جب بھی نومبر آتا ہے تو ریاست کے ہر باشعو ر انسان پر اداسی کی عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اسی نومبر میں کئی زخم زخم واقعات تاریخ میں رقم ہوتے دیکھے ہیں۔ ہٹلر کی نسل کشی بھی صیہونیوں نے زبان زد عام کر دی ہے لیکن جموں میں مسلمانوں کی نسلی کشی سے دنیا بے خبر ہے لیکن لا تعداد لوگ ان سیہ دل واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ ان خون خوار واقعات کے ذکر سے ان کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہتے ہیں ۔ آج سیکڑوں افراد بقید حیات ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیاروں کے گلے کاٹے گئے،ان کو قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا گیا،خواتین عزتیں بچانے کے لئے کنوئوں میں کود گئیں اور ہر چہار جانب قیامت برپا تھی۔بزرگ صحافی اور دانشور قیوم قریشی (جو94سال کی عمر میں وفات پا گئے)نے ایک بار نومبر ۴۷ء کے جموں کی تصویر کشی یوں کی بتایا ’’ اس زخم کی کہانی کا آغاز جمعرات6 نومبر 1947 ء کو صبح تقریباً دس بجے جموں شہر کے چار ہزار سے زیادہ مسلمانوں سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرکوں کی پولیس لائنز جموں سے روانگی کے ساتھ ہوا، ان معصوم لوگوں کو یہ جھانسہ دیا گیا تھا کہ انہیں ٹرکوں اور بسوں کے ذریعے سوچیت گڑھ پہنچا دیا جائے گا، جو سیالکوٹ اور جموں کے درمیان سرحدی قصبہ ہے۔ یہ اس طرح کا دوسرا قافلہ تھا جو جموں سے روانہ ہوا تھا۔ اس سے ایک دن پہلے یعنی بدھ 5 نومبر 1947 ء کو بھی سیالکوٹ پہنچانے کے جھانسے کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا، اس قافلے کا کیا حشر ہوا تھا، وہ ایک الگ داستانِ غم ہے۔ پہلے قافلے میں تو میں شامل نہیں ہوسکا تھا لیکن دوسرے دن میں نے کسی نہ کسی طرح ایک بس کی چھت پر جگہ حاصل کرلی اور پھر وہ پورا خون آشام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جو قافلے کے مسافروں کے قتل عام کی صورت میں ڈوگرہ اور مہاراجی فوجیوں اور انتہا پسند ہندوؤں اور سکھوں نے عملایا اور یہ وحشیانہ بر بریت جموں میںبشناہ جانے والی سڑک پر نہر کے کنارے صبح گیارہ بجے سے تین بجے سہ پہر تک جاری رکھا تھا۔‘‘ 1947کاماہ نومبر جموں ڈویژن کے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کر کے اس مسلم اکثریتی خطے کے مسلمانوں کواقلیت میں بدل ڈالا۔چشم فلک اب کشمیریوں کی نسل کشی دیکھ رہا ہے۔ قیام پاکستان کی سب سے بڑی سزابالخصوص جموںکے مسلمانوں کو ملی۔چند دنوں میں3لاکھ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔’’سٹیٹس مین ‘‘ا خبار کے ایڈیٹر آئن سٹیفن کی کتاب’’ ہارنڈ مون‘‘،’’کشمیر ٹائمز ‘‘کے مدراسی ایڈیٹرجی کے ریڈی اور’’ لنڈن ٹائمز‘‘ نے تصدیق کی کہ اکتوبرنومبر1947ء کو جموں اور اس کے نواح میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔انگریز مصنف ومورخ آلسٹر لیمب نے اپنی کتاب ’’ان کمپلیٹ پارٹیشن‘‘ میںلکھا ہے کہ ہندو شرپسندوں کی لوٹ مار کے دوران بستیوں، بازاروںاور350 مساجد کو آگ لگا دی گئی۔ جموں ضلع میں 1941 ء میںمسلمان کل آبادی کا 60 فیصد تھے اور 1961ء میں وہ صرف 10فیصد رہ گئے۔6نومبر1947ء کو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ، مہارانی تارا دیوی ، ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل اور سابق وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کی مکمل آگاہی اوروزیر اعظم ہند جواہر لال نہرو کی ہدایت پرمسلمانوں کو گاڑیوں میں سیالکوٹ پہنچانے کے بہانے راستے میں ہی بے دریغ شہید کیا گیا۔مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ4؍ نومبر 1947ء کو ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھابھائے پٹیل، وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ سردار دیوندر سنگھ نے جموں میں مہاراجہ کی مشاورت سے تیار کیا تھا۔ جموں ڈویژن سے مسلمانوں کی نسلی صفائی میں جن سنگھیوں کو خوب خوب استعمال کیا گیا۔اس سے پہلے قبائل کشمیر میں داخل ہوئے تو ڈوگرہ مہاراجہ 25؍ اکتوبر 1947ء کو وادیٔ کشمیر سے فرار ہوگیا۔ سرینگر سے جموں پہنچ کر رانی تارا دیوی نے سر کے بال بکھیر دیئے۔ چیخ و پکار کی کہ مسلمان غلاموں نے کشمیر ہم سے چھین لیا۔ انتہا پسند ہندوئوں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کی ترغیب ملی اور بلوائیوں میں اسلحہ تقسیم کیا گیا ۔ تمام مسلمان افسروں کو نوکریوں سے برطرف کر نے کے علاوہ یہ انتظام کیا گیا کہ کوئی مسلمان افسر کسی ذمہ دار عہدے پر فائز نہ رہے۔کہا جاتا ہے کہ 30؍ اکتوبر 1947ء تک پورے جموں میںایک بھی مسلمان افسر کسی اہم اورذمہ دار عہدے پر فائز نہ تھا۔
مہاراجہ پٹیالہ نے شرپسندوں کی کمک جموں داخل کی ۔ قتل عام اورلوٹ مار کے بعد ہی مسلمانوںنے جموں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو فوجیوں کی حفاظت میں لاریوں میںپاکستانی سرحد پر آر ایس پورہ، ارنیہ، ڈگیانہ علاقوں میں اندھا دھند گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ عورتوں کو علیٰحدہ کرکے ان کے برہنہ جلوس نکالے گئے۔ان میں بعض کو اغواء بھی کیا گیا جن کا آج تک کوئی اَتہ پتہ نہیں۔ہزاروں مسلم عورتیں عصمتیں بچانے کے لئے دریا میں کود گئیں ۔اس طرح جموں کے مسلمانوں پرقیامت ٹوٹ پڑی۔مسلمانوں کے قتل عام میں پنجاب کے راجواڑوں، پٹیالہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ اور نواحی علاقوں کے مہاراجوں نے بھی حصہ لیا۔ راشٹڑیہ سیوک سنگھ، ہندومہاسبھا اور ا س و قت کی اکالی دل کے جتھوں نے ایک دوسرے پر خون ریزیوں میں سبقت لی ۔شیخ عبداللہ اپنی خود نوشت آتش چنار میںلکھتے ہیں کہ: 5؍ نومبر 1947ء کو جموں شہر میں ڈھنڈورہ پٹوایا گیا کہ مسلمان پولیس لائنز میںحاضر ہو جائیں تاکہ انہیں پاکستان بھیجا جاسکے۔ مسلمان بچوں اور عورتوں کے ساتھ حاضر ہوگئے۔انہیں چالیس ٹرکوں کے قافلے میں سوار کیا گیا۔ ہر ٹرک میں 60 افراد سوار تھے۔ انہیں سانبہ کے قریب ایک پہاڑی کے نزدیک اُتارا گیا جہاں مشین گنیں نصب تھیں۔ جوان عورتوں کو الگ کرکے باقی تمام جوانوں، بچوں اور بوڑھوں کو آن کی آن میں گولیوں سے اڑا دیا گیا ۔یہی سلوک کئی قافلوں کے ساتھ ہوا۔ جس طرح پٹیالہ، فرید کوٹ اور کپور تھلہ میںمسلمانوں کا مکمل صفایا کیا گیااسی طرح جموں سے مسلمانوں کا صفایا کرنا مقصود تھا۔کشمیر پر 27اکتوبر1947ء کوبھارتی فوج کی تحویل میں دینے سے قبل ڈوگرہ فوجیوں نے 20؍ اکتوبر 47ء کو اکھنور میںمسلمانوں کو پاکستان لے جانے کیلئے جمع کیا او ر انہیں بھی شہید کیا گیا۔ 23؍ اکتوبر کو جموں کے آر ایس پورہ شاہراہ پر جمع 25 ؍ہزار مسلمانوں پر ڈوگرہ اور پٹیالہ فورسز نے اندھا دھند گولیاں چلاکر شہید کیا۔ آر ایس پورہ تحصیل میںمسلمانوں کے 26دیہات تھے۔ آج وہاں چند گھر ہی نظر آتے ہیں۔ جموں شہر کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار تھی جو 20 سال بعد 1961ء میں کم ہوکر صرف 50 ہزار رہ گئی۔مسلمانوں کی نسل کشی میںدہشت گرد تنظیموں آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا اور دیگر فرقہ پرست جماعتیں پیش پیش رہیں جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر میںداخل ہوکر مقامی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کٹھوعہ، سانبہ، ادھمپور، بھمبر، نوشہرہ، ہیرانگر، رام گڑھ، آر ایس پورہ، ارنیہ، سچیت گڑھ، جموں ، بٹوت حتیٰ کہ مظفر آباد میں بھی ڈیرے ڈال دئے تھے۔ مہاراجہ نے ان دہشت گردوں کی خوب آئو بھگت میں اپنے حقیقت پسند کشمیری پنڈت وزیر اعظم پنڈت رام چند کاک کو برطرف کر کے مہارانی تارا دیوی کے قریبی رشتہ دار ٹھاکر جنک سنگھ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ بعد میں بائونڈری کمیشن کے ممبر مہر چند مہاجن جیسے مسلم دشمن غیر ریاستی شخص کو کشمیر کا وزیراعظم بنایا گیا۔ مہاجن کو لارڈ موئونٹ بیٹن اور کانگریس ہائی کمان تک رسائی حاصل تھی، بعد ازاں مہر چند مہاجن کو چیف جسٹس آف انڈیا بنایا گیا۔ جموں ڈویژن کے 10اضلاع ہیں اور 1947ء کومسلمانوں کی منظم اور وسیع پیمانے پر نسل کشی اور انخلاء کے باوجود ضلع ڈوڈہ ، کشتواڑ ، پونچھ اور راجوری میں80فیصد مسلم آبادی ہے جب کہ ریاسی ، ادھمپور، کٹھوعہ اور جموں اضلاع میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت کے طو رپر موجو دہیں۔ جموں خطے سے ہجرت کرنے والے پاکستان میں کراچی سے کوہالہ تک لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔انہیں دوہری شہریت حاصل ہے۔آزاد کشمیر اسمبلی میںمہاجرین جموں مقیم پاکستان کے لئے 6نشستیں مختص ہیںلیکن نئی نسل اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں سے بے خبر اور لاتعلق ہو رہی ہے ۔ شہدائے جموںکا تقاضا ہے کہ کشمیری جسد واحد بن کر لسانی،علاقائی اور برادری ازم یا ادھر ہم ادھر تم جیسے فتنوںسے بچتے ہوئے ۴۷ سے آج تک کے شہداء کے مشن کو پورا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اورکچھ شہدائے ریاست کے پاک مشن کی آبیاریہ کے لئے کا م آئیں۔