سبدر شبیر
گذشتہ ماہ کی 23 تاریخ کا دن میرے لیے ایک عام دن کی طرح شروع ہوا تھا۔ دفتری مصروفیات میں مصروف تھا کہ اچانک دروازے پر ایک ہلکی سی دستک سنائی دی۔ نگاہ اُٹھی تو سامنے ایک ننھی سی بچی کھڑی تھی۔ اس کی عمر چار سال سے زیادہ نہ ہوگی۔ ہاتھوں میں قلموں کا ایک چھوٹا سا گٹھا تھا اور چہرے پر مسکین سی معصومیت نمایاں تھی۔ وہ دبے دبے لہجے میں کہہ رہی تھی: ’’انکل یہ قلم خرید لیں‘‘۔ یہ جملہ اگر کسی بڑے انسان کے منہ سے نکلتا تو شاید اتنا وزنی نہ ہوتا، مگر ایک چار سالہ بچی کے لبوں سے نکلا تو دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گیا۔ اسی لمحے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب کسی کو رزق میں فراخی عطا کرتا ہے تو پہلے اسے محنت کا ہنر سکھاتا ہے۔ چاہے وہ عمر کے سب سے چھوٹے درجے میں ہو یا زندگی کے آخری مراحل میں، حقیقت یہی ہے کہ رزق کبھی مانگنے سے نہیں بلکہ محنت سے نصیب ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ (النجم: 39)۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ کوشش اور جدوجہد ہی انسان کے مقدر کا تعین کرتی ہے۔ اس ننھی بچی کا قلم بیچنا اس بات کی علامت تھا کہ حلال روزی کی طلب بچپن سے ہی وجود میں آسکتی ہے اگرچہ حالات انسان کو اس طرف دھکیلتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کسی کے لئے اس سے بہتر کھانا نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ کی محنت سے کھائے۔‘‘ (بخاری)۔ یہی اصول مجھے اس ننھی بچی کے عمل میں نظر آیا جو بھیک نہیں مانگ رہی تھی بلکہ اپنی محنت کے عوض قلم فروخت کر رہی تھی۔
یہ بچی محض ایک فرد نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا آئینہ تھی۔ اس کی معصوم آنکھوں میں چھپی غربت نے بتا دیا کہ معاشی نابرابری کہاں تک جا پہنچی ہے۔ ایک طرف کچھ بچے کھلونوں اور کھیلوں میں مصروف ہیں اور دوسری طرف کچھ بچے قلم بیچنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان حالات کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیا یہ صرف والدین کی غربت ہے یا ہمارے معاشرے کی اجتماعی بے حسی بھی اس میں شامل ہے؟ ہمارا معاشرہ اکثر ایسے بچوں کو دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے ترس کھا لیتا ہے، مگر پھر معمول کی مصروفیات میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بچے ہماری اجتماعی غفلت کا آئینہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو وسعتِ رزق عطا کرتا ہے تو دراصل وہ ایک امتحان بھی ہوتا ہے۔ مالدار کے لیے یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنی دولت کو کہاں خرچ کرتا ہے اور غریب کے لیے یہ دیکھنا ہے کہ وہ صبر اور حلال کمانے کی جستجو کو کس حد تک نبھاتا ہے۔ وہ بچی اپنی ننھی ہتھیلیوں میں قلموں کا بنڈل اٹھائے میرے سامنے کھڑی تھی۔ اس منظر نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ میں جس آرام دہ کرسی پر بیٹھا ہوں، جو تنخواہ مجھے وقت پر مل جاتی ہے اور جو سہولتیں میرے پاس موجود ہیں، یہ سب محض میری قابلیت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو مجھے بھی اسی بچی کی طرح حالات کے تھپیڑوں میں ڈال دیتا۔ شکر گزاری کا اصل مقام یہی ہے کہ انسان اپنے سے کم تر حالات والوں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرے اور ان کی مدد کرے۔
یہ منظر ایک اور سوال بھی چھوڑ گیا کہ کیا اتنی ننھی عمر میں بچوں کو قلم بیچنا زیب دیتا ہے یا قلم پکڑ کر تعلیم حاصل کرنا؟ اللہ نے قلم کو علم کی نشانی بنایا ہے اور قرآن کی پہلی وحی ہی ’’اقرأ‘‘ یعنی ’’پڑھ‘‘ سے شروع ہوئی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ کچھ بچے قلم سے علم حاصل کرتے ہیں اور کچھ قلم سے روزی کماتے ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے بچوں کے ہاتھ سے قلموں کے گٹھے چھین کر انہیں کتابیں دیں تاکہ وہ قلم فروخت کرنے کے بجائے قلم سے اپنے مستقبل کو روشن کریں۔یہ واقعہ میرے لیے ایک سبق بن گیا کہ رزق کے دروازے محنت سے کھلتے ہیں، بھیک سے نہیں۔ نعمتوں کی قدر وہی کرتا ہے جو محرومی کو دیکھتا ہے اور معاشرتی انصاف کے بغیر غربت ختم نہیں ہوسکتی۔ دفتر میں جتنے بھی ملازم موجود تھے سب نے اس بچی سے چند قلم خریدے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا عمل تھا مگر میرے دل کے اندر ایک بھاری کائنات چھوڑ گیا۔ وہ چند روپے ہمارے لیے کچھ نہ تھے مگر اس بچی کے لیے شاید ایک دن کی خوشی کا سامان بن گئے۔
ہم سب کے پاس یہ موقع ہے کہ ایسے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے عملی قدم اٹھائیں۔ اگر ہم خریداری کریں تو ان سے کچھ ضرور خرید لیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ اگر استطاعت ہو تو تعلیم کے سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ سماج میں غربت کم کرنے کے لیے اجتماعی اقدامات کریں، مثلاً فلاحی اداروں کے ساتھ تعاون یا اپنے علاقے میں کسی بچے کی تعلیم اسپانسر کرنا۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات بظاہر معمولی دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے اثرات آنے والی نسلوں پر پڑتے ہیں۔
وہ ننھی بچی میرے لیے اللہ کا بھیجا ہوا پیغام تھی۔ ایک ایسا پیغام جو کہتا ہے: ’’اے انسان! رزق کی کشادگی اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر اس تک پہنچنے کا راستہ محنت ہے۔‘‘یہ منظر مجھے یہ بھی سکھا گیا کہ ہمیں اپنی نعمتوں پر ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے اور اپنے معاشرے کے کمزور طبقے کو سہارا دینا چاہیے۔ آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ حلال روزی کی تلاش انسان کو عزت دیتی ہے چاہے وہ ایک چار سالہ بچی ہو یا ایک بوڑھا مزدور اور یہی اصل کامیابی ہے۔
[email protected]