۸؍نومبر کونوٹ بندی کی پہلی برسی تھی۔حکومت نے اس کی پہلی سالگرہ منائی۔ایسا کہیںہوتا نہیں ہے کہ کسی ایک ہی دن کوبرسی اور سالگرہ دونوں کے طور پرمنایاجائے ۔ حزب ِ اختلاف خاص طور پر کانگریس نے اسے سیاہ دن یعنی ’بلیک ڈے ‘کا نام دیا تھا لیکن حکومت نے جوابی حملہ کرتے ہوئے اسے ’اینٹی بلیک منی ڈے‘ کانام دے دیا اور اس کے وزراء اسی ایک بات پر زور دیتے رہے کہ بلیک منی یعنی کالا دھن کے خاتمے کے لئے ہی نوٹ بندی کی گئی تھی جس میں حکومت کامیاب ہے اورچونکہ کانگریس کا بلیک منی سے رشتہ پرانا ہے اور بدعنوانی کر کے کانگریس کالا دھن پیدا کرنے میں یقین رکھتی ہے اس لئے اسے نوٹ بندی جیسے بے باک اقدام سے چِڑ ہے۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی،وزیر ریل پیؤش گوئل اور وزیر قانون روی شنکر پرساد نوٹ بندی کی دفاع میںاپنی توانائی صرف کرتینظر آئے اور اپنے اُلٹے پلٹے جوابات سے سوال کرنے والوں کو اپنے طور پرمطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔وہ اپنی دانست میں بھلے ہی کامیاب نظر آرہے تھے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ نوٹ بندی کے جو چار مقاصد وزیر اعظم نے ۸؍نومبر ۲۰۱۶ ء کو اپنے قوم سے خطاب میں ۸؍بجے رات کو بیان کئے تھے کہ آج رات کے ۱۲؍بجے سے ۵؍ سو اور ہزار کے نوٹ بند کر دئے جائیں گے یعنی کہ ان نوٹوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہے گی بلکہ وہ اب ردّی میں شمار ہوں گے،وہ مقاصد کہیں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں ورنہ روی شنکر پرساد کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ’’ نوٹ بندی سے عصمت فروشی کے کاروبار میں کمی آئی ہے۔اس سے معاشرہ تو پاک صاف ہو ہی رہا ہے ،ساتھ ہی جو لوگ اس میں اپنی دولت برباد کر رہے تھے وہ دولت اب بچ رہی ہے ورنہ ایک بڑی رقم نیپال اور بنگلہ دیش چلی جا رہی تھی۔‘‘اسی کو بہکا ہوا بیان کہتے ہیں ۔
اب مودی حکومت کا کوئی وزیر یہ کہے کہ جی ایس ٹی نافذ کرنے کے بعد لاٹری کا کاروبار اگر ٹھپ پڑ گیا ہے تو یہ اچھا ہی ہے کہ اس سے سماج میں سدھار پیدا ہوگا لیکن یہ بیان بھی کتنا مضحکہ خیز ہوگا۔حالانکہ ایسا حقیقتاً ہوا ہے اور ۲۸؍فی صدی جی ایس ٹی کے لگنے کے بعد لاٹری کا کاروبار دھول چاٹ رہا ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں اس سے وابستہ افراد گھر بیٹھ گئے ہیں ۔اُن کی دکانیں اور مشینیں بے کار ہو گئی ہیں ۔صوبائی حکومتوں کو جو اس سے ٹیکس ملتا تھا وہ بھی آدھے سے کم رہ گیا ہے جو کروڑوں میں ہوتا ہے۔اس طرح کے’ اخلاقی سدھار ‘کوئی حکومت ٹیکس لگا کر نہیں لا سکتی۔وہ چاہے تو سرے سے لاٹری پر پابندی لگا دے ،عصمت دری کے کاروبار پر قد غن لگانا بھی اس کے اختیار میں ہے ،ساتھ ہی شراب بندی کرکے بھی وہ معاشرے کو کلین کر سکتی ہے لیکن حکومت ایسا نہیں کرے گی اور خاص طور پر مودی حکومت تو قطعی نہیں کرے گی بلکہ اپنے وزیروں سے بے تکے بیانات دلوا کر جوازات فراہم کرتی رہے گی۔ایک نظر میں توایسا لگے گا کہ یہ حکومت سچ میں بھلائی کا کام کر رہی ہے لیکن در اصل یہ اپنے ہی لوگوں کو فریب دے رہی ہے۔
نوٹ بندی کے جو ۴؍مقاصد وزیر اعظم نے بیان کئے تھے وہ یوں تھے:کالا دھن کا خاتمہ، بدعنوانی سے نجات، دہشت گردی کا قلع قمع اور جعلی کرنسی کا صفایا۔ایک برس کے بعد اِن تمام مقاصد پر اب بات ہو سکتی ہے کہ آیا یہ پایۂ تکمیل کو پہنچے یا نہیں۔پہلے ہم کالا دھن کو لیتے ہیں ۔دراصل نوٹ بندی سے کالا دھن کا خاتمہ تو نہیں ہوا البتہ کالا دھن سفید یعنی وہائٹ ہو گیا ۔ مطلب جن لوگوں کے پاس نقدی رقم تھی وہ بینکنگ سسٹم میں ضرور آگئی لیکن ساتھ ہی اُن کا روپیہ سفید ہو گیا (بینک اور حکومت کی نظرمیں )۔بینکو ں میں جو کیش جمع کئے گئے تھے ظاہر ہے کہ اب تک وہ بینکوں میں پڑے نہیں ہوںگے اور لوگوں نے اپنے اپنے روپے نکال لئے ہوں گے اور وہ پھر سے بلیک ہو گئے کیونکہ وہ اصل مالک کے پاس پہنچ گئے۔اسے میں ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔زیادہ تر کیش سیاست دانوں کے پاس ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اس کی ضرورت رہتی ہے۔ہندوستان کے ہر علاقے میں ایک ایک نامی اور با اثرسیاست داں موجود ہیں جن کی اس علاقے میں طوطی بولتی ہے ۔سب کو پتہ ہے کہ ان کے پاس کام کرنے والوں کی تعدادہزاروں میں ہوتی ہے جنہیں پارٹی ورکر کہا جاتا ہے۔یہ اپنے باس کے وفادار توہوتے ہی ہیں ان کے لئے لڑنے مرنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔اگر ڈھائی لاکھ روپے جو انکم ٹیکس کی حد ہے، ہزار ورکر کے کھاتے میں جمع کروا دی جائے تو یہ رقم بنتی ہے ۲۵؍ کروڑ روپے۔وزیر اعظم مودی کے جن دھن کھاتہ کی مہربانی کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکا کہ جن کے کھاتے نہیں تھے وہ بھی اس اسکیم کے تحت کھاتہ دار ہوگئے تھے اور یہ روپے اسی کھاتے میں جمع بھی ہوگئے۔اس لئے یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت انجام دیا جانے والا قدم تھا کہ کس طرح نقدرقم کو سفید اور پھر بلیک بنایا جائے اور اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔وفادار ورکر اپنے مالک کے غلام ہوتے ہیں ۔اس کی ایک آواز پر سب اپنے اپنے کھاتے سے نقد رقم نکال کر مالک کے سپرد کر دیتے ہیں ۔اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مودی جی کا پہلا مقصد کالا دھن کا خاتمہ پوری طرح ناکام ہو گیا کیونکہ انہیں بھی پتہ ہے کہ کالا دھن پھر اسی طرح گردش میں ہے جس طرح نوٹ بندی سے پہلے تھا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔وہ اس لئے کہ ۲۰۰۰؍ روپے کی بڑی کرنسی کالے دھن میں اضافے کا سبب بنی ہے،یہ ایک اندھا شخص بھی سمجھتا ہے بھلے ہی حکومت میں بیٹھے ہوئے حکومت کے تنخواہ دارحکومت کی کتنی ہی دفاع کیوں نہ کریں!
اسی طرح پہلے کے مقابلے میں بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوا ہے کیونکہ حکومت سے وابستہ کوئی فائل بغیر رشوت کے نہیں سرکتی۔سرکاری ملازموں کو ۲۰۰۰؍روپے کی کرنسی لینے میں آسانی بھی ہوتی ہے۔دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں یہ نوٹ بندی پوری طرح ناکام رہی ہے کیونکہ اس کے بعد اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔وزراء یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کشمیر میں پتھربازی میں کمی آئی ہے۔یہ کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ پتھر بازی کرنے والے بغیر کسی مقصد کے پتھر بازی نہیں کرتے!نئی جعلی کرنسی بھی کئی بار پکڑی گئی جب کہ نیا نوٹ آنے سے پہلے سوشل میڈیا اورکچھ ٹی وی چینلوں کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ نئے نوٹ میں ایک چِپ ہوگا جو زمین اور پانی کے اندر بھی اپنی موجودگی کے بارے میں بتا دے گا۔یہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا۔بھلا بتائیے !مودی بھکتی میں لوگوں نے اور چینلوں نے کیا کیا نہیں کیا؟
خیر یہ تمام مقاصد جب ناکام ہو گئے تو مودی اور حکومت کے ذریعے یہ کہا جانے لگا کہ اس سے ڈیجیٹائزیشن میں اضافہ ہواہے اور ہم ’ڈیجیٹل انڈیا ‘ کی طرف تیزی سے گامزن ہیں اور ٹیکس جمع کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اس ’ڈیجیٹل انڈیا ‘کی حقیقت ایک واقعے سے سمجھانا چاہوں گا۔چند دنوں قبل ممبئی کے علاقے وِکھرولی میں واقع مہندرا اینڈ مہندار کے بڑے ورک شاپ و آفس میں ایک ٹرانسپورٹر دوست کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔داخلے کے مقام پر ’گیٹ پاس ‘ کے لئے وہاں موجود مشین کے ذریعے تصویر لی گئی اور دستخط بمع انگوٹھا بھی لیا گیا اور فوراً ہی ایک پرچی تھما دی گئی جس میں تصویر کے ساتھ تمام تفصیلات آگئی تھیں۔میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ ایسا کب سے ہوتا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ تقریباً۸۔۹؍ برسوں سے تو میں یہاں آرہا ہوں اور جب سے ہی اسی طرح گیٹ پاس جاری کئے جاتے ہیں ۔میں نے ان سے یہ کہا کہ در اصل اسے ہی تو ’ڈیجیٹل‘ کہتے ہیں اور یہ مودی جی آج ’ڈیجیٹل ۔ڈیجیٹل‘ کر رہے ہیں ۔جن کے پاس وسائل ہیں وہ دہوں پہلے اِس ٹکنالوجی کو اپنائے ہوئے ہیں اور اس میں مودی جی کو کریڈت لینی نہیں چاہئے۔وقت اور حالات کے ساتھ چیزیں اپنے پیمانے میں ڈھلتی جاتی ہیں اور جو چیز رضاکارانہ اپنائی جائے اس میں دونوں کو خوشی ملتی ہے۔زور زبردستی ٹھیک نہیں ہے۔یہ حکومت اب بھی اسے سمجھ لے تو اس کے لئے ہی بہتری کی بات ہوگی ۔رہی دوسری بات کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس نوٹ بندی کی وجہ سے تو مودی جی یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ٹیکس سو دو سو روپے بھی بھرے جاتے ہیں،صفر بھی اور منفی یعنی مائنس میں بھی۔اس لئے مودی جی اور ان کے بے مہار وزراء اپنے ہی لوگوں کو بے وقوف بنانا چھوڑ دیں اور جو وقت بچا ہے اُس میں کچھ مثبت کام بھی کر جائیں تاکہ دنیا انہیں یاد رکھے کیونکہ مودی اور ان کی حکومت کے ذریعے آج تک جو کام ہوئے ہیں یا کئے گئے ہیں اُن تمام کا اثر منفی ہی پڑا ہے اور ہندوستان کا ایک ایک شہری اس سے متاثر ہوا ہے۔٭
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883
������