بلوِندر سنگھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف: ٹی۔این۔ سر یوا ستو
صفحات: ۴۲۴
قیمت۳۰۰:روپے
ناشر: ’زرنگار‘ باگڑبلی،مدن پورہ،وارانسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شری مد بھگوت گیتا کا مشہورومعارف منظوم اُردو ترجمہ’’نغمہ ٔ عرفان‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔جسے ٹی۔این۔سریواستو نے اپنی جگر کاوی سے اُردو زبان میں منتقل کیا ہے۔یہ کتاب زرنگار باگڑبلی،مدن پورہ،وارانسی سے ۲۰۰۶ ء میں شائع ہوا۔
بنارس جسے تاریخی شہراور گیان یعنی علم کی راجدھانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔دُنیا کا یہ قدیم شہردریائے گنگا کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔یہاں گنگا کے کنارے گھاٹ پر بیٹھ کر تلسی داس جی نے رامائن لکھی تھی تو وہیں ہندی ادب کے بھارتیند و ہرش چندر،اُردو ڈرامہ نگار آغاحشر کشمیری،اُردو افسانہ نگار منشی پریم چند جیسی نمایاں ہستیوں کے بعد موجودہ دور کے اخری ایام میں اُردو ادب کی مسلسل خدمت کر رہے اعلیٰ شخصیت کے مالک،ٹی۔این۔سریواستو اُن محبین میں شمارکیے جاتے ہیں ،جنھوں نے زبان کو مذہبی خانوں میں تقسیم نہ کر کے اُسے پوری شد ومد کے ساتھ سیکھا بل کہ اُنھوں نے کئی کتابیں اُردو زبان میں تصنیف بھی کی ہیں۔
ٹی۔این۔سریواستوکا اصل نام تربھون نارائن سریواستو اور تخلص رہیس پٹھاری استعمال کرتے ہیں۔ اِن کی پیدایش ۱۴؍اپریل۱۹۳۱ء میں یو۔پی کے ضلع وارانسی کے ایک گاؤں پنڈرہ کائستھان خاندان میں ہوئی۔والد کا نام منشی شیو ناتھ پرساد تھا۔خاندان کے رواج کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔پیشہ کے اعتبار سے بھارت سرکار کے محکمہ ٹیلی کام (D.T.O) کے تحت ٹی۔ای۔ایس (Telegraph Engineering Services) سے بطور اسسٹنٹ انجینئر ملازمت کی اور پھر۱۹۹۰ء میں سکبدوش ہوئے۔ٹی۔این۔سریواستو کو ہندی اور اُردودونوں زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔اُن دونوں زبانوں کے علاوہ انگریزی میں بھی انھیں مہارت حاصل ہے۔اِن زبانوں کے اصناف (نثر و نظم)کے ذریعے وہ ملک و قوم اور سماج کی بھلائی و بہبودی کی خاطرمسلسل کام کر رہے ہیں۔ اب تک اُردو اور ہندی میں اُن کی دس(۱۰)کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ان کے کلام کا پہلا شعری مجموعہ ’’گل پوش‘‘نے عوامی سطح پر خوب پذیرائی حاصل کی تھی اِس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہے۔’’بس تھوڑا اور‘‘ (ہندی کلام کا مجموعہ)،خلقت ِ نو۔جے شنکر پرشاد کے مشہور شاہکار’’کامائینی‘‘کا منظوم اُردو ترجمہ،کہاں سے کہاں۔ہندی ناول،جوتش کاک کھ گ۔ہندی میں علم ِ نجوم،خیابانِ تخیّل۔مجموعہ مضامین،سرمن آن دی بیٹل فیلڈ(Sermon on the battlefield) ’’نغمۂ عرفان ‘‘ شری مد بھگوت گیتا کاسنسکرت زبان سے منظوم اُردو ترجمہ،یہ ترجمہ نستعلیق اور ناگری دونوں رسم الخط میں منظر عام پر آچکا ہے۔
بھگوت گیتا کے مطالعہ کے دوران مجھے ٹی۔این۔سریواستو سے ملنے کا شرف حاصل ہو۔ بہت ہی پُر خلوص،خوش مزاج اور ملنسار انسان ہیں۔بھگوت گیتا کے مطالعہ کے دوران مجھے بہت ساری مشکلاتو ں کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا۔جس کی وجہ میری سنسکرت اور ہندی زبان سے ناواقفیت تھی۔ بھگوت گیتا میں جو عظیم فلسفہ پیش کیا گیا ہے اِس تک رسائی تب تک ممکن نہیں جب تک سنسکرت یا کم سے کم ہندی زبان سے واقفیت نہ ہو۔لیکن ٹی۔این۔سریواستونے میری بہت ساری مشکلاتیں حل کر دی۔
بھگوت گیتا کے ترجمہ یعنی’’نغمۂ عرفان‘‘کے متعلق جب میں نے اِن سے سوال پوچھا کہ یہ ترجمہ اپ نے کیوں کیا۔بقول ٹی۔ این۔شری وایواستو:۔
’’چوں کہ اُ ردوداں طبقے میں زیادہ تر لوگ سنسکرت زبان سے نابلد ہیں۔اِیسے میں ضرورت اِس بات کی تھی کہ اُردو زبان میں ترجمہ کیا جاے تاکہ ہر کوئی اس کتاب سے استفادہ کر سکے۔‘‘ دوسری بات یہ کہ بھگوت گیتا سے ان کی ذاتی دل چسپی نے بھی اُنھیں اس کام کو کرنے پر مجبور کیا۔چوں کہ انھیں ہندی اور سنسکرت زبان پر عبور حاصل تھا اور شری کرشن مہاراج کی اُن پر کرپا تھی تو وہ اس کا م کو کیوں نہ کرتے۔’’دیباچہ‘‘ٹی۔این۔سریواستو نے خود لکھا ہے۔بھگوت گیتا کے مرکزی خیال کے بارے میں راقمطراز ہیں:
یہ ’نِشکام‘کیا ہے؟ جس عمل میں ’کام‘ یعنی نفسی خواہشات کا نام و نشان نہ ہو،جو بے لوث ہو کر کیا جائے، جو فر یضہ سمجھ کر انجام کار سے بے نیاز ہو کر،ثمر کو خواہش کیے بغیر راہ حق میں کیا جاے وہ نشکام کرم ہے۔ ایسے کار خیر کرنے والا نشکام کرم یوگی دُنیا وی کاروبار میں مصروف رہتے ہوے بھی کسی عارف،کسی عالم، کسی دلی یا کسی سنیاسی سے کہیں اونچا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اِس میں اپنے پارسا ہونے کی کبریائی اور انا کی کوئی علا مت نہیں ہوتی۔وہ تو بس مالک کا معمولی بندہ ہوتا ہے۔نشکام کرم یوگی جو بھی کرتا ہے بس’اُسی‘کے نام پر اور ’اُسی‘ کو سونپ دیتا ہے۔اِس کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا وہ خود بھی اپنا نہیں ہوتا۔
گیتامیں علم و عمل،عقیدت وعبادت،طریقت وریاضیت شریعت و روایت اور سب سے بڑھ کر آتما پرماتما۔ یعنی ضمیر اور رُوح مطلق کی تشریح و توضیح کرتے ہوے ’پرم برمبھ‘ کے وحدت شہود کو جو ایک ہوتے ہوے بھی انیک اور انیک ہوتے بھی ایک ہے،سب دھرموں کے اوپر بتایا گیا ہے۔بھگوان خود کہتے ہیں:
’’سرودھرمان پر تجیہ،مامیکم شر نم ورجہ ‘‘یعنی سبھی دھرموں کو چھو ڑکر میری شرن میں آجاؤ۔
ترجمہ اٹھارہ ابواب،سات سو اشلوک (۷۰۰)اور چار سو چوبیس(۴۲۴) صفحات پر مبنی ہے۔
پہلے باب کا آغاز’’اُرجن وشاد یوگ‘‘ سے ہوتا ہے۔مُترجم نے بڑے صاف، سادہ اور دلکش انداز میں دھرت راشٹر اور سنجے کے درمیان ہوئے مکالمات کا نقشہ کھینچا ہے۔جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹی۔این۔سریواستو نے کتنی جافشانی سے اس ترجمے کو سر انجام دیا ہے۔ اشلوک(۱،۲) ملاحظہ کیجیے:
دھرت راشٹر نے کہا:
رزم کہ کوروؔچھیترمیں جو جنگ حق کی ہے رواں
خیمہ زن ہیں برسر پیکار کورؤ پانڈواں
درمیاں پسران میرے اور بھائی پانڈوؔ کے
کیا ہوا، سنجے ؔ کہو تفصیل سے سب داستان
سنجے نے کہا:
مورچہ بندی مکمل دیکھ کر میداں میں
شاہ دریودھن ؔ چلا سوئے گورو اک آن میں
اور بولا دست بستہ، غور فرمائیں جناب
پانڈوؤں کے فوج کی ترتیب خاص کمان میں
ترجمے کی خا ص بات یہ کہ ہرباب کے شروع میں ٹی۔این۔سریواستونے باب کا مختصر خلاصہ پیش کیا ہے۔دوسرا اس میں دونوں زبانیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں،کتاب کی دہنی جانب سے اُردو منتر اور بائیں جانب سے ہندی میں اشلوک درج کیے گئے ہیںتا کہ اُردو اورہندی والے اس سے مستفید ہو سکیں۔
مُترجم نے شری مد بھگوت گیتاکے فلسفے کو اُردو کے قلب میں ڈھالنے کی متحسن کوشش کی ہے او ر بھگوت گیتا میں بیان کیے گئے زندگی کے اسرار و رموز کو آسان عام فہم زبان میں پیش کیا ہے۔لیکن اکثر مقامات پر ہندی اور سنسکرت الفاظ کے استعمال سے ترجمہ ادِق بھی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے باب کا اشلوک نمبر (۳۴)پیش کیا جا رہا ہے۔
شرادّھ تَرپن پِتر گن کو جب نہیں مل پائے گا
ختم ہوجائے گا یو ں تب خانوادہ ’کل دھرم‘
ذات کی پاکیز گی کا ختم ہو گا سلسلہ
پاپ بڑھ جائے گا،دوزخ جائیں گے ا ہل عدم
شرادّھ، ترَپَن،پِتر گن،دھرم کے لفظ سنسکرت سے ماخوذہیں۔ ’شرادّھ‘ کو اُردو کے مزاج میں پنڈ دان کہتے ہیں۔ ’پِتر گن‘ (گزرے ہوئے بزگوں کے اوصاف) ’دھرم‘ کو اُردو کے مزاج میں معاشرتی فرائض۔ ارجن شری کرشن مہاراج سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جن کا کل دھرم (خاندانی روایت)ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی جو روایت کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ گزر ے ہوئے بزرگ جب پنڈ دان سے محروم رہ جائیں گے،پاپ بڑھ جائے گا اوروہ لوگ کئی عرصہ تک دوزخ میں رہتے ہیں۔
نظام ِ کائنات یعنی قدرت کے نظام کو ٹی۔این۔سریواستوبڑے دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں۔ باب سات کا اشلوک (۶)ملاحظہ کیجیے:
دو نوعیت کی جو قدرت ہے،’پرا‘ ’اپرا‘ پرکرت
ہے اِنھیں کے بطن سے اِس ساری خلقت کا وجود
’میں‘ فقط ہوں ایک ’میں ہی‘ مرکزِ این کائنات
مجھ میں ہی ہے خلط ہوتا ساری خلقت کا وجود
قارئین کی دل چسپی کے لیے (۷۴/۲) اشلوک کا منظوم ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔رہیسؔ پٹھاری نے نفسِ مضمون کوذہن میں رکھ کر بھگوت گیتاکے عظیم فلسفے کے مفہوم کو ’قطعہ‘میں واضح کیا ہے۔جب کہ انورؔ جلالپوری نے کئی اشلوکوں میں بھگوت گیتا کے فلسفے کو بیان کیا ہے ۔
اشلوک (۷۴/۲)
نہیں تیرا جگ میں کوئی کاروبار عمل جس میں پھل کی خواہش نہ ہو
عمل ہی کے اُوپر تر ا اختیار عمل جس کی کوئی نمایش نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمل چھوڑ دینے کی ضد بھی نہ کر فرائض اور ا عمال میں ربط رکھ
تو اِس راستے سے کبھی مت گذر سدا صبر کر اور سدا ضبط ر کھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توازن کا ہی نام تو یوگ ہے
یہی تو اپنا بھی سہیوگ ہے (اُردو شاعری میں گیتا،انور جلالپوری ص ۸۸)
اشلوک (۷۴/۲)
ہے عمل تک حد تمھاری،مت کرو فکر ِ ثمر
کام کو تم فرض سمجھو،ہے یہی’نشِکام کرم‘
ترک کر حرصِ ثمر،لگ جا ؤ کارِ خیر میں
’کام‘ سے بے لوث ہو،تو ہے یہی’نشِکام کرم‘ (نغمہ عرفان،رہیس پٹھاری ص ۳۷)
جہاں تک انورؔ جلالپوری کے ترجمے کے مفہوم کی بات کی جائے تو اس کا تو کوئی جواب نہیں۔نفسِ مضمون کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس سادگی اور سلاست سے وہ مفہوم کو بیان کرتے ہیں اس کی لیے تو ایک مصرا یاد آتا ہے۔’’لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار ہی نہیں‘‘کس محبوہانہ انداز سے فتح حاصل کر لیتے ہیں، تو دوسری طرف رہیس پٹھاری بھی نفس ِ مضمون کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،مفہوم کو بڑے معنی خیز انداز میں پیش کرتے ہیں۔اُن کے اس نشِکام کرم اور کرشن بھگون جی سے دولہانہ محبت پر ندا فاضلی کا مصرا یاد آتا ہے۔’’عشق کیجیے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے‘‘۔ترجمے کے بارے میں ڈاکٹر سلمان راغب راقمطراز ہیں:۔
’’سریواستو صاحب کی زبان صاف اور سلیس ہے۔ان کے ترجمے میں ہندی الفاظ بہت ملتے ہیں جو کہ متن کے لحاظ سے ناگزیر ہیں۔چوں کہ یہ ترجمہ مذہبی کتاب کا ہے اس لیے قاری کو اس میں بہت سے الفاظ نا مانوس لگیں گے اس کے لیے مُترجم نے ہر باب کے آخر میں فرہنگ مُرتب کر دی ہے جس سے قاری کو متن سمجھنے میں آسانی ہو گی۔‘‘
ترجمے اٹھارھویں باب’موکش سنیاس‘ پر ا ختتام پذیر ہوتا ہے۔مُترجم نے ہر باب کے آخر میں ایک ’قطعہ‘کا اضافہ کیا ہے جس میں مُترجم کے تخلص کے ساتھ اس باب کی تلخیص بھی پیش کی ہے۔مثال کے طور پر(۹۷،۸۷\۸۱) اشلوک ملاحظہ کیجیے:
شری کشن ہوتے جہاں موسوم جو یوگیش ہیں باب اٹھار ہ کہ راہِ خود سپردی کے تحت
اور اُرجن ؔ جو کماں انداز یکتائے زماں مغفرت حاصل کریں کسی طرح،اُس کا ہے بیاں
ہے وہاں فتح و ظفر، حق و برکت و خوشی لے مجھے اپنی اماں میں،بس یہی کہہ اے رہیسؔ
میں سمجھتا ہوں جہاں یہ دو،سبھی کچھ ہے وہاں یہی گیِتا، یہی قرآں کا رہا طرز بیاں
مختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں رہیس پٹھاری نے بھگوت گیتا کا سنسکرت سے اُردو میں منظوم ترجمہ کر کے دیگر مذاہب،خاص کر ا ہلسنّت کے سامنے اہل ہندو کے مذہبی نظریہ کو پیش کرتے ہوئے اعلیٰ شکل میں گیتا کو دکھانے کی جوکوشش کی ہے قابل ِ تحسین ہے۔ اُردو زبان کے ادبی خزانے میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ اُ ن کی تمام خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
( مبصر،ریسرچ اسکالر، شعبہ ٔ اُردو بنارس ہندو یونیورسٹی ہیں)
<[email protected]>
نغمۂ عرفان۔شری مد بھگوت گیتا کا منظوم اُردو ترجمہ
