ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے مشہور و معروف آثار قدیمہ تاج محلؔ پر بھی سوال اٹھنے لگے تھے بلکہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا ۔دنیا جانتی ہے کہ صدیوں سے یہ شہرہ ٔ آفاق یادگاری عمارت ایک مقبرے اور ایک محبت کی نشانی کے طور پر مانا جاتا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس عجوبہ روزگار مغلیہ عمارت ۔۔۔جس کا چمکتا دمکتا چہرہ انگریز لٹیروں نے ہی اس کے روشن لعل و جواہر چُراکر بے نور کردیا ۔۔۔کو زر کثیر صرف کرکے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔آج یہ مندر کی بنیادوں پر کھڑا مقبرہ کیسے بن گیا ؟یہ ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ اور حکومت کو انٹری فیس کی صورت میں کروڑوں روپیہ ہر ماہ ملتا ہے ۔وہ بات نہیں بلکہ بات اس کی مقبولیت کی بھی نہیں ہے بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ اس دل پذیر ،دل پسند،دل رُبا ،دل کُشا ،دل آرا ،دل نشین ،دل افروز ،دل فریب ،دل نشین ،دل نواز ،دلچسپ ،دل شگفتہ اور دل بستہ محل کے ساتھ مشہور مغلیہ شہنشاہ شاہجہاں ؔ کا نام جُڑا ہوا ہے ۔اس کے معمار اور خالق ایک مسلمان ہیں۔
عراق ؔ کے سربراہ ِ حکومت صدام حسین کو پھانسی پر کیوں چڑھایا گیا ؟اُس کی حکومت کو تہس نہس کیوں کیا گیا ؟کیونکہ وہ ایک مسلمان تھا اور دنیا میں سَر اٹھاکر جینا چاہتا تھا اور اپنی قوم کی ترقی ، عزت و آبرو اور وقار کا خواہاں تھا ۔ظالموں نے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا اور وہ بھی عید کے دن ۔عراق کے مصیبت اور تباہی کے دنوں میں عراق کا مستقبل یعنی عراق کا ایک کمسن معصوم بچہ ایک ننھی سی جان صرف ایک خوراک دوائی یا ایک انجکشن کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا تھا ،زخمی زخموں سے چُور تڑپ تڑپ کر راہی ٔ ملک عدم ہورہے تھے مگر امریکی صدر اُن پر رحم نہیں کھاتا تھا بلکہ اُن پر بموں کی ایک اور بارش کرتا تھا جب کہ خود اُس کی اخلاقی پستی اور بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ اُنہیء دنوں ایک رات دنیا کے کروڑوں لوگ ٹی وی پر اُسی ملک کے ذی وقار شخصیت یعنی صدر( کلنٹن ) سے متعلق بدکرداری اور فحاشی کی شرمناک داستان مباشر(Live)سن بھی رہے تھے اور دیکھ بھی رہے تھے ۔جو قوم مسلمان کو عیاش ،دہشت گرد اور درندہ صفت ثابت کرنا چاہتی ہے ،وہ خود اپنی شخصیت اول صاحبِ صدر کے فحاشی کے داغوں سے لت پت ایک ٹراوزر ،ایک کیپ سیک(KeepSake)یعنی نشانی کے طور پر محفوظ کرلیتی ہے۔
یہ وہی قوم ہے جو ایک محض بے قصور مسلمان عورت ( ڈاکٹر عافیہ ) کو جھوٹے الزامات میں پھنساکر جیلوں میں تڑپاتی ہے اور تذلیل کے ساتھ ساتھ بے حرمتی بھی کرتی ہے ۔ عراق کے مسلمان قیدیوں کو پیشاب پینے پر مجبور کرتی اور قرآن شریف کے نسخوںکی خاکم بدہن توہین کے لئے زبردستی کرتی ہے ۔اُس قوم کی اپنی اخلاقی پستی اور ذلت دیکھئے کہ اُس قوم کی کوئی بھی بچی اپنی عفت کا تیرھواں سال نہیں دیکھتی کیونکہ وہ بارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بہ رضا ورغبت اپنی عصمت کھو چکی ہوتی ہے ۔یہ وہی قوم ہے جہاں واٹر گیٹ ؔجیسے سیکنڈل پروان چڑھتے ہیں اور کرسٹین کیلر جیسی حرافہ ایوان ِبالا کے اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اُس قوم کو آپ کیا کہیں گے جہاں ہر پانچ منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے اور ہر دس منٹ میں ایک چوری ہوتی ہے یا ڈاکہ پڑتا ہے ؟سگ و شگال کی اُس برادری کو کیا نام دیں گے جہاں کا ایک دس سالہ بچہ ایک مہینے میں دس گیلن شراب ڈکار جاتا ہے مگر پھر بھی وہ اور اُس کی قوم مہذب ،متمدن اور ترقی یافتہ کہلائی جاتی ہے ؟اور انتہائی معصوم اور بے قصور انسانوں کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کے باوجود حقوق بشری یعنی ہیومن رائٹس کی علم بردار اور محافظ کہلائی جاتی ہے ؟یہ کیسی تفریق ہے ؟یہ کیسا تضاد ہے ؟یہ کیسی جعلسازی اور فریب کاری ہے ؟وہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
بھارت میں بھی ٹھاکرے پریوار اور سنگھ پریوار اپنے دیگر حواریوں کے ساتھ مسلم دشمنی میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں ۔آج کل گئو رکھشا ایک ٹُول کے طور پر استعمال کرکے آئے دن بے کس ،بے قصور اور معصوم مسلمانوں پر جان لیوا حملے ہورہے ہیں ، کئی قتل آگے ہی ہوچکے ہیں ،پیٹ پیٹ کر بڑی بے دردی اور وحشیانہ پن سے مارنا سو الگ ۔ان پریواروں کی جانب سے مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لئے ہدایات آئے دن جاری ہوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ عدالت عالیہ کے احکامات پر کان نہ دھرنے کی بھی سیکھ اور ترغیب دی جاتی ہے ۔مسلمانوں کی عزت اور ساکھ متاثر کرنے کے علاوہ مذہبی معاملات میں بھی مداخلت جاری ہے ۔میرا خیال ہے کہ بھارت کے مسلمان گجرات ،ملیانہ ،مراد آباد ،رانچی ،علی گڑھ ،ہاشم پورہ ،مظفر پورہ اور ایسی سینکڑوں جگہوں کے دنگوں اور فسادات کو بھولے نہیں ہوں گے جن میں ہر بار مسلمان کو زیرو لیول پر لاکر کھڑا کردیا گیا ۔ابھینو بھارت تنظیم بناکر دہشت گردی کا لائحہ عمل تیار کرکے اور بم کانڈ کرکے مسلمانوں کو ملوث ٹھہرایا اور ایک انصاف کا دلدادہ مرد میدان پولیس آفیسر آنجہانی یمنت کارکرے نے دودھ اور پانی الگ کرکے جب سرکار کی آنکھیں کھولیں تو مبادا سارا کچا چٹھا باہر نہ آجائے، اُسے ممبئی دہشت گردانہ وارادت کے بہانے قتل کروادیا گیا ۔سابقہ پولیس کمشنر مومبئی کے مطابق 26/11کے دہشت گردانہ حملے میں بیرونی دہشت گردوں کے ساتھ ابھینو بھارت کے دہشت گرد بھی مسلح دہشت پھیلا رہے تھے اور انہوں نے ہی آنجہانی ہیمنت کارکرے کو ٹھکانے لگایا ۔
سن 2003میں مومبئی کا وہ واحد سانحہ اور دہشت گردانہ زیادتی ہے جس کی تحقیقاتی رپورٹ مومبئی ہائی کورٹ کے ایک سابقہ جج سری کرشنا نے بہت قلیل مدت میں حکومت کے سامنے پیش کی اور سو فی صد شیو سینا،بجرنگ دَل ،بی جے پی،آر ایس ایس اور مومبئی پولیس کو مسلمانوں کے لوٹ مار ،قتل و غارت اور مستورات کی عصمت دری میں مورد الزام ٹھہرایا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے رپورٹ کو داخل دفتر تو کیا ،سرے سے ہی غائب کردیا ۔ایسا تو ہونا ہی تھا مسلمانوں کا معاملہ جو ٹھہرا ۔یہاں ہندوؔ جنتا اکثر و بیشتر معاملات میں قانون سے بالاتر ہوجاتی ہے اور وہ بھی خصوصاً جب اُس نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی ہو۔اور اسی طرح دنیا کے کئی ممالک جیسے برما ؔ،تھائی لینڈؔ،فلپاینؔ،روسؔ،چینؔ،عراقؔ،فلسطینؔ،افغانستانؔ،لیبیا ؔ، شام ، کشمیرؔؔ ،وغیرہ میں مسلمانوں کا استحصال اور زیادتی ہورہی ہے ۔قتل عام ہو رہا ہے اور ان خطّوں کی اسلامی شناخت کو داغ دار کیا جارہا ہے ،جس کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں اور کہہ کچھ نہیں پاتے ۔بہر حال بقول قمر رئیسؔ بہرائچی ؎
سجائیں جائیں گے مقتل بنیں گے دارورسن
جہاں میں کیا نہیں ہوگا ہمارے سَر کے لئے
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995
�����