سید مصطفیٰ احمد
وزیر اعظم نریندر مودی نے2020میں نئی تعلیمی پالیسی کا افتتاح کرتے ہوئے تعلیمی نظام کو موجودہ زمانے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک نئے باب کا افتتاح کیا۔ آج لگ بھگ ساڑھے تین سال بیت گئے ہیں، جب مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کو ہری جھنڈی دکھائی۔ اس پالیسی کے تحت نظام تعلیم کو نئی راہوں پر ڈالا گیا تاکہ تعلیم ترقی اور مصنوعی ذہانت کے دور میں پیچھے نہ رہ جائے۔ جب سے ترقی نے لمبی اڑان بھری ہے تب سے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ تعلیم کے پَروں کو بھی نئی اُڑان بھرنے کے قابل بنایا جائے۔ پرانے پَروں سے اب پرواز بھرنا موت کے مترادف ہے۔ پہلے زمانے میں نمبرات اور سرکاری نوکریاں تعلیم کے بنیادی مقاصد تھے لیکن اب کارپوریٹ سیکٹر کی دھوم ہے۔ اب کپٹل ازم یا مارکیٹ اکانومی کا دور ہے، جس میں پُھرتی، نوکریوں اور تعلیمی اداروں کا نجی ہاتھوں میں چلے جانا اور زمانے کی باریکیوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ وہ دیوانہ ہی ہوگا جو آج بھی تعلیم کو پتھر کے زمانے کی آنکھوں سے دیکھیں۔ وہ خواب اب جھوٹے لگتے ہیںجن خوابوں میں ایک انسان زمانے میں رائج عقل سے پَرے رسم و رواج کے خلاف بغاوت کرنے سے ڈرتا تھا۔ اب مثبت بغاوتیں ہر سو ہورہی ہیں۔ ہماری سابق ریاست جموں و کشمیر میں بھی نئی پالیسی کی دستک سنائی دے رہی ہے۔گیارہویں جماعت تک بورڈ کے امتحانات کا لگ بھگ ختم ہونا، جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے ساتھ منسلک تعلیمی اداروں میں یکساں کتابیں، یکساں تعلیمی کیلنڈر اور اس کے علاوہ کتابوں اور امتحانات کی جگہ اب طلباء کا لینا، کچھ مفید اقدامات ہیں۔ اب بچے کتابوں سے زیادہ اہم ہیں۔ اب سارا دھیان بچوں کی نشوونما پر ہی مرکوز کیا جارہا ہے۔ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ بچوں پر سارا دھیان مرکوز کرنے سے ہی آنے والے کل میں خوشی کی بہاریں آسکتی ہیں۔ اب اپنے مضمون پر آتے ہوئے اس بات کا پھر سے اعادہ کیا جارہا ہے کہ دسویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات کا منسوخ ہونا کیونکر ضروری ہے۔ آنے والی سطروں میں بورڈ کے امتحانات کے نقائص، خاص کر دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات کے نقائص کے بارے میں کچھ مختصر باتیں کی جارہی ہیں۔
پہلا نقص ہے ذہنی دباؤ۔ جنم کے پہلے دن سے ہی بچوں میں دوسروں سے آگے نکلنے کا جنون پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ جنون پہلے تو سولہ سال تک چین سے جینےنہیں دیتا ہے، پھر آگے چل کر یہ اور سنگین شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پہلے سولہ سال دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات کے ساتھ ہی مکمل ہوتے ہیں۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک بچہ نصف سے زیادہ مرگیا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی ایک مشین بن گئی ہوتی ہے۔ اس کا اُٹھنا بیٹھنا بس دسویں جماعت کے امتحان کو پاس کرنے کی نذر ہوجاتا ہے۔ بچہ جذبات سے عاری ہوجاتا ہے، اپنی بے بسی کا رونا خود ہی روتا ہے۔ چاہ کر بھی اپنی خواہشات اور وہ درد جو پہاڑ بھی اٹھانے کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، ایک ناتجربہ کار بچہ اٹھا لیتا اور اندر سے ہی سڑ جاتا ہے۔ ایک مکنیکی زندگی کی چکی میں یہ بچہ پستا رہتا ہے اور اس کے پھر بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ پھر چڑچڑا پن اور برداشت کی عدم موجودگی بچے کا مستقبل بن جاتا ہے۔ اس سنگین صورتحال میں دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات کو منسوخ کرنا صحیح فیصلہ مانا جاسکتا ہے۔
دوسرا ہے رٹا مارنا۔ علم کا مقصد ہے کہ ایک بچے میں تنقیدی سوچ کا مادہ پیدا ہوجائے۔ وہ چیزوں سے اوپر اٹھ کر دیکھیں۔ بورڈ امتحانات کی عمارت رٹا مارنے پر کھڑی ہے۔ ایک ناقابل بچہ پہلے تو یہ بات غلط ہے کہ کوئی بچہ ناقابل ہوتا ہے، کچھ مخصوص طریقوں اور جادو کی چھڑی ہوا میں پھیر کر اول پوزیشن حاصل کرتا ہے اور تعریفوں کے نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس طرح ایک طالب علم اصلی علم سے دور ہوجاتا ہے اور محدود علم کو ہی کل سمجھ کر تعلیم کے نور سے دور ہوجاتا ہے۔ اس طالب علم کی زندگی میں آگے چل کر صرف اندھیرا ہوتا ہے اور اس طرح سماج پڑھائی کے نام پر جہالت کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ بورڈ امتحانات کا دوسرا بڑا نقص ہے۔
تیسرا ہے قیمتی سرمایہ کا زیاں۔ دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات تک پہنچنے میں قیمتی سرمایہ کا زیاں ہوتا ہے۔ سکول کی فیس کے علاوہ کوچنگ اداروں میں جمع کیا ہوا محنت کا پیسہ ایک لاحاصل کام میں صرف ہوتا ہے۔ ماں باپ کی جمع پونجی بھی اس فضول کام میں صرف ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ امیدیں بھی کبھی کبھار راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتی ہے جب ایک بچہ ماں باپ اور سماج کی امیدوں پر کھرا اترنے سے قاصر ہوتا ہے۔اس طرح ہر سال ہزاروں میں طلباء اندھیروں میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔
اب جب کہ صرف بارہویں جماعت کا بورڈ امتحان لیا جائے گا، تو اس سے نظام تعلیم میں کسی حد تک سدھار آنے کی امیدیں ہیں اور طلباء بھی چین کی سانس لے سکیں گے۔ بارہویں جماعت کے بعد ہی مسابقتی امتحانات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس لئے بورڈ کے امتحانات کو صرف بارہویں جماعت کے لئے مخصوص کرنا ایک اچھے مستقبل کی نوید ہے۔ اس سے نظام تعلیم میں خوف اور گھٹن کا ماحول ختم ہوجائے گا۔
میں نے بھی جب نویں جماعت میں زیر تعلیم طلباء سے اس بابت پوچھا تو ان کے چہروں پر خوشی کے آثار دور سے دکھائی دے رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت نے یہ فیصلہ لیا کہ اب صرف بارہویں جماعت کے لئے بورڈ امتحانات ہوں گے تب سے ہم سکون کی سانسیں لے رہے ہیں۔ آزادی کی لہریں ہمارے ریگستانوں میں چلنے لگی ہیں۔ اب لگ رہا ہے کہ ہم پڑھ سکتے ہیں۔ نمبرات اور اول آنے کا جنون اب جیسے ختم ہوگیا ہے۔ ہاں! یہ ساری باتیں صحیح ہیں۔ ہم سب کو بھی چاہیے کہ تعلیم کو عام کریں۔ ایسا ماحول ترتیب دیا جائے جہاں پر علم کے چشمے پھوٹیں۔ ہر کسی میں علم حاصل کرنے کی پیاس ہو۔ زندگی کے دوسرے معاملات میں جیسی دلچسپی لی جاتی ہے وہی دلچسپی علم حاصل کرنے میں بھی ہونی چاہیے۔
اس ضمن میں بورڈ کے امتحانات کو صرف ایک جماعت تک محدود کرنا ایک اہم اور قابل تعریف قدم ہے۔ اس کی جتنی بھی سراہنا کی جائے کم ہے۔ میں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے ایک تنگ کنویں سے نکلنے والی کرنوں کو گلے لگا کر ان کو اپنا رہبر بنایا ہے۔ طلباء ہر قوم کی شان ہیں۔ جب شان ہی نور کے نام پر بے نوری کی طرف دوڑے تو تباہی اس قوم کا بےصبری سے انتظار کر تی ہے۔ طلباء کی زندگیوں میں اور بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کے مصداق ہمیں ایک لمبا سفر طے کرنا ہے تب جاکر ہم اپنی دنیا کو بھی اور اس کائنات سے باہر اور بھی قسم کی کائناتوں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں۔ ان نونہالوں کا ہاتھ تھامیں،جو سب نہ دِکھنے والی مصیبتوں سے اکیلے لڑ رہے ہیں۔ ان پر گدھ اپنی بری نظریں جمائیں ہوئے ہیں۔ وہ خونخوار گدھ اس موقع کے انتظار میں ہیں کہ کب ان طلباء کو وہ نوچ نوچ کر پھاڑ دیں۔ اپنے بچوں کو اپنا سمجھ کر ان سے پیار سے پیش آئیں اور ان کو علم کی منازل طے کرنے میں مدد کریں۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ تھی۔
رابطہ۔ 9103916455
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)