اِکز اِقبال
کبھی کشمیر کی وادی میں صبح کی پہلی کرن کے ساتھ چرواہوں کی بانسری گونجتی تھی اور شام کے دُھندلکے میں درویشوں کے ترانے۔ آج بھی فضا وہی ہے، پہاڑ وہی، ندی وہی، مگر ہوا کا مزاج بدل گیا ہے۔ بانسریوں کی مدھم لَے کہیں سوشل میڈیا کے شور میں دب گئی ہے۔یہ وہی وادی ہے جہاں کبھی انسانیت، علم اور عشق ایک دوسرے کے ہمراز تھے، مگر آج نوجوان نسل کے چہروں پر سوال لکھے ہیں — ’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟، ہم کون ہیں؟ اور ہم کیوں خالی ہیں؟‘‘یہ خالی پن ہی اس عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
افراتفری کی نئی صورت :نوجوانوں کے اندر ایک طوفان ہے، مگر سمت نہیں۔ ان کے پاس زبان ہے مگر مکالمہ نہیں، قوت ہے مگر مقصد نہیں۔یہ وہ نسل ہے جس نے پہاڑوں کی بلندیوں کے درمیان آنکھ کھولی مگر نظریں موبائل کی اسکرینوں میں جمی رہیں۔ ان کے خواب پیکسلز میں بدل گئے ہیں اور ان کی محنت لائکس اور فالورز کے پیمانے میں تولی جانے لگی ہے۔ریل، ریچ اور فالوئرز ،— یہ تین الفاظ آج کے نوجوان کے مقدر کا تعارف بن گئے ہیں۔ جہاں کبھی کتابیں خواب بُنتی تھیں وہاں اب اسکرینیں لمحاتی تسکین دیتی ہیں۔یہ وہ افراتفری ہے جو ظاہراً بے ضرر لگتی ہے مگر حقیقت میں روح کو بے حس کر دیتی ہے۔
ایک خاموش زہر جو ذہنوں میں گھل رہا ہے — ’’شارٹ کٹ کلچر‘‘ [ Short Cut Culture ]۔ جلدی کامیاب ہونے، فوراً مشہور ہونے، بغیر سفر منزل پانے کا جنون۔یہی جنون نوجوانوں کو کبھی آن لائن جوا، کبھی جعلی سرمایہ کاری، کبھی غیر حقیقی کاروبار کے دام میں پھنسا دیتا ہے اور جب یہ بُلبلے پھوٹتے ہیں تو دِلوں میں مایوسی کے غبار بھر جاتے ہیں۔
منشیات — زہرِ مدہوشی :لیکن اگر یہ زہر ’’ورچوئل‘‘ ہے تو دوسرا زہر ’’حقیقی ‘‘ہے — منشیات کا زہر۔حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وادی کا نوجوان تیزی سے نشے کی دلدل میں اُتر رہا ہے۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، یہ گھروں کے اندر کی چیخ ہے۔کتنی ماؤں کی آنکھوں سے وہ روشنی چھن گئی ہے جو کبھی بیٹے کے مستقبل پر چمکتی تھی۔ کتنے گھروں کے دروازے اب دیر رات نہیں کھلتے اور اگر کھلتے بھی ہیں تو گناہوں کے بوجھ سے جھکے قدموں کے ساتھ۔منشیات صرف جسم کو مفلوج نہیں کرتیں، یہ پوری قوم کے اعصاب کو مفلوج کر دیتی ہیں۔جب نوجوان طبقہ، جو قوم کی طاقت ہوتا ہے، بے حسی کی گود میں سو جائے تو قوم جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھنا چھوڑ دیتی ہے۔
اخلاقی زوال — خاموش بیماری :منشیات کے ساتھ ایک اور خطرناک بیماری بھی پھیل رہی ہے — اخلاقی زوال۔ یہ وہ بیماری ہے جو نہ اخبار کی سرخی بنتی ہے نہ اسپتال میں علاج پاتی ہے۔ یہ بیماری ضمیر کی ہے، پہچان کی ہے، شرم و حیا کی ہے۔جب حلال و حرام کی لکیر مدھم پڑ جائے، جب دولت عزت سے زیادہ قیمتی لگنے لگے اور جب زبان سچ بولنے سے پہلے لائکس گننے لگے — تو سمجھ لیجئے کہ زوال شروع ہو چکا ہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ اس زوال کا الزام ہم صرف نوجوانوں پر ڈال دیتے ہیں، جیسے وہی اکیلے اس بگاڑ کے ذمہ دار ہوں۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ نوجوان آئینہ ہیں اور آئینے میں جو چہرہ دِکھتا ہے وہ معاشرے کا ہوتا ہے، آئینے کا نہیں۔
نظام کی کوتاہی :یہ سارا بحران محض انفرادی نہیں بلکہ نظامی ہے۔ہمارا تعلیمی ڈھانچہ آج بھی پرانے سانچے میں بند ہے، جہاں کتابیں تو ہیں مگر زندگی کے ہنر نہیں۔ڈگریاں بڑھ رہی ہیں مگر روزگار کم ہو رہا ہے۔اساتذہ پڑھاتے ہیں مگر تربیت نہیں کرتے، والدین محبت کرتے ہیں مگر سمجھتے نہیں اور حکومت منصوبے بناتی ہے مگر عمل نہیں کرتی۔
یہ سب مل کر ایک خلا پیدا کرتے ہیں ، ایک ایسا خلا جس میں نوجوان بے سمت اڑتے ہیں اور اکثر غلط سمت جا گرتے ہیں۔ یہ خلا ہی اصل بحران ہے۔
نوجوان ۔مسئلہ نہیں، موقع ہیں:اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو نوجوان مسئلہ نہیں، موقع ہیں۔ ان میں وہ توانائی ہے جو دنیا بدل سکتی ہے، مگر ہم نے ان کی توانائی کو صرف تنقید کا نشانہ بنایا۔ہم نے انہیں ’’آوارہ‘‘ کہا، ’’نافرمان‘‘ کہا، مگر یہ نہیں سوچا کہ شاید انہیں سمت کی ضرورت ہے۔کشمیر کے نوجوان وہ ہیں جنہوں نے مصیبتوں میں بھی خواب دیکھنے کا حوصلہ نہیں چھوڑا۔ جو پہاڑوں کی سردی میں بھی گرم جذبے رکھتے ہیں۔ اگر یہی نسل درست رہنمائی پائے تو یہ وادی صرف خوبصورتی کی نہیں، بصیرت کی وادی بن سکتی ہے۔
رہنمائی کی ضرورت :اب وقت ہے کہ ہم بات الزامات سے آگے بڑھائیں ،— مکالمے کی طرف آئیں۔ نوجوانوں کو وعظ نہیں، رابطے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو نصاب کے ساتھ کردار بھی پڑھانا ہوگا۔والدین کو ممانعت کے بجائے مکالمہ سکھانا ہوگا۔سماج کو بدگمانی کے بجائے اعتماد پیدا کرنا ہوگا اور پالیسی سازوں کو بیانات کے بجائے منصوبے دینے ہوں گے، — ایسے منصوبے جو نوجوان کو ہنر، روزگار اور عزت کے ساتھ جوڑیں۔
سوشل میڈیا کا دوسرا رُخ :سوشل میڈیا کو ہم نے دشمن سمجھ لیا ہے، مگر یہ تلوار کی طرح ہے — قابو میں ہو تو تحفظ، بے قابو ہو تو تباہی۔نوجوان اگر سوشل میڈیا کو اپنی آواز بنانے میں لگ جائیں، تو وہ سوچ بدل سکتے ہیں۔آج کا رییل بنانے والا نوجوان کل کا ریفارمر بھی بن سکتا ہے، اگر ہم اسے صرف ’’گمراہ‘‘ کہنے کے بجائے ’’گائیڈ‘‘ کریں۔پچھلی نسلیں کتابوں کے ذریعے انقلاب لائیں، یہ نسل کیمروں سے لا سکتی ہے، اگر نیت سچ ہو اور مقصد بلند۔
اجتماعی ذمہ داری :یہ بحران کسی ایک کا نہیں، ہم سب کا ہے۔اگر ہم نے اپنی ذمہ داری وقت پر نہ نبھائی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ صرف نوجوانوں کا امتحان نہیں، یہ والدین، اساتذہ، مذہبی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور پالیسی سازوں سب کا امتحان ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تربیت صرف مسجد یا اسکول میں نہیں ہوتی، یہ ہر لفظ، ہر رویے، ہر فیصلے میں چھپی ہوتی ہے۔
امید کی کرن :کشمیر کی وادی نے صدیوں کے زخم سہے ہیں، مگر ہر بار اُبھری ہے — اپنے لوگوں کے جذبے سے۔ آج بھی اُسی جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ طوفان جو نوجوانوں کے اندر برپا ہے، اگر سمت پائے تو یہی طوفان تعمیر کی آندھی بن سکتا ہے۔وہی ہاتھ جو غلط راستوں میں بہک رہے ہیں، اگر اُنہیں مقصد مل جائے تو وہی ہاتھ قوم کی تقدیر لکھ سکتے ہیں۔یاد رکھئے، افراتفری ہمیشہ مایوسی نہیں ہوتی، کبھی کبھار یہی افراتفری نئی ترتیب کی علامت ہوتی ہے۔یہ وادی اگر اپنے نوجوانوں کا ہاتھ تھام لے، تو آنے والی صبح پھر بانسریوں کی آواز سے گونج سکتی ہے اور شامیں پھر سکون کی نرمی میں ڈھل سکتی ہیں۔نوجوان ہمارے لیے مسئلہ نہیں، ہماری امید ہیں۔اگر ہم نے ان کے دلوں میں یقین کا دِیا جلا دیا تو یہ وادی دوبارہ روشنی سے بھر جائے گی۔وقت کم ہے، مگر دیر نہیں ہوئی۔ذمہ داری سے سوچئے — اور فوراً عمل کیجیے۔
(مضمون نگار، مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]