سبزار احمد بٹ
سنا آپ نے گلناز ؟
کیا؟
کیا مطلب کیا ؟ آپ نے موبائل نہیں دیکھا۔ ؟
نہیں دیکھا میں نے۔ آخر ہوا کیا؟ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
گھبراؤں نہیں تو اور کیا۔؟ سرمائی تعطیلات کا اعلان ہوگیا۔ سرما میں کالج بند رہیں گے۔ میں مر جاؤں گا تمہارے بغیر ۔۔۔۔
اللہ رحم فرمائے، کیسی باتیں کرتیں ہیں آپ۔ ابھی ملے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور آپ بچھڑنے کی بات کرتے ہیں ۔
گلناز اپنا نمبر دے دو مجھے ۔ میں ایک پل بھی تم سے بات کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سحران میں تمہیں کہہ چکی ہوں کہ میرے پاس موبائل نہیں ہے۔ گھر میں لینڈ لائن ہے جب کبھی کسی سے ضروری بات کرنی ہو وہ تو لینڈ لائن سے کرتی ہوں اور وہ نمبر بھی آپ کو نہیں دے سکتی کیونکہ اکثر امی ابو ہی اس سے فون رسیو کرتے ہیں
گلناز اور سحران کالج کی پارک کے ایک کونے میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھی۔ تقریباً ساڑھے تین بج چکے تھے طلبا و طالبات کالج کی سبھی عمارتوں سے نکل رہے تھے۔ قہقہوں کی آواز دور تک سنائی دیتی تھیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ پارک کی دوسری طرف چند لوگ پھولوں کی آبیاری کر رہے تھے اور ایک بوڑھا شخص بڑی مہارت سے سرو کے پودوں کی شاخ تراشی کر رہا تھا اور ان دونوں کی جانب بار بار دیکھ رہا تھا۔ وہ دور بیٹھے ایک اور شاخ تراش کو ان کی جانب دکھا کر ماتھے پر اپنا ہاتھ مار کر افسوس کا اظہار کر رہا تھا ۔ دھیمی آواز میں کہہ رہا تھا کہ والدین اپنے بچوں کو کیا کرنے کے لئے کالج بھیجتے ہیں اور یہاں یہ بچے کیا گل کھلاتے ہیں ۔
ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ گیٹ کیپر ان دونوں کے پاس آیا۔ اور سخت لہجے میں بولا
” مجھے گیٹ بند کرنا ہے ”
گیٹ کیپر کا یہ جملہ سن کر دونوں کے چہرے اُتر گئے ۔ جیسے کسی بڑی عدالت میں جج نے ان دونوں کو سزائی موت سنائی ہو۔ دونوں بجھے ہوئے قدموں سے کالج گیٹ کے باہر نکل گئے ۔
گلناز اپنے باپ کی بڑی بیٹی تھی، جس کی اپنے ماں باپ نے پرورش ہی نہیں بلکہ بہت اچھی تربیت بھی کی تھی۔ ماں باپ کو ہی نہیں تمام رشتہ داروں کو ناز تھا گلناز پر ۔ گلناز صوم صلواۃ کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ پردے کا بھی اہتمام کرتی تھی۔ میانہ قد، گول گول گلابی چہرہ، جھیل جیسی آنکھیں، کشادہ پیشانی ، گلاب کی پنکھڑی جیسے نرم و نازک ہونٹ ۔رخسار ایسے کی پھول بھی رشک کریں ۔ انتہائی خوبصورت تھی۔ بہت ہی کم گفتار تھی لیکن جب بولتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے گلاب کے باغ میں نئی کوپنلیں پھوٹتی تھیں۔ اکیلے کالج جاتی تھی اور اکیلے واپس لوٹتی تھی ۔ باپ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا اور چھوٹی بیٹی انجم کو انجینئر۔ اکثر اپنی چھوٹی بیٹی انجم سے کہتے تھے کہ تمہیں اپنی بہن گلناز کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ تب نقشِ قدم کے معنی نہ گلناز کی سمجھ میں آتے تھے اور نہ ہی انجم کی ۔ انجم کالج جاتی تھی تو کالج کے لڑکے اس سے بات کرنے کو ترستے تھے۔ ان کے دلوں میں گلناز کی محبت پنپ رہی تھی لیکن کسی کی جرأت نہیں ہو رہی تھی کہ گلناز کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرے ۔
زینت سے دوستی کے بعد گلناز کے رویئے میں تبدیلی آنے لگی۔ روکھا پن جو کہ گلناز کے کردار کا محافظ تھا کم ہونے لگا۔ زینت ایک آزاد خیال لڑکی تھی ۔ زینت نے گلناز کے دل میں کالج کے ایک لڑکے سہران کے لئے پیار کے بھیج بو دئیے۔ سہران گلناز کے پیار میں مانو پاگل ہوچکا تھا۔ جب جب گلناز کے سامنے سے گزرتا تھا اپنی آنکھیں جھکا کر چلتا تھا، زینت سے بار بار منت سماجت کر رہا تھا کہ میری گلناز سے دوستی کرواؤ ۔ میں اسے بہت چاہتا ہوں کبھی گلناز کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ سہران چونکہ زینت کے بھائی کا دوست تھا۔ اس لیے اس نے وعدہ کیا کہ وہ ضرور گلناز کو اس کی طرف مائیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اُس دن بھی زینت اور گلناز پارک کے ایک بینچ پر بیٹھ کر لنچ کر رہی تھیں کہ سہران وہاں سے گزرا ۔ سہران نے دونوں کو سلام کیا اور نظریں جھکا کر نکل گیا۔
گلناز ۔۔۔۔ دیکھا آپ نے یہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ اتنا خوبصورت ،امیر اور ذہین کہ کوئی بھی لڑکی اس پر فدا ہوسکتی ہے لیکن اس کا دل تو آپ پر فدا ہے۔
زینت میں تمہیں کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ میرا ان سب باتوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے اور ہاں اب تو مجھے نقشِ قدم کے معنی بھی سمجھ میں آنے لگے ہیں ۔ اس لئے میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی ہوں ۔ اور کسی برے راستے پر نہیں چلنا چاہتی ہوں جس پر کل خدا نخواستہ انجم بھی گامزن ہو۔
’’گلناز چلو کلاس شروع ہو گئی‘‘۔ زینت نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر معاملے کو ٹال دیا۔
لیکن جب کبھی زینت کو موقع ملا اس نے سہران کے بارے میں گلناز کو کچھ نہ کچھ بتا ہی دیا۔ بالآخر گلناز سہران کے عشق میں مبتلا ہو ہی گئی اور آج یہ ان کی تیسری ملاقات تھی کہ سرمائی تعطیلات کا اعلان ہو گیا۔
سہران میں چلتی ہوں ۔ زندگی رہی تو تعطیلات کے بعد ملیں گے۔ اور ہاں مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا اور فون وغیرہ کی امید مت رکھنا۔ سہران خاموش رہا۔ گلناز نے بولنا جاری رکھا کہ محبت ان سب باتوں کی محتاج نہیں ہوتی ۔سچی محبت کو سہاروں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ زندہ رہے تو تعطیلات کے بعد پھر ملیں گے۔ خدا حافظ ۔ خدا حافظ کے یہ الفاظ تیر کی طرح سہران کے جگر میں جیسے پیوست ہو گئے۔ اس کا چہرا ایسا اترا جیسے کسی شکاری کے ہاتھ سے پکڑا ہوا شکار نکل گیا ہو۔
گلناز نے تعطیلات کا عرصہ بے قراری میں گزارا۔ اسے اس بات کا افسوس تو تھا کہ محبت کے جال میں کیسے پھنس گئی ۔ لیکن اب وہ کسی بھی قیمت پر سہران کو دھوکہ نہیں دینا چاہتی تھی۔ جیسے تیسے کر کے تعطیلات ختم ہوئیں اور گلناز آج نو بجے کالج پہنچی، اس کی انکھیں ہر طرح سہران کو تلاش کر رہیں تھی۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہیں تھیں۔ زینت نے جونہی گلنازکو دیکھا تو اس نے آتے ہی چٹکی لی۔
گلناز کسے ڈھونڈ رہی ہو، سہران کو ۔
ارے اتنا کیوں پریشان ہورہی ہو۔ آئے گا آئے گا ۔ تھوڑا صبر تو رکھو ۔
یہ دونوں کالج گیٹ کے قریب ہی باتیں کرنے بیٹھ گئیں تاکہ سہران کے آنے کا پتہ چلے لیکن دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب دونوں نے سہران کو کالج پرنسپل کی بیٹی کے ساتھ کالج میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اور سہران نے ان دونوں کو دیکھ کر ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ گلناز اور زینت ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہیں ۔
زینت کہیں یہ بھنورا تو نہیں ہے کہ کلی کلی پر بیٹھنا اس کا شیوا ہو۔
ہاں گلناز میں خود سہران کے اس رویئے سے حیران ہوں ۔ کچھ دنوں تک ایسا ہی چلتا رہا ۔سہران پرنسپل کی بیٹی کے ساتھ کھلے عام گل کھلاتا رہا۔
گلناز پہلے کی طرح پھر سے خاموش مورت بن کر رہنے لگی۔ اس کی آنکھیں جیسے پھترا گئیں ۔ اسے سہران کی بے وفائی کا غم نہیں تھا بلکہ اپنی نادانی کا سخت افسوس تھا اور بار بار زینت سے بس ایک ہی بات کہے جارہی تھی کہ اس نے انجم کے لئے کون سے نقشِ قدم چھوڑے ہیں کہیں وہ اسی کے نقشِ قدم پر تو نہیں چلے گی۔ ہائے میرے ابو کو مجھ پر کتنا ناز تھا۔ کیا کیا میں نے افسوس۔۔ ۔میں اس دھوکے میں کیسے آ گئی ۔
“گلناز یہ سب میری وجہ سے ہوا۔ نہ میں تمہیں سہران کے بارے میں کچھ بتاتی اور نہ تم اس مصیبت میں پھنس جاتی۔ خدا کے لئے مجھے معاف کر دو، اسے دل پر مت لو۔ بھول جاؤ جو ہوا۔ ورنہ تم پاگل ہو جاؤ گی.”
زینت نے گلناز کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
کیسے بھول جاؤں اپنی اتنی بڑی بھول کو۔۔۔۔۔
زینت زینت وہ دیکھو سہران کسی اور لڑکی کے ساتھ اس پارک میں بیٹھا ہے۔ ہاں ہاں لیکن یہ تو پرنسپل صاحب کی بیٹی نہیں ہے۔ چلو دیکھتے ہیں اب کے بار اس بھنورے کے ساتھ کون ہے۔ دونوں تیز تیز قدموں سے سہران کے قریب گئے ۔ گلناز نے جونہی سہران کے ساتھ ایک نئی لڑکی کو دیکھا تو اس کو دھچکا لگا اور وہ دھڑام سے گر کر بے ہوش ہوگئی کیونکہ بھنورے کے ساتھ اب کی بار جو کلی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ گلناز کی چھوٹی بہن انجم تھی۔
���
اویل کولگام،موبائل نمبر؛7006738436