نظم
آدمی فولاد دل ہوتا ہے جب
کارِ عالم انجام وہ دیتا ہے کیا
سب نے دیکھا اِس سبب کا کرشمہ
حاکمِ دلؔ کو کوئی تھپڑ دیتا ہے کیا
پیش گوئی ہے یہی فردا کی اب
’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘
جنسِ زن کا ہے میاں افضل مقام
ذی فہم کرتے ہیں اس کا احترام
کائیناتِ دہر کی ماخذ ہے یہ
نیم خام کہتا ہے اِس کو جنسِ عام
کھا گئی یہ آج تھپڑ بے دریغ
’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘
ہیں ذی ہنر گرداں تلاشِ روزگار
جھوٹے وعدوں پر ہے انکا انحصار
درِ حاکم پہ یہ جاتے ہیں پُراُمید
لوٹ آتے واں سے لیکن ہوکے خوار
کیوں نہ پکڑے پھر فوذن ذہن کا
’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘
جگدیش راج عُشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
علم
علم حا صل کر گر اندھیرا مٹا نا ہے
قلم کو تلوار کر اگر دشمن گِرانا ہے
سبق پڑھ، انسان بن اپنے جہاں کا
انسانیت کے گُن گا گر درد بانٹانا ہے
اپنے شرف کو اشرف کر اپنے شہر میں
اقدار کا اخلاق کا تُجھے نمو نہ د کھانا ہے
زمین میں چھُپے خزانے تیرے پاؤں کے تلے
حِکمت کی کھُوج سے تُجھے راز فاش کرانا ہے
تنہاؔ نہیں مِلتا کبھی اس جہاں میں پیار
دوسروں سے رشتہ رکھ گر پیار جتانا ہے
قاضی عبدالرشید تنہا
روزلین چھانہ پورہ، سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛7006194749
جدید دور اور علم
علم کی رہی نہ اب بچوں میں وہ پیاس
سب میں پائی جاتی ہے بس موبائل کی آس
کتابیں پوچھتی ہیں اب انکے بستوں سے
کہاں ہے وہ ہاتھ، کہاں ہے وہ کلاس؟
سبق کا ذوق اور کہانیوں کا وہ مزہ
سب چھن گیا اور ہیں ہم سب اُداس
وقت کا ضیاع اور بےحسی کی فضا ہے
منافقت کا عالم ہے کہاں سے آئے احساس؟
کاش اصلیت کے دن واپس آتے!
جب کتابیں تھی دوست اور اساتذہ تھے خاص
بلال احمد صوفی
خوشی پورہ، ایچ، ایم، ٹی، سرینگر ،کشمیر
موبائل نمبر؛6006012310