حج کمیٹی آف انڈیا کی نئی حج پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی ملک گیر سطح پراسلامیانِ ہند کی جانب سے حکومتی اعلان پر غم وغصہ ،مذمت و مخالفت اور برہمی و ناراضگی کا سلسلہ شروع ہوگیاجو تاحال جاری ہے کیوں کہ کمیٹی کی تقریباََسفارشات اسلام کے صریح احکامات کے مغائرہیں، چاہے وہ ۵۴سال سے زائدعمروالی خواتین کا بغیر محرم کے سفرحج کامسئلہ ہو یا پھر تمام حجاج کے لئے قربانی کوپن کو لازمی قراردینے کی سفارش ہو۔بتلایا جارہاہے کہ یہ سفارشات نہ صرف حجاج کرام کی مشکلات میں اضافے کی باعث ہیں بلکہ شریعت میں راست مداخلت کی سوچی سمجھی سازش ہے ۔اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لابورڈ کے ترجمان حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے بورڈ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند نے نئی حج پالیسی میں کئی ایسے اہم اعلانات کئے ہیں جو مسلمانان ہند کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے اورحج کمیٹی کے خلاف ملک کے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے ۔نئی حج پالیسی میں کہا گیا ہے کہ 45 سال سے زائد عمر کی خواتین بغیر محرم کے سفر حج کرسکتی ہیں جب کہ بورڈ کو یہ نئی حج پالیسی منظوری نہیں ہے ۔ شرعی لحاظ سے یہ غلط ہے ، جسے بورڈ کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ نئی حج پالیسی سے مسلمانوں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے جو یقیناً قابل توجہ ہے ۔
آئینی اعتبار سے دیکھاجائے تو دستور کے مختلف دفعات میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب اور اس کے احکام پر آزادی کے ساتھ بغیرکسی رکاوٹ کے عمل کرسکتا ہے لیکن اس وضاحت کے باوجود باربار مذہبی آزادی سے چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے ۔اسلام کے قانون طلاق کو کالعدم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،آج ملک کی عدالتیں مسلم پرسنل لاء کے خلا ف فیصلے سنارہی ہیں اورحکومت کی طرف سے پر سنل لاء کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی باتیں ہورہی ہیں بلکہ اب تو نئی حج پالیسی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ 45سال سے زائد عمر کی چار یا چار سے زائد خواتین حج کے لئے جانا چاہیں تو ان پر محرم کی پابندی عائد نہیں ہوگی۔
حج پالیسی کایہ اعلان شریعت اور مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت اور یکسا ںسول کوڈ کے نفاذ کے نظریات کا آئینہ دار ہے۔یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے کیا گیا ہے جب کہ اس فیصلہ سے شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔ جس کمیٹی نے ۴۵سال سے زائد عمر کی خواتین کو 'محرم' کے بغیر حج کے لیے روانہ ہونے کی اجازت دی ہے ،وہ زرا یہ بتائے کہ آخر انہوں نے کس ضابطے کے تحت محرم کی لازمی شرائط کو منسوخ کیا؟حالاں کہ حج فرض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم رشتہ دار موجود ہو،اگر اس کے ساتھ کوئی محرم چلنے کو تیارنہ ہو ،یاتیار ہو لیکن عورت کے اندر اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ اپنے علاوہ اپنے کسی محرم رشتہ دار کے اخراجات ِ سفربھی برداشت کرسکے ،تو اس پر حج فرض نہیں۔
حج ایک مذہبی فریضہ ہے ، اسی لیے حج پالیسی کو شریعت کی روشنی میں مر تب کیا جا نا چاہئے ۔حج کے شرعی امور میں سیاست دانوں اور ریٹائرڈ افسروں سے رائے لینے کے بجائے ماہرین شریعت،علماء امت اور مفتیان کرام سے مشورہ لیناچاہیے ۔
عورت کا بغیر محرم حج کے لیے جانا گناہ ہے : کسی بھیعورت کا محرم کے بغیر سفرنہ کرنے کے بارے میں رسول اللہﷺکے متعددارشادات ہیں جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ، اس لئے خواتین کو محرم کے بغیر سفرحج سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرناہے اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہوتو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:
’’ عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے ،اور جب تک عورت کے ساتھ محرم نہ ہو، کوئی اجنبی شخص اس کے پاس نہ آئے ۔ایک صاحب نے عرض کیا :اے اللہ کے رسولؐ! میں فلاں اور فلاں جہاد میں جاناچاہتاہوں ،اور میری بیوی حج کا ارادہ رکھتی ہے ؟آپ نے فرمایا:تم اپنی بیوی کے ساتھ حج میں جاؤ‘‘(صحیح البخاری )
چوں کہ عورت کمزور بھی ہے اور فتنہ کا سبب بھی، اس لیے شریعت مطہرہ نے تاقیام قیامت یہ قانون رکھا ہے کہ سفر دینی ہو یا دنیاوی ، دور کے سفر پر عورت بغیر شوہر یا بغیر محرم کے نہ جائے ۔
محرم کسے کہتے ہیں؟:
محرم اسے کہتے ہیں جس سے عمر بھرکبھی بھی کسی حال میں نکاح درست نہ ہو۔ جیسے باپ، بھائی، بیٹا، چچا، ماموں وغیرہ اور جس سے کبھی بھی نکاح دُرست ہو، جیسے جیٹھ، دیور یا ماموں پھوپھی کا لڑکا یا خالہ کا بیٹا اور بہنوئی یہ لوگ محرم نہیں ہیں ۔ ان کے ساتھ سفر حج یا کوئی دوسرا سفر جائز نہیں ہے ۔
بہت سی عورتیں محض شوق اور ذوق کو دیکھتی ہیں، شریعت کے قانون کا پاس ولحاظ نہیں رکھتیں اور جھوٹ بول کر کسی غیر محرم کو محرم جتلاکراس کے ساتھ حج کے لیے چل دیتی ہیں ۔ یہ سراسر حرام ہے ۔ بھلا جس حج میں شروع سے آخر تک شریعت کی خلاف ورزی کی گئی ہو وہ کیسے مبرور اور مقبول ہوسکتا ہے ؟ بغیر محرم کے۴۸ ؍میل کا مطلق سفر عورتوں کے لیے جائز نہیں ، اگرچہ وہ ہوائی جہاز یا ریل سے ہوتو پھر حج کا مقدس سفر کیسے جائزہوسکتاہے؟
محرم کیوں ضروری ہے ؟:
حج عبادت ہے اور عبادت اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق ہوگی توہی قابل قبول ہوگی ،عورت کاتنہا سفراس کی منشا نہیں اس لیے اس کی تنہاحاضری بھی اسے قبول نہیں ۔
علاوہ ازیں زمانے کی برق رفتاری کی بناء پر مختلف سہولیات کے باوجودسفر کوئی آسان کام نہیں ۔سفر کے متعلق تو حدیث میں ہے کہ عذاب کاٹکڑا ہے تو پھر آسان کیسے ہوسکتا ہے ؟سہولیات کی فراہمی اور بہتر انتظامات سے آسانیاں ضرور پیدا ہوگئی ہیں مگر سفر بذات خودمشقت کا نام ہے اور جنہیں اس مقدس سفر کی سعادت حاصل ہوئی ہے ،ان کا بیان ہے کہ بہت مواقع پرانسان کا نہ بس چلتا ہے اور حاجی بالکل بے بس ہو کر رہ جاتا ہے ۔سہولیات اور آسانیاں اگر چہ پیداہوگئی ہیں مگریہ بھی تو حقیقت ہے کہ انسانی قوی کمزور اور صحت گر گئی ہے اوروہ باوجود بہترانتظامات اور سہولیات کے بہت جلدتھکن اورتھکاوٹ محسوس کرتا ہے ۔شاید اسی وجہ سے کہاجاتا ہے کہ حج جوانی کی عبادت ہے اور حج کا اصل لطف جوانی میں آتا ہے ۔
تجربے اورمشاہدے کے علاوہ سفرحج کے بارے میںا حادیث مبارکہ سے بھی ایسے اشارے ملتے ہیں کہ یہ سفر ذرا مشقت کا سفرہے ۔چنانچہ سفر حج کے آغاز میں جو دعا شریعت کی طرف سے حاجیوں کو تلقین کی گئی ہے ، اس کامطلب اس طرح ہے کہ اے اللہ! میرا حج کا ارادہ ہے تو اسے میرے لیے آسان فرما اور میری طرف سے قبول فرما۔اگر یہ سفر پراز مشقت نہ ہوتا تو اس موقع پر اس قسم کی دعا کی تلقین نہ کی جاتی ۔ دوسری طرف حدیث میں حج کو عورتوں او رکمزوروں کا جہاد کہا گیا ہے ،اب جہاد آسان ہوتا ہے یا اس میں کوئی مشقت بھی ہوتی ہے ،یہ فیصلہ بہ آسانی کیاجاسکتاہے ۔حاصل بحث یہ ہے کہ عورت کے ساتھ محرم یا شوہر کاہونا شریعت کا حکم ہے اورایک مسلمان کے لیے اتنا ہی کافی ہے ،تاہم اس حکم کے کچھ ظاہری حکم ومصالح بھی ہیں: مثلا سفر حج ایک طویل اوردشوارسفر ہے اور عورت کواپنے جسمانی ساخت اورنسوانی ضعف کی وجہ سے اس کے تحمل میں مشکل پیش آتی ہے ،اس لیے ایک بہت ہی قریبی رشتہ دار ( محرم )یا شوہر کا بطورمعاون ومددگار اس کے ساتھ ہونا ضروری ہے ، پردہ اورعصمت وغیرہ کے تحفظ کے نقطہ نظر سے بھی عورت کے ساتھ محرم مرد کا ہمہ وقت اس کے ساتھ مو جود ہونا ضروری ہے، ورنہ جوعورتیں بغیر محرم کے حرمین گئیں، ان کے ساتھ کچھ ناگفتہ بہ احوال بھی پیش آسکتے ہیں۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ایک کوتاہی بعض عورتوں کی یہ ہے کہ باوجود شوہر یامحرم کے ہمراہ نہ ہونے کے پھر حج کو جاتی ہیں،اور گو بعض کو ائمہ کے قول پر بعض خاص قیود و شروط کے ساتھ اس کی گنجایش ہے ، لیکن اوّل تو عوام کو ایسی بے قیدی کی اجازت نہیں کہ جس وقت جس کا قول دل چاہا لے لیا۔دوسرے جانے والیاں ان قیود و شرائط کو نہ جانتی ہیں، نہ ان کی پروا ہ کرتی ہیں،ہر حال میں چلی جاتی ہیں جوکہ ان ائمہ کے نزدیک بھی جائز نہیں۔تیسرے اس وقت اتنا فساد نہ تھا، ثقہ عورتوں کے ساتھ امن غالب تھا، اور اس زمانے میں فساد اس قدر غالب ہے کہ عورتوں کے ہوتے ہوئے بھی شریر طبیعتیں شرارت سے نہیں چوکتیں، پھر تعاون وہمدردی کم ہوتی جاتی ہے ، اگر بیماری وغیرہ پیش آگئی تو کم عورتوں سے اُمید ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر ان کی امداد کریں، اکثر لوگوں کو خصوصاً ضعفا ونسواں کو نفسی نفسی میں مشغول دیکھا ہے ، تو بہ وجہ مجبوری مرد ہی امداد کریں گے تو لا محالہ اُتار نے میں چڑھانے میں اجنبی مرد اس کا ہاتھ بھی پکڑیں گے ، کمر بھی تھامیں گے ، تو ایسے وقت فتن سے محفوظ رہنا جانبین کا یا ایک ہی جانب کا مشکل ہے خاص کر قلب اور عین کے فتنے سے ، تو ایسے حج کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جب شریعت اس کو حاضر ہونے کا حکم نہیں کرتی بلکہ روکتی ہے ، تو پھر یہ کیوں مصیبت میں پڑتی ہے ؟ اگر اس عورت کو مالی استطاعت ہو، اور محرم و شوہر موجود نہ ہو، یا جانے پر آمادہ نہ ہو،کیوں کہ اس کو شرعاً اس کا اختیار حاصل ہے ، تو اس میں فقہا مختلف الآراء ہیں کہ آیا استطاعت مالی سے نفس ِوجوب حج کا اس کے ذمہ ہوگیا ہے یا نفسِ وجوب بھی نہیں ہوا، پہلے قول پر اس عورت کے ذمہ حجِ بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگا، اور دوسرے قول پر نہیں، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ وصیت کی جائے ،اگر یہ وسوسہ ہو کہ اگر وصیت نافذ نہ کی گئی تو حج میرے ذمہ رہے گا، اس کا جواب یہ ہے کہ لیکن گناہ گار نہ ہوگی، کیوں کہ اس نے اپنے ذمے کے واجب کو یعنی وصیت کو ادا کردیا، اب نفاذ اس کا جب کہ مال چھوڑ جائے ورثاء کے ذمے واجب ہے ، اگر وہ کوتاہی کریں گے اس کا مواخذہ ان سے ہوگا۔‘‘( اصلاح انقلاب امت(
اس سلسلہ میں اتنی بات تو متفق علیہ ہے کہ جب تک محرم یا شوہر ساتھ جانے والا نہ ملے عورت پر حج کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی عورت بوڑھی ہو اور فتنہ کا بظاہر اندیشہ نہ ہو اور اس پر مالی اعتبار سے حج فرض ہوچکا ہو تو آیا وہ کسی نامحرم کے ساتھ سفر حج کو جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں فقہ کی عام کتابوں میں ممانعت ہی لکھی ہے ، اور صراحت کے ساتھ بوڑھی عورت کو بھی بلامحرم سفر حج کرنے سے منع لکھا گیا ہے ۔(مناسک ملا علی القاری (
تاہم بعض اکابر مفتیان کی عبارات اور فتاویٰ سے۶۰-۷۰سال کی بوڑھی عورت کو بلامحرم قابل اعتماد لوگوں کے قافلہ کے ساتھ سفر کی اجازت ثابت ہوتی ہے ، اس لئے فتنہ سے مکمل حفاظت کے وقت خاص حالات میں اس کی گنجائش ہوگی۔(کتاب النوازل(
مسلمانوں کی ذمہ داری:
ان حالات میں ہماری ذمہ داری ہم اپنے دین وشرع اور پرسنل لا کی حفاظت کے لئے آگے آئیں ،عملی اعتبار سے اپنی شریعت پر عمل پیرا ہوجائیں، اسلام کے جملہ احکام کو زندگیوں میں لانے کی کوشش کریں اور اسلام مخالف قوانین کی جانب ہرگز التفات نہ کریں، اسلام کا صحیح نظریہ، اس کے پاکیزہ اوامر اور بہترین طرز زندگی کو دنیا والو ں کے سامنے اجاگر کریں، اگر ہمارے دین واسلام کے خلاف ہزاروں سازشیں بھی کی جائیں مگر ہم پختگی کے ساتھ پابند شریعت رہیں گے تو ان شاء اللہ کسی حکومت کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔