کا حال چال پوچھتی ہے ۔ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کا حکم دیتی ہے ۔لوگ بجلی کا رونا روتے ہیں اور کم از کم اس دن بجلی کا چہرہ دیر تک دیکھ پاتے ہیں جب تک بانوئے کشمیر صدر مقام پر موجود رہے ۔ان کی آمد پر سڑکوں کے گڑھے بھرے جاتے ہیں بلکہ پانی کے ٹینکر گھوم کر لوگوں کی پیاس بجھاتے ہیں۔اب تو سنا ہے کہ پیلٹ سے بینائی کھونے والوں کا درد بھی یاد آیا ۔مشتے از خروارے کو سرکاری نوکری کے احکامات بھی اجرا کئے جارہے ہیں ۔یہ ہوئی نا بات کہ زخم بھی ہم ہی دیں اور مداوا کرنے بھی ہم ہی پہنچیں۔ہیلنگ ٹچ کی جے ہو!
ویسے مخلوط سرکار کو عام لوگوں کی ہی پریشانی نہیں بلکہ ممبران قانون سازیہ اور بیروکریسی کی بھی فکر ہے کہ جہاں عام لوگوں کو بہتر طبی سہولیات میسر ہوں وہاں یہ ممبران بھی مستفید ہوں۔بھلے ڈاکٹر اور دوائی نہ ہو لیکن شفا خانوں کی عمارتیں موجود ہوں۔ اور اگر عام لوگ سڑک کے کنارے دندان ساز کی خدمات حاصل کرکے درد دندان اخراج دندان کے دور سے گزرے لیکن ممبران سیاست دلی نوئڈا سرکاری خرچے پر جائیں کہ انہیں انفکشن کا زیادہ خطرہ رہتا ہے اسی لئے تو وی آئی پی یعنی very inscure person کہلاتے ہیں۔ ہم تو سڑک سڑک قریہ قریہ اپنی مرضی سے گھوم پھر سکتے ہیں لیکن انہیں تو بیت الخلا بھی وردی پوش سے پوچھ کے جانا پڑتا ہے۔ہم تو عام خام لوگ ہیں ہمیں سرداری عوام کا حق والے نعرے سے بہلایا گیا گو اصل بات ہے کہ ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی اور اہل سیاست ،آپ تو ہو ابند ہونے کی صورت میں بھی دلی کا ہی رخ کرتے ہیں کہ ان کی ہوا دلی دربار ہی نکال پاتا ہے ۔
ہم تو اہل کشمیر ہیں اسلئے اللہ میاں کی گائے ہیں ۔سمجھتے سب ہیں لیکن بولتے بہت کم ہیں ۔نظر تو رکھتے ہیں کہ سب کچھ تاڑ لیتے ہیں اسی لئے جب بانوئے کشمیر کنن پوشپورہ عصمت دری کیس کا پرچم اٹھائے شہر شہر مارچ پاسٹ کرتی تو ہم کہتے کہ خاتون ہونے کے ناطے ان کا جگر کتر کتر جاتا ہے کہ صنف نازک پر ہوئی زیادتی برداشت نہیں ہوتی۔اب کی بار جو بشری حقوق ادارے نے انہیں معاوضے کی سفارش کی ، ہائی کورٹ نے مہر لگا دی پر سرکار سپریم کورٹ اس کے خلاف رٹ دائر کرنے پہنچی ۔ہم تو انگشت بدندان رہہ گئے کہ ایسا کیا بدلا کہ کل والی بات یاد نہیں ۔پھر معلوم پڑا تب تو سرکار نہیں تھی، موٹروں کا پوں پوں نہیں تھا، ہٹو ہٹو کہنے والوں کا دھوں دھوں نہیں تھا ۔اب تو زمانہ بدل گیا ہے تب کرسی دلائو مہم جاری تھی اب تو کرسی بچائو مہم پر ہیں۔اور پھر پیسہ بچا ہی کہاں ہے کہ صنف نازک میں بانٹا جائے ۔ وہ تو ممبران سیاست و بیروکریسی نے طبی مشغلے میں اڑا دیا۔
ان پر مٹی ضرور ڈالیں گے
جو مسائل بھی سر اٹھائیں گے
سوچتا ہوں رات دن اتنا
اتنی مٹی کہاں سے لائیں گے
اپنے ہل والے قائد ثانی روز اول سے ہی قلم دوات والوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ اسی لئے ہم کبھی قلم کار ہوا کرتے تھے تو ڈر کے مارے مائوس کار بن گئے اور قلم کے بدلے کمپیوٹر مائوس سے لکھنا شروع کیا۔ مانو قلم دوات سے اس کی ذاتی چڑ ہے اسی لئے تو سیاسی مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ ڈاکٹری علم بھی اس نے قلم دوات کے بغیر ہی پاس نہیں پارکرلیا۔کوئی کہتا ہے کہ والد صاحب کی دوستی کام آئی ،کوئی کہتا ہے کہ پشمینہ شال نے گرمی دکھائی اور کوئی کہتا ہے ڈل کے پانیوں پر گھومتے شکارے اپنا کمال کر گئے۔خیر جو بھی ہو لیکن قلم دوات والوں سے قائد ثانی ۱۹۸۷ میں بھی نفرت کرتے تھے اور اب بھی سیاست واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دشمن کا دوست بھی دشمن گردانتے ہیں کہ اسی لپیٹے میں کنول والوں کو بھی باندھ دیتے ہیں ۔ ہم جو ماضی کے یارانے رکھتے ہیں نئی دوستی کیوں جوڑی۔آخر ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔اسی ناراضگی کے سبب کہہ بیٹھے بلکہ نیا بنگولہ پھوڑا کہ بھارت کے لوگ مسلمانوں پر بھروسہ نہیںکرتے۔ ارے واہ قائد ثانی کو اب بھارت کے اہل اسلام بھی یاد آئے۔ مگر قائد ثانی کا مقابلہ اس وقت بانوئے کشمیر سے ہی نہیں مودی مہاراج کی کنول برادری سے ہے۔وہ تو اس کی سیاسی پھس کا جواب قومیت کی ٹھُس سے دیتے ہیں اور کسی بھی بیان کا جواب مملکت خداداد کی جانب بیدخلی سے دیتے ہیں۔ادھر مودی مہاراج کا بھی کیا کہنا وہ تو ہر کسی کو چائے پلانے کا پلان ہاتھ میں لئے ہیں۔ گجرات الیکشن مہم کے دوران کہہ ڈالا کہ ۵ ۱۲ کروڑ بھارتی میرے بھگوان ہیں اور میں ان کی خدمت کر رہا ہوں ۔کسی میں ہمت نہیں کہ یاد دلائے کہ پی ایم صاحب وہ بیچارے بھوکے ہیں ، بے روزگار ہیں ، ناراض ہیں۔فاقہ کشی کے سبب خود کشی کر رہے ہیں۔خیر صاحب تم عیش منائو لوگ مرے جئیں تو اپنی قسمت سے۔آخرسب کا ساتھ سب کا وکاس میں مسلم شخص کو جلائو۔گائے کے گوشت کے نام پر مارو کاٹو، عشقیہ جہاد کے نام پر زندہ انسانوں کو آگ میں جھونک دو، فلموں کے نام پر سر کاٹو، بلکہ الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کی آبادی کم کروانے کا منتر بھی پڑھو۔ میدان صحافت کے مچھلی بازار میں اس بات پر سانپ تو سونگھ گیا ہے کہ کہیں پر کوئی نہیں بھونک رہا ہے اور اگر کوئی تنقید کرے اسے گرفتار کرلو۔ متروں، بھائیو ،بہنو کیا خوب ایجنڈا ہے۔لوگ تو کہتے پھریں گے کہ گجراتی میں ہم چھو وکاس اصل میںہم چھو بکواس ہے۔ ؎
یہاں پر نوٹ کے بدلے زمین کی لیز ممکن ہے
یہاں پر وو ٹ کے بدلے ٹائی اور قمیض ممکن ہے
یہاںپر تخت کی خاطر کسی کا خون بہتا ہے
یہ ایسا ملک ہے پیارے جہاں ہر چیز ممکن ہے
اہل اسلام کیا دنیا بھر کے دبے کچلے لوگ انکل سام سے خائف ہیں اسلئے دبے لفظوں یا ببانگ دہل نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔جمہوریت کا دعویٰ کرکے مصر، لیبیا ، عراق وغیرہ میں جمہوریت کو تہہ تیغ کرواتے ہیں۔اپنی جنگی مصنوعات کے بازار کے لئے جنگیں لڑواتے ہیں۔انصاف اور برابری کی دہائی دے کر صیہونیت کی امداد کرتے ہیں۔جیسے سارا فلسطین یہودی غصب کے نیچے نہیں تھا کہ نیا تنازعہ کھڑا کر کے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کیا۔دنیا بھر سے تنقید جاری ہے لیکن ٹرمپ اپنی جگہ عالمی تھانیداری کا رعب جمائے بیٹھا ہے۔بیچارے مسلم ممالک کے سربراہان چوکیداری کی وردی پہنے خاموشی سے دبے الفاظ میں احتجاج کررہے ہیں کہ کہیں انکل جی ناراض نہ ہوں۔رہہ رہہ کے خیال آتا ہے کہ یہ ٹرمپ ایسا اعلان ملک کشمیر میں کردے پھر جواب میں لہرائے جانے والی کانگڑیوں کا بمبار دیکھے ۔
سامراج سے ڈرنے والے ڈونالڈ نہیں ہم
کہ کونڈل کا کانگڑی کا قومی نشان ہمارا
سب نے تو سنا ہوگا کہ کار نجار بدست گلکار کوئی اہم فریضہ ہے۔اور اپنے ملک کشمیر میں اس کا چلن عام ہے۔یہاں قصائی دوائیاں بیچتا ہے، قلم کار گاڑی چلاتا ہے، ڈاکٹر کی بہن طبی نسخہ لکھ دیتی ہے، استاد مکان تعمیر کے دوران ضروری مشورے دیتا ہے۔اور سب سے بڑھکر علاج ڈاکٹر سے کرواتے ہیں لیکن پرہیز کے معاملے میں دفتری ساتھی کا مشورہ مانتے ہیں۔اسلئے کھیل کود میں بھی اگر ایسا تجربہ ہوا تو کیا مضائقہ۔دلچسپ بات ہے کہ اسی نہج پر گزرتے سابق پولیس افسر کو کرکٹ سنبھالنے کا کام سونپا گیا۔جب اتنا کچھ ہو سکتا ہے تو کرکٹ کیوں پیچھے رہے ۔شاید اسی لئے کسی منچلے کسی دل جلے نے یہ شعر بولا نہیں ،بقول سدھو کھڑکا دیا
اب رائفل بٹ سے اپنے یہاں کرکٹ کھیلا جائے گا
عجب نہیں گر گیند کے بدلے گرنیڈ اچھالا جائے گا
رابط[email protected]/9419009169