ملک منظور
ایک دن بارش کیایک ننھی بوند راستہ بھٹک گئی۔ تیز ہوا نے اسے اپنے ساتھ اُڑا کر ایک ایسے علاقے میں پہنچا دیا جہاں پانی کی سخت کمی تھی۔ زمین تپتی ہوئی، دراڑوں سے بھری اور جلتی ریت کی مانند نظر آ رہی تھی۔ قطرے نے حیرت سے کہا:
“یہ کیا؟ یہاں کی زمین تو کربلا کی مانند پیاس سے تڑپ رہی ہے۔ ہر ذرہ بارش کی ایک بوند کے لئے ترس رہا ہے۔”
ننھی بوند پریشان ہوگئی۔وہ سوچنے لگی:
“میں اکیلی ہوں، اتنی بڑی زمین کو کیسے شاداب کرسکتی ہوں؟ بہتر ہے واپس جا کر بادلوں کے بادشاہ سے مدد مانگوں۔”
لیکن جیسے ہی وہ ہوا میں اڑنے لگی تو مٹی کے ذروں سے ایک نرم آواز سنائی دی۔ یہ آواز زمین کے اندر چھپے ایک بیج کی تھی۔ بیج بولا:
“اے پیاری بوند! اگر تُو اپنی چھوٹی سی ہستی مجھے دیدے، تو میں تجھے ایک نئی زندگی میں بدل دوں گا۔ میں پھوٹ کر ننھا پودا بنوں گا، پھر بڑھ کر تناور درخت بن جاؤں گا۔ میرے سائے میں لوگ آرام کریں گے، پرندے گھونسلے بنائیں گے اور ذمین پر سبزہ لوٹ آئے گا۔”
قطرہ چونک گیا۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا:
“میں چھوٹا ضرور ہوں، مگر اگر میری قربانی سے زندگی جنم لیتی ہے تو مجھے اس پر فخر ہوگا۔”
یہ کہہ کر قطرہ بیج کے دامن میں اتر گیا۔ بیج فرمان کے باغیچے کے ایک کونے میں بویا گیا تھا
فرمان اپنے اجڑے باغیچے کو دیکھ کر اداس ہوجاتا تھا۔ اس کے خوابوں میں ہریالی اور خوشبو تھی، مگر حقیقت میں اس کے باغ میں صرف مٹی اور سوکھے کانٹے تھے۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ باغیچے کی کڑی دھوپ میں ایک ننھا سا سبز پودا اُگ آیا ہے۔ فرمان خوشی سے اچھل پڑا۔
وہ ہر روز اس پودے کو پیار سے دیکھتا، اپنے مٹکے میں سے تھوڑا سا پانی بچا کر اس پر چھڑکتا اور سورج سے بچانے کے لئے اس کے پاس چھوٹا سا سایہ بناتا۔ دن گزرتے گئے، پودا بڑا ہوتا گیا۔ پھر وہ درخت بن گیا۔
ایک دن فرمان تپتی دھوپ میں پسینے سے شرابور ہوکر درخت کے سائے میں بیٹھ گیا ۔درخت کے پتوں سے ہزاروں بوندیں نکل کر اس کے ارد گرد منڈلانے لگیں ۔ ہوا میں ٹھنڈک پیدا ہوگئی اور فرمان کو نیند کی پریوں نے اپنے آغوش میں لےجاکر خوابوں کی حسین وادیوں میں پہنچا دیا ۔ ان وادیوں میں پانی کی ننھی ننھی بوندیں ہوا میں تیر رہی تھیں ۔ فرمان بھی بوندوں کے ساتھ تیرنے لگا ۔ ننھی بوندوں نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کو نہلایا ۔ اس کے جسم سے بدبو دور ہوگئی۔ خوشبوؤں نے اس کو مہکا دیا ۔ ” ہم زندگی ہیں” ننھی بوندیں گارہی تھیں ۔
فرمان ان کے قریب گیا اور سوال کیا ” تم زندگی کیسے ہو؟”
بوندیں مسکرائیں ۔ایک بوند نے فرمان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لے گئی ۔ وہ زمین کے اندر چلے گئے ۔ وہاں درختوں کی جڑیں منہ کھولی ہوئی تھیں ۔ وہ جڑوں کے راستے سے تنے تک پہنچ گئے ۔ تنے نے ان بوندوں کو ہر حصے میں تقسیم کیا اور جو حصہ بچ گیا وہ پتوں کےچھوٹے چھوٹے سوراخوں سے باہر نکل گیا اور ہوا میں گھل مل گیا ۔
فرمان کی آنکھیں کھلیں تو وہ حیرانی میں کچھ دیر سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔” درختوں کے پھل ،پھول اور یہ سایہ سب کچھ پانی کی وجہ سے ہے ۔ سچ میں پانی کی ہر بوند زندگی ہے۔”
اس کے بعد درخت کے سائے میں فرمان نے اپنے ہاتھوں سے مزید بیج بوئے۔ کچھ عرصے میں باغیچے میں کئی درخت اُگ آئے، پرندے چہچانے لگے، پھول کھل گئے اور ماحول بدل گیا۔ جو زمین کبھی پیاسی اور جلتی ہوئی تھی، اب شاداب اور سرسبز ہوگئی۔
جب کبھی ہوا پتے ہلاتی، فرمان کو یوں لگتا جیسے درخت کی جڑوں سے وہ بوند مسکرا کر کہہ رہی ہے:
“میں ننھی بوند ہوں۔ میری قدر کرو اور مجھے آلودگی سے بچاو۔”
���
قصبہ کھل کولگام ،کشمیر
موبائل نمبر؛9906598163