سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ، بڈگام
ایک طالب ہونے کے علاوہ میں ایک نجی کوچنگ سنٹر میں کام کرتا ہو۔ میں لگ بھگ ہر قسم کے طلباء کا مشاہدہ کرتا ہو۔ کچھ شرارتی اور کچھ شریف النفس ہیں۔کچھ فیشن کے پروردہ ہے اور کچھ اپنی معمولی قیمت کے ملبوسات پہن کر اپنی پڑھائی میں مگن ہیں ۔ حصول علم فرض ہے البتہ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کی طرح علم کے شعبے میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ پرانے زمانے میں صرف زمینداری اور کسی حدتک پڑھائی ہوتی تھی،بیشتر لوگ کوئی ہنر سیکھ کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ تفریحی کے زیادہ سامان مہیا نہ تھے۔ قدرتی ماحول صاف تھا اور لوگ اس میں مزے لوٹا کرتے تھے۔ باہری دنیا سے زیادہ رشتہ نہ تھا۔ Modes of communication کے وسائل بھی محدود تھے۔ بیماریوں کا بھی دور دورہ تھا۔ لوگ مرتے بھی تھے اور جیتے بھی۔ ذہنی امراض کا وجود ہی نہیں تھا۔ پڑھائی محدود تھی۔ علم حاصل کرنا Elite class کا privilege تھا۔ جو پڑھتا تھا، وہ اوروں کو بھی روشناس کراتا تھا۔ طالب علم کو انبیاء کے وارث ہونے کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ پڑھائی بھی ذہنوں کو کھولنے کا کام کرتی تھی۔ Physical sciences کے علاوہ Humanities پر زیادہ دھیان دیا جاتا تھا کیونکہ انسان، انسان ہے، اخلاق کے بغیر قدرت کا مشاہدہ لاحاصل ہے۔ علم کے ساتھ عمل اور عمل کے ساتھ اور بھی ایسے خصائل طلباء میں دیکھے جاتے تھے کہ ناخواندہ لوگ عالم پر رشک کرتے تھے۔ میرے دادا اپنے چاچا کا جب ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جب وہ چلتے تھے تو پوری گلی رک جاتی تھی۔ اس کے علم کا ایسا اثر تھا کہ بگڑے ہوئے لوگ بھی اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوتے تھے۔ سگریٹ نوشی کرنے والے بھی اس کے سامنے تھرتھراہٹ کا شکار ہوجاتے تھے۔وجہ صاف تھی کیونکہ وہ اس وقت کے سچے طالب علم تھے۔ اس نے صداقت اور شجاعت کا علم حاصل کیا تھا۔
اس کے برعکس آج کے طلباء رشک کرنے کے لائق اور نہ وہ طلباء کہنے کے لائق ہیں۔ اپنی اصل زندگی سے دور، کسی ناپید دنیا میں خواب غفلت میں ہے۔ نہ ماضی، نہ حال اور نہ آنے والے کل کی فکر۔ اصولوں سے دور مگر حیوانیت کے نزدیک، آج کے طلباء کے احوال ہی نرالے ہیں۔ کارخانوں کی بھرمار اور سائنس کے معجزوں نے انہیں بھی مشین بنایا ہے۔ انسانی شکلوں میں اب machines کام کرتی ہیں۔ گھر میں ہو یا گھر سے باہر، صرف ایک ہی چیز دامن گیر کہ کیسے لوگ ان کی پیروی کرے۔ ہم کب celebrity بنے اور لوگوں کی زبانوں پر ہمارا نام ہو۔ اصل میں ان کی کوئی بھی خطا نہیں ہے۔ موجودہ زمانہ capitalist یا market-oriented ہے۔ اس زمانے نے سماج کے بنیادی اصولوں پر ہی کاری ضرب لگائی ہے۔ Jane Austen بھی اسی کا رونا روتی ہے۔ کیسے انگلستان گاؤں سے شہر بنتا گیا اور کیسے اصولوں کی دھجیاں اڑ گئی۔ اسی تناظر میں D.H. Lawrence بھی Industrial Revolution کا ذکر اپنی نظم ” Last Lesson of the Afternoon ” میں کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کیسے اس انقلاب نے طلباء کو پڑھائی سے دور مگر capital کی دوڑ میں لگا دیا ۔ یہ تو کچھ سو سال پرانی بات ہے۔ اس وقت طلباء کی حالت ایسی تھی ، تو آج کیا ہونگے۔ اس وقت طلباء کا حال بے حال ہوگیا تھا، آج کی تو بات ہی نہیں ہے۔ آج کے دور میں بھی مادیت نے لوگوں کو اندھا بنا دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان ہمیشہ سے مادیت کا پرستار رہا ہے۔ پرانے زمانے میں زمین، اقتدار اور ایسی دوسری چیزوں کی ہوس ہوتی تھی، مگر زندگی کچھ مختلف تھی۔ قدرت کے ملحوظ نظر لوگ جیا کرتے تھے۔ آج صورتحال کچھ اور ہے۔ پہلے ہی دن سے rat-race competition کا تصور دامن گیر ہوجاتا ہے۔ آج کا طالب علم جتنا باہری دنیا سے expose ہوجاتا ہے ،اتنا ہی تباہی اسے گھیر لیتی ہے۔ ایک ایسی دوڑ لگی ہے جس میں صرف آگے بڑھنا ہے۔ اس مہم میں اذہان کی قربانی دینے سے بھی کوئی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ ہمارے طلباء کو یہ تعلیم دی جاتی ہے competition is the art of life. اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ طلباء competition سے باہر ہوئے، جو جیت گئے وہ سکندر اور جو ہار گئے وہ بندر۔ آج کے زمانے میں مواقع محدود ہورہے ہیں۔ انسانی جبلیات کا پرچار ہر جگہ کیا جارہا ہے۔ جن جبلیات کو sublimate کرنا تھا ،وہ کھل کر بازاروں میں رقص کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی ان کو stimulate کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ sex education کو مثبت انداز میں سکھایا جائے۔ دوریوں کو مٹانے کی کوشش کئی جانی چاہئے تھی۔ آج اس کے برعکس sex کو glorify اور private بنا کر بچوں کو opposite bodies کی لت لگائی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ نے ان چیزوں کو سر بازار کھڑا کردیا جو جوانی ڈھلنے کے بعد سمجھ میں آتی تھی۔ آج دس سال کا بچہ بھی sensual desires اور غیر قانونی حرکات سے واقف ہیں۔ اس کو یہ باتیں سیکھنی ضروری ہیں مگر نگرانی کے تحت۔ جب بچہ عمر سے پہلے ہی بڑا ہو، تو وہ کیسے پڑھائی کی طرف دھیان دے گا۔ اس کے اندر کی جبلیات اور ان کو پورا کرنے کے مواقع، اس کو پڑھائی کی طرف کیسے مائل کریں گے۔ وہ ان ضروریات پورا کرنے کے لئے مائل اور مجبور ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ hero worship بھی بڑا مسئلہ ہے۔ کم پڑھے لکھے ہوئے کچھ افراد پڑھے لکھے ہوئے لوگوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلباء اب زبردستی سے پڑھتے ہیں۔ اصل میں وہ ان ہی کی طرح بننا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں کون توقع کرسکتا ہے کہ پڑھائی کے میٹھے پھل نکل کر آئے۔ ایک Youtuber بنا پڑھائی کے لاکھوں کماتا ہے۔ اس کے برعکس سالوں سال پڑھنے کے بعد اگر آخر کار مزدوری ہی کرنی ہے،تو پھر پہلے سے ہی کیوں نہیں کمایا جائے۔ اب اگر خدانخواستہ پڑھائی بھی کرنی ہے تو کیوں نہیں capital or money-oriented تعلیم حاصل کئی جائے۔ مزید برآں ہمارے یہاں ہر روز رشوت کے معاملات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان پڑھ پیسوں اور سیاسی approach کی وجہ سے ملازم بنتے ہیں۔ سرٹیفکیٹس بکتی ہیں۔ تو ایسے میں دماغ کا خرچ کیوں کیا جائے۔ ایک طالب علم اپنی فیملی کے اثر و رسوخ سے وہ پوسٹ حاصل کرے گا جو وہ چاہتا ہے۔ اب اس طالب علم کو پڑھائی کی طرف دھیان دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی جیت ہوئی۔ لوگ اندھے ہیں، اس کو اپنا لیڈر بنائیں گے۔ اس طرح تباہیوں کے دھانے کھل گئے۔
اب پڑھائی کا شعور پھر سے بچوں میں لانے کے لئے پڑھائی کو مفید بنانا پڑے گا۔ جس پڑھائی سے بھوک دور اور زندگی خوشحالی ہوجاتی ہیں، اس پڑھائی کو عام کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ جو بچہ پڑھنا نہیں چاہتا ہے،اسے ایسا ہنر سکھایا جائے کہ وہ اپنی زندگی آرام سے جی سکے۔ Motivational quotes سے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ ان سے پیٹ نہیں بھرتا ہے۔ دوائی کا خرچہ پورا نہیں ہوتا ہے۔ کوئی بھی فرد ہو، اس کو اندر کی motivation لینی چاہیے۔ آج ہر کوئی پڑھائی کی دوڑ میں ہے۔ ہر کسی کو نوکری نہیں مل سکتی۔ تو بہتر ہے کہ پہلے سے ہی کچھ اچھا سا کام کیا جائے۔ اب جو پڑھ رہے ہیں، ان پر خاص توجہ دی جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ انٹرنیٹ کی distractions سے آگاہ کیا جائے۔ موجودہ زمانے کی باریکیوں سے آگاہ کیا جائے۔ قیمتی اور سستی چیزوں کا فرق واضح کیا جائے۔ جینااور مرنا کیا ہوتا یہ پہلے دن سے ہی crystal clear ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ذہنی دباؤ سے اور دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل ڈھونڈے کی کوشش کئی جانی چاہیے۔ جینا سستا اور موت مشکل ہونی چاہئے تاکہ لوگ خاص کر نوجوان طلباء جی سکے۔ اور جاتے جاتے تعلیمی اداروں میں یہ بات واضح کی جانی چاہئے کہ زندگی جینے کے لئے کونسی کونسی چیزیں زیادہ ضروری ہیں تاکہ غیر ضروری کاموں اور مصروفیات سے دور رہا جائے ۔ Prioritize کرنا آج کی دنیا میں جینے کا بہترین طریقہ ہونا چاہیے۔
[email protected]