لو جی فوجی موج منائو ، مفتی مودی سرکار نے عسکری لشکر ڈھونڈنے کا نیا طریقہ دریافت کرلیا۔ دروغ بر گردن ِ راوی وہ کہتے ہیں کہ اب تو عساکر بم بارود بندوق لے کر نہیں گھومتے بلکہ پٹھانی سوٹ پہن کر گھومتے گھماتے چلتے پھرتے ہیں۔چلو بزاز سے پتہ کریں کس نے پٹھانی سوٹ کا کپڑا خریدا ،محلے کے درزی سے معلوم کریں کس نے پٹھانی سوٹ سلوایا ۔پھر گائوں گائوں قریہ قریہ گھومنے کی ضرورت نہیں کہ لوگوں سے فون سے پتہ کریں کہ جنگجو کہاں چھپے ہیں۔بھلا اب وہ کیسے چھپ سکتے ہیں وہ تو پٹھانی لباس میں دور سے پہچانے جا سکتے ہیں۔وہ بھی کیا دن تھے کہ غریب کشمیری پھرن اور لنگوٹ پہنتے تھے تب انہیں ساہوکار، چوکیدار، تھانیدار، ذیلدار اور رعب دار وغیرہ چابک مارتے تھے اور وہ نہ جائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق چابک کی مار برداشت کرتے تھے ، شکر ہے کہ جان سے ہی نہ مارے جاتے تھے ۔البتہ وہ زمانے لد گئے جب کھانے کو کم اور پہننے کو پھٹا پرانا ملتا تھا اور اس دور میں آپ کیا پہنے کیا کھائیں یہ کسی کی مرضی پر منحصر تھا لیکن جب سے جمہوری تماشے نے سر ابھارا، ہم تو خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔ سردیوں میں بند اور بہار آتے ہی آزاد شدہ گھریلوجانوروں کی مانند قلا بازیاں کھاتے کہ ہم آزاد ہیں۔۔۔اور بھی اچھل اچھل کر چلاتے رہتے کہ سرداری عوام کا حق ہے اور ہم ہی تو عوام ہیں مگر کیا معلوم تھا کہ سرداری میں پھر سروں کو تولنے کے بدلے گننے کارواج شروع ہوا اور وہ بھی اس جگہ جہاں ابن آدم کو جھنجھوڑ کربتایا جاتا ہے کہ اپنی مت سوچو ہماری سنو کہ ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ور ہم اس لئے جانتے ہیں کہ ہم اکثریت میں ہیں کہ کون نہیں جانتا کہ ’’لُکہ موت گوو انہِ گوٹ‘‘(اکثریت آمریت ہے )۔اسی لئے جب بیف کی خبر پھیلتی ہے تو اکثریتی ہجوم ٹوٹ پڑتا ہے ،تب اخلاق کیا، پہلو خان کیا، جنید کیا، ایں کیا آں کیا ،اور جب نتیش بابو بھی بھاجپا کی گود میں آگرا جیسے کوئی پکا ہوا آم ڈالی سے ٹوٹ کر گر جائے تو وہاں بھی بیف کے نام پر گاڑیاں روک کر پٹائی کا دھرم یدھ شروع ہوا ؎
سیکھئے نتیش سے کرسی جٹانے کاراز
عشق کا اعلانیہ اظہار ہونا چاہئے
صبح لالو،شام پنجہ کل کنول سے دوستی
پالیٹکس میں میاں مردار ہونا چاہئے
وہ تو ہم جانتے تھے کہ ایسی اکثریت کو سرکاری آمریت کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن اب کی بار مودی سرکار میں پٹھانی سوٹ پہننے پر بھی زندگی اور موت کا فیصلہ ہوتا ہے ،یہ پہلی بار سنا۔ مانا کہ منی پور میں ماورائے عدالت قتل کی واردات کی تحقیقات سی بی آئی کرے گی لیکن اپنے ملک کشمیر میں بھی ایک بار پتھری بل کھلی ہلاکتوں کی تفتیش سی بی آئی نے کرکے پانچ فوجی افسران کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن ادھر کی کون سنتا ہے فوجی عدالت نے پہلی ہی پیشی میں اسے زمین برد کردیا کہ کوئی کیس ہی نہیں بنتا یعنی پانچ لوگ تو سمجھو مرے ہی نہیں تھے لیکن ان کو مارنے کے عوض ’’ویروں ‘‘کو انعامات مل گئے۔وہ تو گھروں سے نکال کر بھون دئے گئے لیکن کیس نہیں بنتا۔ان کے گھر والے انتظار میں ہیں کہ کب لوٹیں گے لیکن کیس نہیں بنتا۔ مژھل سے گجرات تک ایک ہی کہانی بنائی جا رہی ہے ۔ادھر میجر اوپندر جیل تو گیا لیکن غازی بن کر باہر نکلا کہ تم نے تو کوئی قتل کیا ہی نہیں کیونکہ پٹھانی سوٹ پہنے تو صرف عسکریت پسند ہوتا ہے اور ان فاختاؤںکو مار ڈالنا دیش سیوا ہوتی ہے جس کے لئے شاباشی ، سلامی، ترقی کی طشتری میں سجے سجائے انعام و اکرام ملتے ہیں ۔اگر پہلے سے نہیں ملا تو اب اچھی خاصی کلیم بنائو کہ تم ہو تو بھارت ورش محفوظ ہے کیونکہ نادی ہل کے تین جنگ جوؤں کو تم نے پٹھانی سوٹ میں ملبوس ہوکر فوراً پہچان لیا، اس لئے گولی چلانے والے ہاتھ کے ساتھ ساتھ تمہاری باز جیسی نظر کو الگ سے پُرسکار ملنا چاہئے۔ادھر ڈی جی ونجارا بھی سہراب الدین قتل ِعمد کیس سے بری ہوا کہ نیائے پال نے اس دیش بھگت کو سلاخوں میں پاکر افسوس جتائے کہا تم اور جیل میں!!! چھی چھی چھی !!! تم ایسے معصو میت وشرافت کے پتلے سے قتل سپنے میں بھی ہو نہیں سکتا ۔تم نے خود ہی لکھا تھا جیل سے لمبا چوڑاخط کہ جو کچھ کیا وہ امیت شا کے کہنے پر کیا، پھر اس میںتمہارا کیا دوش؟؟؟اور امیت شاہ تو وزیر داخلہ بننے والا ہے پھر اس پر کوئی الزام کیسے دھر سکتا ہے؟صاف و شفاف تن پر پانی نہیں رُک سکتا ،الزامِ قتل بھلا کیسے رُکے۔اگر الزام ٹھہرا تو وزارتِ داخلہ کا قلمدان میلا ہوگا جسے شفاف دکھانے کے لئے پیشگی سوچھ کرسی ابھیان چلانا ضروری ہے۔جبھی تو نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری ، نہ رہے گا میل نہ جھاڑو کی کرش کرش۔چل رے ونجارا آزاد پنچھی کی طرح گھوم پھر ، امیت شا کے کدئوں کیادان دکشنا کے صدقے تمہارے بینگن بھی سیراب ہوئے۔
اور وہ جو نعرہ لگایا تھا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘وہ کس قدر سچ ثابت ہو رہا ہے؟ اس کے لئے دیکھنے والی آنکھیں اور تاڑنے والی ترچھی نظریں ہوں ۔۔۔اور اگر کوئی آوارہ بے چاراکسی سیاسی عینک سے دیکھے تو ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ۔ یقین نہ آئے تو ہم نے گائیوں کے لئے ایمبیولنس کا انتظام کروایا کہ راہ چلتی کوئی گائے ماتازخمی وغیرہ ہوجائے تو اسے تکلیف نہ ہو بلکہ علاج کی سہولت فوراً دستیاب ہو ، فری میڈئل ایڈ کیے لئے ہسپتال وقت پر پہنچے ، جبھی تو کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا ہے کہ وکاس کے معاملے میں گئو ماتا کو پس پشت ڈالا گیا۔اب رہی بات اصلی ماتا کی وہ تو درد سے کراہ کر آواز بھی دے، گائے بے چاری کیا کرے؟ کسے بلائے؟ کسے کوسے؟کسی کی بیوی مرے تو اس کا شوہر اسے کندھے پر لے جا سکتا ہے، کسی کے بچے کی لاش موٹر سائیکل پر لے جا سکتے ہیں یا کسی کے ماں کی میت سائیکل پر لے سکتے ہیں لیکن گائے ماتا کے ساتھ تو ایسا نہیں ہو سکتا ۔ بیوی بچہ ماتا خود بھی دو پائے ہیں، اس لئے ان کی میتیں دو پہیہ والی گاڑی پر جا سکتی ہیں۔ اپنی گئو ماتا تو چو پایہ ہے ،وہ سائیکل، کندھے یا دو پہیہ ریڑھی پر نہیں جا سکتی، اسی لئے ہم گئو ماتا کے لئے ایمبولنس کا انتظام کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ کوئی باؤلا یہ کہتا پھرے کہ ہم منش سے زیادہ گائے کو ترجیح دیتے ہیں ،کہتا رہے، اب کی بار بھاجپا سرکار میں کون کسی کی سنتا ہے؟
اور جمہوری تماشے میں طرح طرح کے شوشے کھڑے کئے جاتے ہیں اور اگر یہ شوشہ خود سربراہ دانش گاہ پھیلائے تو اس کی ذہنی صحت پر سوالات خود رو پودے کی طرح پلک جھپکتے اُگ آئیںگے۔ جے این یو کے رئیس جامعہ کے منہ میں گھی شکر کی فر مایا وطن پرستی اُبھارنے کے لئے یونیورسٹی میں کتب خانہ نہیں توپ خانہ کھڑا کیا جائے ۔واہ کیا بات ہے !!! اسے کہتے ہیں اللہ دے بندہ لے ۔ کیوں نہ اب ایسی نیتی اپنائی جائے کہ جو ممبران پارلیمان غریب و بے بس کسان کی طرف ایک آدھ بار بھی دیکھنے کا کشٹ نہیں کر تے ان کے اندر جذبۂ ہمدردی برائے کسانان ہندوستان بیدار کر نے کے لئے پارلیمان کے لان میں ایک ہل فلک بوس ٹریکٹر کھڑا کیا جائے۔ کیا کریں یہ ہوا تو اپنے ہل والے نیشنلی فوجدار پھر فوراً اپارلیمان کو اپنے نام کروانے کی مہم چھیڑیں گے یعنی بھلے ان کی اندرونی خود مختاری قراداد اسی پارلیمان میں ردی کی نذر کی گئی لیکن ہل دیکھ کر وہ اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا نعرہ مستانہ لگا کر باقی ممبران کو بیگانہ بن جانے کی دہائی دیں گے ۔ صفائی
کرمچاریوں کے تئیں ہمدردی کا پودا پتھر دلوں میں سینچنے کے لئے کیوں نہ ہر اسمبلی میں ہمالیہ جتنا وانچا جھاڑو کھڑا کیا جائے ؟ مگر کیا کریں اس پر آوارہ کتوں کے حقو ق کی لڑائی لڑنے و الی مینکا جی لال پیلی ہوجائیںگی ، محترمہ بے چارے صفائی کرمچاریوں پر برسیں گی کہ یہ نادان سگِ ِبے زبان کو کوڑے کرکٹ کے مالکانا نہ حقو ق سے محروم کر کے ہندوستان بھر میں کتوں کی عزت کا اپمان کر تے ہیں۔اور اگر طلبا کی جانب ہمدردی کا اظہار کرنے کے لئے ٹوٹے قلم خالی دوات کا انتخاب ہوا تو اپنے مرد ِمومن کے سنہرے سپنوں کی تعبیر کرنے والے فوراً میدان عمل میں کود پڑیں گے کہ ہم قطبین ملاتے ہیں مگر کرسی پر بیٹھے اپنے لنگوٹے یار کنول والے پھل پھول چنتے ہیں اورکانٹے ہمارے ہاتھ تھماتے ہیں۔ اور یاد آیا، ہل والے قائد ثانی الیکشن کے وقت بندوق برداروں کی طرف داری میں مصروف رہے کہ یہ لوگ بقول اس کے اپنے حقِ آزادی کے لئے لڑتے ہیں مگر اب کسی بندوق بردار کی ہلاکت پر وردی پوشوں کو مبارک باد دے کر اچھا کام جاری رکھنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ ہل والے سپاہی جو کبھی حملہ آور خبر دار کا نعرہ لگا کر سیاسی آوارہ گردی کرتے تھے، اب عام لوگوں کی ہلاکت پر افسوس بھی ظاہر کرتے ہیں، واہ بھئی واہ ! لیکن ا گر پوچھئے ۲۰۱۰ء میں آپ کی اپنی حکومت کے زیرسایہ جو ایک سو بیس معصومین چند دنوں میں یکے بعد دیگرے مارے گئے، کیاوہ عام نہیں تھے ؟وہ بولیں گے نہیں حضور! وہ تو پٹھانی سوٹ پہنے خاص الخاص کشمیری تھے جو اللہ کو پیارے ہوگئے مگر جاتے جاتے ہماری دیش بھگتی کی لاج رکھ گئے۔اسے کہتے ہیں کشمیر کی سیاست کا جنتر منتر چمتکار کہ اقتدار ہے تو قتل و غارت مزیدار، کرسی گئی تو ماردھاڑ ، خون خرابے پر بے کار سیاست کار کی مگر مچھی آنکھیں اشک بار۔ویسے اس کھیل تماشے میں قلم دوات والے بھی کسی طور پیچھے نہیں ۔وہ جب کرسی کی طرف دیکھ دیکھ کر منہ سے رال ٹپکاتے تھے اور اقتدار کی پری کے حجلۂ عروسی سے باہر تھے تو ہاتھ ہلا ہلا کر بندوق برداروں کی راہ میں پلکیں بچھاتے تھے ۔ان کے ماتم زدہ گھر وںمیں جاکر بطرزِ حریت متاثرہ اہل خانہ کی ہمتیں بڑھاتے، دلاسہ دیتے ، بوقت ضرورت شاباشی دیتے اور تعزیت کی بوچھاڑ کرتے ؎
آئو مل کر کھاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
گیت خوشی کے گاتے ہیں آو مل کر کھاتے ہیں
جب وقت پڑا تو بھاگیں گے دلی اور لندن اپنا ہے
مل کر بھوک مٹاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
ہے پہلے بھی لوٹا اس کو پر قوم بھلا بیٹھی ہم کو
اک اور سبق سکھلاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
تو عدل کا شور مچائے جا میں ظلم کو عام کئے جائوں
اس طرح سے کام چلاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
یہ آفت کے پر کالے وقت ِضرورت حریت کی بلائیں لیتے کہ تم جیو ہزاروں سال تم سے ہی قرضے کا تخت لامثال ۔ اسی وجہ سے قلم دوات کے کماندان مظفربیگ آف ہندوستان اونچی مچان پر چڑھے گیلانی صاحب سے مخاطب ہو ئے : بھلے ہی این آئی اے حریتی کرتا دھرتا ؤں کو اندر کر کے دُکھوں کا سنساردیں مگرآپ ہمیں پیار دیں، جناب! عالی حج کریں ذرا عساکر کو بندوق تج دینے کو کہہ دیں، ہماری کرسی بچے توآپ کاگیا بگڑے ؟ قسم سنگھ پریوار کی قلم دوات کاعارضی اقتدارآپ کو ڈھیر ساری دعاؤں کا دائمی اُپہار دے گا۔
قصہ کوتاہ کرسی ہرجائی ہے ، کسی کی مستقلاً وفا شعار نہیں، پل میں آنکھیں پھیرے پل میں گلے پڑ جائے۔اب کی بار مملکت خداداد میں عدالتی بھونچال آیا کہ فولادی قوت رکھنے والے وزیر اعظم نوازکے انجر پنجر ڈھیلے پڑگئے ۔بے وفا کرسی نے ساتھ نہ دیا بلکہ ببانگ دہل نوازسے کہا: پانامہ بیگم سے چھپ چھپاکے پیار میں آپ کہاں کے شریف ، میں کہاں کی شریفن ؟ سنئے میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہوتی ہوں فرار صرف پنتالیس دن کے لئے ، دُکبھی نہ ہونا میرے سرتاج ، میں جانتی ہوں آپ میرا پیچھا نہیںچھوڑیں گے مگر میں ذرا ہوا بدلی کر کے آتی ہوں ۔ مستقبل کی بات اوپر والے جانے ، فی الحال دکھاوے کے لئے باہر کا راستہ ناپئے اور میرے فراق میں کیاکیا غزل گنگنانے چاہیے وہ فاروق اور عمر کی جوڑی سے سیکھئے مگر یاد رکھئے ؎
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
جالب ؔ
رابط[email protected]/9419009169