انتظار کی دہلیز پر
تم آؤ گی تو موسم بدل جائےگا
کتنی صدیوں سے ہجر کی دھند ہے
میرے اداس آنگن میں
پیڑ کی عریاں شاخوں پہ
تھکی تھکی دھوپ کے ماتھے پہ
فضاء کی سلگتی ویرانی میں
ہوا کی دم توڑتی سرگوشیوں کے خیمے میں
پرندوں کی گمشدہ چہچہاہٹ میں
کسی تتلی کا رقص نہیں
کسی جگنو کی ٹمٹماہٹ نہیں
کوئی دستک نہیں
کوئی آہٹ نہیں
جیسے کچھ بھی نہیں
تم آؤ گی تو موسم بدل جائےگا ۔۔۔۔!!!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7889677765
اے ربِ ووالجلال
کچھ تو ہوائے تُند کے جھونکو کے سبب سے
کچھ بے دریغ بارشوں کی تھی یہ عنایت
بادل پھٹے اور پھر سیلاب آگیا
اِک آن مین زمین کا نقشہ بدل گیا
اس حادثے نے گھر اور گھروندوں کو لیا ساتھ
لاچار خلق سے پھر نہ رہی گھر نہ گھاٹ کی
پھر چار دن گزرگذر گئے مطلع نکھر گیا
پھر سے زمین پہ سابقہ سی آب و تاب تھی
روئے زمیں پہ مہرومہ پھر سے بکھر گئے
کون و مکاں سے ایک ہی آواز بلند تھی
پھر سے زمین پہ آن میں ہلچل شروع ہوئی
پھر ہوگئے مکین سب مصروفِ روزگار
گوشۂ زمیں پھر سے تھی اپنے مدار پر
پھر بُھول گئے لوگ سب درپیش حادثے
یہ کرشمہ بھی تیرا ہی تھا اور اب ہے کمال
اے ربِ ووالجلال اے ربِ ذوالجلال
عُشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
ماں
ماں کی عظمت سے یہ دنیا نرالی
ملی تجھ کو وہ جو نعمت ہے پیاری
انکی راہ عشق کسی زمانے سے کم نہیں
ان کی زینت کسی گل سے کم نہیں
جن کی ہستی سے دنیا تری آباد ہے
ان کے دل کو دُکھانا بری بات ہے
ساری مشکل وہ کاٹی تمہارے لئے
رہے بیدار شب بھر تمہارے لئے
ایسی عظمت جو دنیا نے دیکھی نہیں
جن کے قدموں تلے سب کو جنت ملی
محمد عثمان
جامعہ دار الہدیؔ اسلامیہ
[email protected]
میں کیا ہوں
میں کیا ہوں بارہا یہ سوچتا ہوں
کوئی تقصیر ہوں یا بد دعا ہوں
کسی آہ ہوں غم کی صداہوں
میں مشتِ خاک ہوں، زرّہ ہوں
فقیر دہر کے بے رحم ہاتھوں میں
ایک کاسہ ہوں کھوٹا سکہ ہوں
اُجڑے بازار کی ویران گلیوں میں
سمٹی حسرت ہوں بکھرا سودا ہوں
دھتکارا ہوا سنگِ خارا ہوں
بے بسی بے کسی کا مارا ہوں
ضبط کی آڑ میں جو پنہاں ہے
میں وہ نقصان ہوں خسارا ہوں
میں وہ دستار ہوں کہ اکثر جسے
دستِ اغیار نے اُچھالا ہے
میں وہ ستم ظرف جسمِ عاجز ہوں
جو اژ درِ ستم کانوالہ ہے
میں وہ مجبور ہوں کہ جسکو اپنوں نے
فریب و چھل سے مار ڈالا ہے
دل کی دُنیا اُجاڑنے والو
ترچھی نظروں سے تاڑنے والو
تم بھی کیا چین پائوگے
دستِ قدرت سے ظرب کھائوگے
میں وہ احساس ہوں شکایت ہوں
رد ہوئی جو غریب کی حاجت ہوں
مختصر یوں کہ کچھ نہیں ہوں میں
گرچہ کچھ ہوں تو بس یقیں ہوں میں
میں نے مانا تھا ایک دنیا جسے
اس کی دنیا میں کہیں نہیں ہوں میں
کہاں ہوں، کیا ہوں بس اتنا پتہ دے
میں کھویا ہوں مجھے کوئی صدا دے
میں مدت سے تلاشِ آپ میں ہوں
کسی نے گر مجھے دیکھا ہے تو بتادے
میں ناکردہ گناہوں کی سزا ہوں
یہی میری بقا ہے میں فنا ہوں
میں کیا ہوں بار ہا یہ سوچتا ہوں
میں کیا ہوں بارہا یہ سوچتا ہوں
مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481