فکر و فہم
انجینئر محمود اقبال
2025کے نوبل انعامات کا اعلان ہوچکا ہے۔ یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ عمر مؤنس یاغی نے دو اور کیمسٹ کے ساتھ 2025 کا کیمسٹری میں نوبل انعام حاصل کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک پکے مسلمان ہیں بلکہ غیر پیدایٔشی سعودی شہری بھی ہیں۔ ألف مبروک ! واضح رہے کہ ہر سال ذمہ دار ’نوبل پرایٔز کمیٹی ‘ ان انعامات کا اعلان کرتی ہے۔کیا کبھی آپ نے غور کیااور سوچا ہے کہ نوبل انعامات کی فہرست میں ریاضی کیوں شامل نہیں ہے؟دلچسپ کہانی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔آگے آگے پڑھتے جائیے گا۔ہر سال نوبل انعامات ’نوع انسانی کی زبردست خدمات‘ کے صلہ میں مخصوص ہیں۔ان انعامات کا سلسلہ 1901 سے شروع ہوا۔ابتداء میں صرف5 انعامات طبعیات، کیمیا، نفسیات یا ادویات، ادب اور امن تھے۔1969 سے’ معاشیات‘ کا بھی اضافہ ہوا ہے۔اس طرح 6 انعامات سے ہر سال ان عبقری ،ادبی اور امن پسند افراد کو نوازا جاتا ہے جو اپنے اپنے فیلڈ میں کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہیں اور بنی نوع انسان کی ترقی،خدمت ،امن و چین اور بھلائی کا سبب بنتے ہیں۔
الفریڈ نوبل ایک دولت مند سویڈش شہری تھے، جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی تھی۔اپنی وصیت میں انہوں نے اپنا تمام سرمایہ اور مال ودولت ان افراد کے لئے مخصوص کردیاتھا جو امن، چین اور انسانی حقوق کی لڑائی لڑتے ہیں، سائینس اور ٹکنالوجی میں ریسرچ اور نت نئی ایجادات کے موجد بنتے ہیں۔ادب کے میدان میں اپنا نام روشن کرتے ہیں۔الفریڈ نوبل نہ صرف ایک کامیاب تاجر تھے بلکہ وہ بذات خود ایک موجد، انجینئر اور صنعت کار بھی تھے۔ ’ڈائنامائیٹ‘ انہیں کی ایجاد ہے۔ان کی وصیت کے بعد 1901 سے نوبل انعامات کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔یہ اعلیٰ اور پروقار انعامات، مسابقت کا سبب بن رہے ہیں۔ہر کوئی انہیں پانے کی دلی تمنا رکھتا ہے، مگر نصیب اسی کو ہوتے ہیں جو اپنے فیلڈ میں شاندار کارنامہ انجام دے۔2025 کے ’امن ‘ کے نوبل انعام کی سبق آموز کہانی آپ کے سامنے ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار اپنی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہی اس سال کے ’نوبل امن انعام‘ کے حقدار ہیں، لیکن ہاتھ مار دیا ونیزولا کی انسانی حقوق کی امن پسند ، جمہوریت کی علمبردار اور اپوزیشن رہنماماریا کورینا مچا دو نے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ ٹرمپ کی حا لت ’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘والی ہوگئی ہے جو اپنی خفگی اور شرمندگی مٹانے کے لئےملکوں ملکوں ٹیرف پر ٹیرف کی بوچھار کی مزید دھمکیاں دیتے چلے جارہے ہیں؟ دھونس، دباؤ، دھمکیوں، سفارتکاری اور جنگیں، جہازوں اور ٹینکوںپر بیٹھ کر دنیا میں امن قایٔم نہیں کیا جاسکتا ہے۔زمین پر حقیقی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔یہ سبق آموز کہانی اس بات کی دلیل ہے کہ پُر وقار نوبل انعام ہر کوئی اپنے سر پر سجانا چاہتا ہے اور تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتا ہے۔ لیکن کامیاب اور سر خرو وہی ہوتاہے جو تن من دھن کی بازی لگا دیتا ہے، چاہے وہ فزکس، کیمسٹری یا میڈیسن کا فیلڈ ہی کیوں نہ ہو۔ برسوں کی محنت اور جانفشانی کے بعد ہی امید رکھی جاسکتی ہے، اسے پانا تو دور کی بات رہی۔یہ سبق آموز کہانی دو چیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ نوبل انعام کمیٹی سوچ سمجھ کر فیصلے لیتی ہے اور دباؤ میں کام نہیں کرتی ہے۔ دوسرے کامیابی پانے اور سر خرو ہونے کے لئے لگن، محنت اور جستجوکرنی ضروری ہے۔
’ریاضی‘ کیوں نوبل انعامات کی فہرست میں شامل نہیں ہے؟اسکی 3 وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔پہلی وجہ الفریڈ نوبل کی ممکنہ طور پر عملی کام پر توجہ مرکوز کرنے پر ہو۔ شاید یہ خیال بھی تھا کہ ریاضی بہت زیادہ نظریاتی مضمون ہے۔دوسرے ریاضی میں پہلے سے چند باوقار ایوارڈز موجود تھے۔تیسری دلیل مضحکہ خیز بھی ہے اور شاید فسانہ بھی ،جو میڈیا میں گردش کرتا رہتا ہے۔ایک ہم عصر سے متعلق ذاتی دشمنی کے افسانے۔ دیگرنظریات یہ بتاتے ہیں کہ الفریڈ نوبل نے اس شعبہ میں ایک اور ایوارڈ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہوگی۔مگر یہ سب کہانیاں غیر مستند ہیں۔ہم اس لئے یہاں آپ کے گوش گوار کر رہے ہیں کہ میڈیا میں بہت کچھ ہوتا ہے لیکن اس پر بغیر تصدیق یقین نہیں کرنا چاہیے۔ الفریڈ نوبل کا انسانیت پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ان پُروقار نوبل انعامات ی بنیاد رکھی جسکی وجہ سے مسابقت کا مثبت نتیجہ نکلا اور دنیا نت نئے ایجادات کی طرف تیزی سے گامزن ہوگئی۔ادبی و تہذیبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور دنیا بھر کے لٹریچر میں چار چند لگے اور بہترین ادب کو فروغ حاصل ہوااور ساتھ ہی ساتھ دنیا امن کی پیاسی ہوگئی۔پچھلی دو جنگ عظیم اس کی مثال ہیں کہ دنیا ہنوز امن و سکون کو ترس رہی ہے اور موجودہ سیاسی کروٹیں دوبارہ سے ان اندیشوں کو تقویت دے رہی ہیں کہ کہیں تیسری جنگ عظیم چھڑجا نہ جا ئے؟اگر کچھ وقت کے لئے ہم ادب، امن اور معاشیات کے انعامات کو پرے رکھ کر بقیہ تین یعنی فیزیکس، کیمسٹری اور سائیکالوجی یا میڈیسن کے انعامات پر غور کریں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بیسویں صدی سائنسی علوم و ایجادات کے نام رہی۔دنیا کی تیز ترین سائنسی، فلکی، تکنیکی، سائیکالوجی و میڈیکل ریسرچ اور نتیجوں نے انسان کو زمین سے اٹھاکر چاند پر پہنچادیا ہے او ر اب مریخ پر کمند ڈالنے کی فکر میں۔
نوبل انعامات کی ریس میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟1901 سے 2025 تک سوا سو سال ہوگئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق اب تک صرف 12 مسلمان ہی یہ آعلی و پروقار انعام حاصل کر پائے ہیں۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی دور ہونی چاہیے کہ ما یہ ناز پاکستانی سائنسداں عبدالسلام بھی فزکس کا 1979 میں نوبل پرائز حاصل کرچکے ہیں، لیکن وہ مسلمان نہیں تھے۔قادیانی تھے، جو خارج اسلام قرار دئے جاچکے ہیں لیکن کچھ میڈیا انہیں مسلمانوں کی فہرست میں شمار کرتا ہے۔اسی طرح ارہان پاموک (لتریچر کے ) ہیں جو خدا کے منکر تھے۔مزید ایک اور ماونگی باوندی ( کیمسٹری کے ) ہیں ، جنکے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔وہ 12 خوش نصیب اور خوش بخت مسلمان کون ہیں؟ مصر کے سابق صدر مرحوم انور سادات نے اسرائیل کے وزیرآعظم میناچم بیگن کے ساجھے میں 1978 کا امن انعام حاصل کیا تھا۔اس کی وجہ تھی ’کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ ‘ اسکے بعد فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو 1994 میں ’امن‘ کا نوبل انعام ملا۔پھر ایران کی شیریں عبادی 2003 میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کی جدوجہد کے لئے ’امن‘ نوبل انعام کی حقدار ٹھہرای گئیں۔2005 میں مصر کے سفارتکار اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے سابق سربراہ محمد البرادعی ’امن‘ کے نوبل کے حقدارٹھہرے۔انکا کارنامہ تھا کہ انہوں نے اٹامک انرجی کے غلط فوجی استعمال کو روکا تھا۔پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے محمد یونس نے2006 میں ’امن‘ کا انعام حاصل کیا، جو اتفاق سے آج کل بنگلہ دیش کے انٹریم گورنمنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔بنکنگ سیکٹر میں انکی خدمات لا جواب ہیں۔وہ گرامین بینک کے فاؤنڈر چیرمین تھے۔ مائیکرو کریڈٹ اور مائیکرو فینانس کے ذریعہ انہوں نے غریب بنگلہ دیشیوں کی قسمت ہی بدل دی تھی۔ خصوصاً خواتین انکی اس اختراعی اسکیموں سے بہت زیادہ فائدہ میں رہیں۔حالانکہ انکی خدمات معاشیات کے شعبہ میں مظہر آتی ہیں، لیکن نوبل کمیٹی نے انہیں امن کے انعام سے نوازا۔اسکے بعد 2011 میں یمن کی جرنلسٹ اور انسانی حقوق کی جہد کار خاتون توکل کرمان نے ’امن‘ انعام حاصل کیا۔آخر میں نمبر آتا ہے پاکستانی جہد کار ملالہ یوسف زئی کا جن کو 2014 کے ’امن‘ انعام سے نوازا گیا۔وہ تعلیم نسواں کی علمبردار اور بچوں و نوجوانوں کے غلط استحصال کی جدو جہد کے لئے دنیا بھر میں انکا نام روشن ہے۔ ادب میں مصر کے نجیب محفوظ نے 1988 کا انعام حاصل کیا تو عبدالرزاق گرنا نے2021 میں۔ کیمسٹری میں مصر کے احمد زویل 1999، عزیز سنکار 2015 ،اور اب 2025 میںعمان میں فلسطینی پناہ گزیں اورموجودہ سعودی شہری عمر مؤنس یاغی نے ساری دنیا کے مسلمانوں کا نام روشن کردیا ہے۔
بیسویں صدی مسلمانوں کے نام سے خالی رہی۔ اکیسویں صدی کے پہلے ربع میں 12 نے اپنے نام روشن کئے، جن میں سے7 ’امن‘ کے پیامبر بن کر اُبھرے اور3 نے ’کیمسٹری‘ اور 2 نے ’ادب‘ کا جھنڈا بلند کیا۔سوا سو سال گذر گئے ہیں لیکن فزکس ، میڈیسن اور معاشیات کے نوبل انعام مسلمانوں کے نام سے ہنوز محروم تمنا ہیں۔کیوں؟کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ مسلمانوں کا رحجان سائنسی علوم کی طرف مطلق نہیں رہا؟روزگار ،روزگار اور صرف روزگار۔ اعلیٰ تعلیم حاصل بھی کرلی تو بس روزگار کے لئے؟آنے والی مسلمان نسلوں کے لئے یہ ایک سبق آموز سانحہ ہے۔ اکیسویں صدی آئی ٹی کے علاوہ معاشیات،فلکیات،سائینس و ٹکنالوجی، کوانٹم میکانکس اور مصنوعی ذہانت کی ہے۔ دنیا بھر کے مسلم طلباء و طالبات کو چاہیے کہ تعلیم کو صرف روزگار کی حد تک ہی نہ محدود رکھیں بلکہ اپنی اختراعی صلاحیتوں کو جھنجھوڑیں۔ہم سنتے آئے ہیں کہ ’علم قوت ہے‘ یعنی ’Knowledge is Power‘ لیکن عبقری سائینسداں البرٹ آئنسٹائن کہتے تھے،’ ’تخیل علم سے زیادہ اہم ہے‘‘ ۔یعنی، ’Imagination is more important than Knowledge‘ مسلم طلباء و طالبات کو چاہیے کہ آئینسٹائن کے اس قول سے سبق حاصل کریں اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ سوچ بچار بھی کیا کریں ۔یعنی ، تخیل ’میں شاذ ونادر ہی الفاظ میں سوچتا ہوں، ایک خیال آتا ہے اور میں اسے الفاظ میں ڈھالتا ہوں ‘۔ بقول فیض ؎
رفیق راہ تھی منزل ہر تلاش کے بعد
چھٹا جب یہ ساتھ تو رہ گزر بھی نہ رہی
(رابطہ۔6309727951)