یواین آئی
غزہ// غزہ کے ناصر ہسپتال میں ایک میز پر ڈھائی سالہ بچی رؤی ماشی کی لاش پڑی تھی، اس کے بازو اور سینے کی ہڈیاں نمایاں تھیں اور آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ اسے پہلے کوئی بیماری نہیں تھی لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے اس کی صحت خراب ہو رہی تھی جب اس کا خاندان خوراک اور علاج کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ ناصر ہسپتال میں شعبہ اطفال کے سربراہ ڈاکٹر یاسر ابو غالی نے انکشاف کیا کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قلت نے ایسے معاملات میں تیزی سے خرابی پیدا کر دی ہے۔ناصر ہسپتال میں شعبہ اطفال کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر احمد الفرا نے بتایا کہ ہسپتال میں روزانہ 10 سے 20 بچے شدید غذائی قلت کے شکار ہو کر آتے ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ احمد الفرا نے بتایا کہ شام قدیح نامی ایک اور دو سالہ بچی شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ اس کے بازو اور ٹانگیں پتلی اور پیٹ پھولا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بچی نے اپنی تمام چربی اور پٹھوں کو کھو دیا تھا۔ اس کا وزن 4 کلوگرام تھا جو دو سالہ بچی کے عام وزن کا ایک تہائی ہے۔اگرچہ ڈاکٹروں کو شبہ ہے کہ بچی شام قدیح کو ایک نایاب جینیاتی بیماری ہے جسے گلائکوجن سٹوریج بیماری کہتے ہیں۔
جو جسم کے شکر کے استعمال اور ذخیرہ کرنے کے طریقے کو بدل دیتی ہے اور پٹھوں اور ہڈیوں کی نشوونما پر اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن ڈاکٹر احمد الفرا نے بتایا کہ وہ غزہ میں اس کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ٹفٹس یونیورسٹی میں ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر الیکس دیوال، جنہوں نے 40 سال سے زائد عرصے سے قحط اور انسانی مسائل پر کام کیا ہے، نے بتایا کہ خوراک تک رسائی بہتر ہونے سے غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کی مدد نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی شخص شدید غذائی قلت کا شکار ہوتا ہے تو جسم کے افعال بگڑ جاتے ہیں اور صرف اسے کھانا کھلانے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس حالت کو ری فیڈنگ سنڈروم کہا جاتا ہے جس سے دورے، کوما یا موت واقع ہو سکتی ہے۔اس کے بجائے دیوال نے نشاندہی کی کہ پہلے ہسپتال میں غذائی سپلیمنٹس اور علاج کے لیے استعمال ہونے والا دودھ دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہزاروں بچوں کی بات کر رہے ہیں جنہیں ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دو ماہ پہلے خوراک کی فراہمی بڑھانے کا طریقہ اپنایا جاتا تو شاید اتنے بچوں کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ غزہ کی وزارت صحت نے یکم جولائی سے غذائی قلت سے متعلق وجوہات کی بنا پر 42 بچوں اور 129 بالغوں کی موت کی اطلاع دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ کے دوران کل 106 بچے غذائی قلت کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں۔تاہم اسرائیلی فوج نے گزشتہ منگل کو دعویٰ کیا تھا کہ کچھ ہلاک ہونے والے بچوں کو پہلے سے بیماریاں تھیں اور ان کی موت کا ان کی غذائی حالت سے “کوئی تعلق نہیں” تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ماہرین کے جائزے سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔