محمد عرفات وانی
دنیا کے ہر دور میں نوجوان معاشرتی ترقی اور تمدنی ارتقاء کی بنیاد رہے ہیں۔ نوجوانی ایک ایسا سنہری مرحلہ ہے جہاں انسان کے اندر توانائی، جوش و جذبہ اور تخلیقی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے نوجوان خوداعتمادی کی کمی کا شکار ہیں۔ وہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچاننے اور استعمال کرنے سے قاصر ہیں اور اس کا اثر صرف ان کی ذاتی زندگی پر نہیں بلکہ سماج اور ملک کی ترقی پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ خوداعتمادی یا Self-Confidence وہ طاقت ہے جو انسان کو اپنے خوابوں کی طرف بڑھنے، نئے تجربات اختیار کرنے اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کی ہمت دیتی ہے۔ جب یہ طاقت کمزور ہو جائے، تو نوجوان اپنے اندر پوشیدہ امکانات کو ضائع کرنے لگتے ہیں۔کشمیر میں موجود نوجوان اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ یہاں کے نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں، لیکن عموماً معاشرتی دباؤ، سیاسی انتشار اور ذاتی خوف کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا مکمل استعمال نہیں کر پاتے۔ ایک نوجوان جس کے اندر شاعری، تحقیق، یا سائنسی تخلیق کی قابلیت موجود ہے، اگر خوداعتمادی نہ رکھے تو وہ اپنے خوابوں کو صرف خیالی محفلوں میں محدود رکھ دیتا ہے۔ مشہور مفکر البرٹ آئنسٹائن نے فرمایا تھا، ’’اعتماد اپنے اندر کی طاقت پہ یقین کرنے کا نام ہے اور جو انسان اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے، وہ دنیا بدل سکتا ہے۔‘‘
خوداعتمادی کی کمی کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب والدین اور معاشرے کی جانب سے نوجوان پر دباؤ ہے۔ والدین اکثر بچوں سے زیادہ توقعات رکھتے ہیں اور اگر وہ اپنے فرزند کی دلچسپی یا جذبہ کی حمایت نہیں کرتے تو نوجوان اندرونی طور پر دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی نظام بھی اکثر طلبہ کے تخلیقی اور عملی صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے، کیونکہ یہاں صرف رٹنا اور امتحانی نمبروں پر توجہ دی جاتی ہے۔ کشمیر کے بہت سے نوجوان جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں، وہ بھی اپنی دلچسپی کے مطابق خود کو منوانے میں ناکام رہ جاتے ہیں، جس سے ان کی خوداعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ایک اور سبب معاشرتی موازنہ اور تنقید ہے۔ آج کے نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت دوسروں کی زندگیوں سے خود کا موازنہ کرتے ہیں۔ جب وہ اپنی زندگی میں کمی اور کمیابی محسوس کرتے ہیں تو وہ خود کو کمتر اور کمزور سمجھنے لگتے ہیں۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ خوداعتمادی کسی اور کے معیار پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی ترقی اور قابلیت کو پہچاننے پر مبنی ہوتی ہے۔ جیسے مشہور فلسفی رالف والڈو ایمرسن نے کہا ہے،’’اپنی قدر خود پہچانو اور دنیا کی رائے تمہیں کبھی محدود نہ کرے۔‘‘
نوجوان کی خوداعتمادی میں کمی کا سب سے بڑا اثر سماج کی ترقی پر پڑتا ہے۔ جب نوجوان اپنے خوابوں اور صلاحیتوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے سے قاصر ہوں، تو نئی ایجادات، نئے خیالات اور سماجی اصلاحات رک جاتی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو نوجوانوں کی تخلیقی توانائی کو بروئے کار نہیں لاتا، وہ ترقی کی رفتار میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ کشمیر کے نوجوان اگر سیاسی یا معاشرتی دباؤ کے خوف سے اپنی رائے یا صلاحیت ظاہر کرنے سے گریز کریں، تو نہ صرف اپنی شخصیت کی ترقی رک جاتی ہے بلکہ پورا سماج بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔
نوجوانوں کی خوداعتمادی کی کمی کے علاج کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلا قدم خودشناسی ہے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر انسان میں منفرد صلاحیتیں موجود ہیں اور انہیں پہچاننا اور بڑھانا ضروری ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ نوجوان کی دلچسپیوں اور خوابوں کی حمایت کریں نہ کہ صرف معاشرتی یا تعلیمی معیار کے مطابق انہیں پرکھیں۔ کشمیر میں کئی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شوق اور دلچسپی کو پروان چڑھایا اور آج وہ اپنی فیلڈ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، جو ایک بہترین مثال ہے کہ حوصلہ اور خوداعتمادی معاشرتی ترقی میں کس قدر اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔دوسرا قدم نوجوانوں میں حوصلہ افزائی اور مثبت ماحول فراہم کرنا ہے۔ نوجوان جب کامیاب لوگوں کی کہانیاں سنتے ہیں، جیسے مشہور شاعر اور عالم مولانا رومی، یا جدید سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ، تو انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ مشکل حالات میں بھی خوداعتمادی اور مستقل مزاجی سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مولانا رومی نے فرمایا،’’دل کی ہمت کبھی کم نہ ہونے دو، کیونکہ ہر چیلنج کے پیچھے تمہاری کامیابی چھپی ہے۔‘‘
تیسرا قدم نوجوانوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی تعلیم دینا ہے۔ اکثر نوجوان خوف کی وجہ سے نئے تجربات سے گریز کرتے ہیں، لیکن یہی تجربات انہیں مضبوط اور پختہ بناتے ہیں۔ کشمیر کے نوجوان جو مختلف چیلنجز، جیسے معاشرتی رکاوٹیں یا تعلیمی مشکلات، کا سامنا کرتے ہیں، وہ اگر ان سے نہ گھبرائیں اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں تو وہ معاشرتی اور قومی ترقی کے ستون بن سکتے ہیں۔آج دنیا کی ترقی انہی معاشروں سے جڑی ہے جہاں نوجوانوں کی خوداعتمادی کو فروغ دیا گیا۔ اگر ہم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور انہیں سیکھنے، بڑھنے اور غلطیاں کرنے کا موقع دیں، تو ہم ایک مضبوط، تخلیقی اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ کشمیر کی مثال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرتی تبدیلی لا سکتے ہیں، اگر انہیں صحیح رہنمائی اور حوصلہ ملے۔
اختتاماً، نوجوانوں کی خوداعتمادی کسی معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو حوصلہ دیں، ان کی صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں مثبت ماحول فراہم کریں، تو نہ صرف کشمیر بلکہ پورا ملک اور دنیا ایک روشن، ترقی یافتہ اور تخلیقی مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہر نوجوان ایک چھپی ہوئی روشنی ہے اور جب یہ روشنی اُجاگر ہوتی ہے تو تاریکی میں بھی امید کی کرن بن جاتی ہے۔اس لئےنہ صرف اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کریں، بلکہ سماج کی ترقی میں ایک مثال قائم کریں۔ نوجوان خوداعتمادی کی قوت سے دنیا بدل سکتے ہیں اور یہ تبدیلی ہر معاشرتی، تعلیمی اور علمی رکاوٹ پر غالب آ سکتی ہے۔آئیے ہم سب مل کر نوجوانوں کو یہ پیغام دیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں، خوداعتمادی کے ساتھ آگے بڑھیں اور سماج میں وہ کردار ادا کریں جو دنیا کو حیران کر دے۔