لال قلعے کی فصیل سے جس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کے یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ مسئلہ کشمیر کا حل گالی اور گولی نہیں کشمیر یوں کو گلے لگانے میں ہی پوشیدہ ہے ۔ عین اُسی وقت کشمیر میں پیلٹ بھی چل رہے تھے اور بلٹ بھی ۔جنوبی کشمیر میں آپریشن کلین اپ بھی جاری و ساری تھا ۔ این آئی اے کی مہم بھی وسعت اور شدت کے ساتھ تیز ہورہی تھی ۔ مزاحمتی قیادت کی نظر بندیاں بھی جاری تھیں اور سنگ بازوں کیخلاف آپریشن بھی جاری تھا۔دفعہ 35اے اور 370کیخلاف عدالت عظمیٰ میں دائر عرضیوں کا تناو بھی موجود تھا اور وزیر داخلہ و وزیر دفاع کے ان بیانات کی صدائے باز گشت بھی فضاوں میں موجود تھی جن میں بات چیت سے انکار اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے عزائم کا اظہار تھا ۔ایسے میںعام کشمیری کے ساتھ ساتھ کشمیر کا دانشور بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ جوسامنے ہے وہ سچ ہے یا وہ جو لال قلعے کی فصیل سے سوتی لہروں کے ذریعے سماعت سے ٹکرارہا ہے ۔وزیر اعظم کے خوبصورت الفاظ اور انداز دلربائی کے بعد بھی زمینی حقیقت میںکسی تبدیلی کا دور دور تک کوئیشائبہ نہیں ۔ دم گھٹا دینے والے اندیشے اور خدشات اپنی جگہ اور خواہشات ، احساسات اور امیدیں کچلنے کے جارحانہ اقدامات اپنی جگہ موجود ہیں ۔29تاریخ قریب آرہی ہے جس روز عدالت عظمیٰ میں دفعہ 35اے کی سماعت ہورہی ہے ۔اس دفعہ کی دستاویزات کی گمشدگی کا معمہ بھی حل نہیں ہوا ہے ۔ مرکز کی طرف سے کوئی حلف نامہ بھی دائر نہیں کیا گیا ہے ۔ عدلیہ میں ایک نہیں دو نہیں تین تین عرضیاں داخل ہوئی ہیں اور ریاستی حکومت کے پاس وزیر اعظم کی اس یقین دہانی کے سوا اور کچھ بھی نہیں جو وزیر اعظم نے بقول وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے انہیں نئی دہلی میں ملاقات کے دوران دی ہے حالانکہ اس کے بعد بی جے پی کے کیمپ سے ریاستی سطح پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی کئی ایسے بیانات سامنے آئے جو بی جے پی کے منصوبوں کی چغلی کھارہے ہیں تاہم وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی وزیر اعظم کی یقین دہانی اور ایجنڈا آف الائنس پراٹل اعتبار رکھتے ہوئے پر امید ہیں کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی لیکن عام لوگوںکے ذہنوں میں خدشات اور سوالات کا ایک طوفان ہے جو شدید ترین بے قراری اور بے چینی کا سبب بنا ہواہے۔وزیر اعلے ٰ کے برعکس یقین دہانیوں پر انہیں کوئی اعتبار نہیں کیونکہ پچھلے ستر سال کے تلخ ترین تجربات کے زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہونے دئیے گئے ۔ ایجنڈا آف الائنس کی اعتباریت پر بھی کوئی ایک رائے نہیں ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے اب بھی پوچھتے ہیں کہ اس سمجھوتے پر کس کس کے دستخط ہیں اور جن قوتوں کے درمیان یہ سمجھوتہ ہوا ہے وہ انہی مدعوں پر آج بھی الگ الگ رائے رکھتے ہیں جو اس سمجھوتے کی بنیاد یں ہیں ۔ ریاستی سرکار قانونی دفاع کیلئے اپنی طرف سے بھرپور کوششیں تو کررہی ہے لیکن کوششیں پُر اعتماد نہیں ہیں ۔ کشمیر کا سب سے بڑا قانونی ماہر مظفر حسین بیگ نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کوششوں کا سرگرم حصہ نہیں اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہی وہ وزیر اعظم کے عشق میں گھوڑے گھوڑے دھنس گیا ہے ۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے قومی دھارے کو اس معاملے پر متحد، متفق اور صف آراء کرنے کی پہل جو سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ ممبر پارلیمنٹ فاروق عبداللہ کے ساتھ ملاقات سے شروع ہوئی تھی بھی قومی دھارے کے تقریباً تمام لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے بعد تھم گئی ۔گو کہ اپوزیشن اس مسئلے پر ایک سخت موقف کے ساتھ میدان میں اترنے کے لئے پرعزم ہے کیونکہ یہ اس کے لئے غنیمت موقعہ ہے اپنی ساکھ بحال کرنے اور پی ڈی پی کو دباو میں لانے کا۔اپوزیشن کا ہر لیڈر جانتا ہے کہ کشمیر کے عوام کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن سٹیٹ سبجیکٹ کے ساتھ کسی طرح کی بھی چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کرسکتے ۔ان کا ردعمل ایک خوفناک طوفان ہوگا جوہر کس و ناکس کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا ۔چنانچہ جو تحریک پیدا ہوگی اپوزیشن اس کی قیادت کا دعویٰ کرے گی ۔ یہ دعوی صحیح ہوگا یا غلط لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ پہلی بار اپوزیشن کسی عوامی تحریک کا حصہ ہوگی ۔مزاحمتی قیادت کو بھی اس بات کا گہرائی کے ساتھ احساس ہے اس لئے اس نے حق خود ارادیت ، نظام مصطفیٰ ؐاور اقوام متحدو کی قرردادوں کے آسماں سے نیچے اتر کر آئین ہند کی ضمانتوں کے تحفظ کی لڑائی لڑنے کیلئے خود کو تیار کیا ہے ۔عدلیہ میں شنوائی شروع ہونے سے پہلے ہی مزاحمتی قیادت نے احتجاجی کلینڈر جاری کردیا ۔جس میں الگ الگ طبقوں کے الگ الگ مظاہرے ہیں اور29تاریخ کو جس روز کیس کی سماعت ہورہی ہے ہڑتال کی اپیل ہے ۔اس کلینڈر سے ایک بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مزاحمتی قیادت کے پاس روایتی طریقہ کار جو پچھلی کئی دہائیوں سے آزمایا جارہا ہے اور جس سے نمٹنے کا حکومت کو بھر پور تجربہ حاصل ہے کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر اس دفعہ پر کوئی آنچ آئی تو وہی چوہے بلی کا کھیل ہوگا جو ہوتا رہا ہے اس کے نتیجے میں جو بھرپور تحریک پیدا ہوگی وہ عوام کی ہوگی اور مزاحمتی قیادت بھی اس کی قیادت کا صرف دعویٰ کرے گی ۔عوام اپنے طریقے ڈھونڈ نکالیں گے جو تباہ کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی دفعہ35اے پر کوئی ضرب پڑے گی ۔فی الحال چیف جسٹس اس دن سے ایک دن پہلے یعنی 28اگست کو ریٹائر ہونے والے ہیں اس لئے ایسا نہیں لگتا کہ سماعت اپنے وقت پر ہوگی ۔تاریخ آگے بڑھے گی اوراس کے بعد بھی اسے آگے بڑھائے جانے کا پورا امکان ہے ۔اس طرح سے اس معاملے پر اشتعال اور جوش کو وقت کے ہاتھوں ٹھنڈا کرنے کا حربہ آزمایا جائے گا ۔مودی حکومت نے اب تک جوبھی کیا ہے پوری منصوبہ بندی اور کامیابی کے ساتھ کیا ہے اس لئے خدشات بہت زیادہ ہیں اورعوام پورے عزائم کے باوجود بھی خود کو بے دست و پا بھی محسوس کررہے ہیں ۔اس بے کسی ، بے بسی اور حرماں نصیبی کی حالت میں جب دہلی کے لال قلعے سے وزیر اعظم گالی اور گولی کو چھوڑ کر گلے لگانے کا پیغام دیتے ہیں تو حیرتوں کی ایک دنیا سامنے کھڑی ہوجاتی ہے ۔ ایک طرف گردن کاٹ دینے کے ساماں ہورہے ہیں اور دوسری طرف گلے لگانے کی بات ہورہی ہے ۔یہ سیاست کے فریب ہیں ، جھوٹی تسلی ہے یا کوئی مذاق ہے ۔آنے والا وقت یہ عقدہ کھول کے رکھ دے گا ۔وزیر اعظم آج جس کشمیری کو گلے لگانے کی بات کررہے ہیں اس نے ستر سال پہلے ہندوستان کو گلے لگایا تھا جس کے بدلے میں اسے دفعہ 370کا انعام ملا تھا لیکن صرف چند سال کے اندر اس آئینی گارنٹی کو کھوکھلا کرنے کا عمل شروع ہوا جواب آخری پڑاو پر ہے ۔لیکن یہ آخری پڑا و صرف کشمیر کے مسلمان پر ہی ضرب نہیں بلکہ جموں اور لداخ کیلئے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کشمیر اور ملک کے درمیان شگاف اب وقت کے ساتھ ساتھ پورے جموں و کشمیر اور ملک کے درمیان گہری کھائی میں تبدیل ہوگا ۔یہ معاملہ ایک دن مذہبوں، نسلوں اور گروہوںکی تفریق مٹا کر ریاست کے احساسات اور جذبات کو متحد کردے گا اور علیحدگی کے رحجان کو مزید وسعت اور گہرائی دیکر ایک نیا بحران پیدا کردے گا ۔تنگ نظری اور تنگ دلی کی سیاست کبھی کبھی ایسی ہی خطائیں سرزد کراتی ہیں جو صدیوں پر بھاری پڑجاتی ہیں ۔جموں اور لداخ کے لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خاتمے سے کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ کشمیر کے اصل باشندے کشمیری پنڈت بھی کشمیر سے فرار ہوکر حکومتوں کی بے پناہ کوششوں کے باوجود بھی وادی میں لوٹ کرنہیں آسکے ہیں تو دوسرے لوگ کیسے آسکتے ہیں یا کوئی حکومت انہیں کیسے وادی میں بسانے کے منصوبے پورے کرسکتی ہے ۔ہاں جموں میں سیلاب آئے گا اور لداخ بھی متاثر ہوگا ۔ اس لئے یہ کھیل کشمیر سے زیادہ خود بھارت کیلئے تباہیاں لاکر رہے گا اور جموں کا باشندہ اب اس بات کو محسوس کرنے لگا ہے ۔کشمیر کے باشندے اس بات کا ادراک رکھنے کے باوجود بھرپور مزاحمت کرنے پر آمادہ ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ دفعہ 370اب صرف ایک لاش ہے جس کی روح قبض کردی گئی ہے ۔ اب ہڈیوں کے اس ڈھانچے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی ایک رگ ہے جسے کاٹ ڈالنے کا بیڑا اٹھالیا گیا ہے ۔کشمیری اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ وہ نئی دہلی سے کشمیر تک کھیلے جانے والے کھیل کو نہ سمجھ سکے ۔ وہ ان کھلاڑیوں سے بھی واقف ہے جو اس کھیل میں شامل ہیں جس میں کچھ اپنے بھی ہیں اور کچھ پرائے بھی ۔وہ قومی دھارے کے کھیل کو بھی سمجھتا ہے اور مزاحمتی قیادت کے کھیل کو بھی ۔ اسے اس سارے منصوبے کا علم ہے جو این آئی اے کی مہم سے عدلیہ کی عرضیوں تک پھیلا ہوا ہے ۔وہ یہ بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ عالمی سطح پر کیا ہورہا ہے اور برصغیر میں کیا ہورہا ہے ۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کیلئے ہمدردیوں کے بول بولنے والے اس کے ساتھ کتنی ہمدردی رکھتے ہیں ۔پچھلی تین دہائیوں سے وہ اپنی بے عزتی اور بے آبروئی کا انتقام لے رہا ہے ۔دفعہ 370کی بیخ کنی کا بدلہ لینے کی چاہت میں اس نے کیسی کیسی انتہاوں کو چھوا اور جو بھی اس کی مدد کو آتا ہے وہ اس کا ہاتھ تھام کر چلتا ہے ۔اسے نتائج کا کوئی خوف نہیں کوئی ڈر نہیں اور اسی بات کو نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے سیاستکے پنڈت سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ کشمیری کو عزت عزیز ہے اس نے تنکا تنکا اپنی عزت کو سنبھال کر رکھا اور عزت پر ہاتھ ڈالنا اس کی برداشت سے باہر ہے دفعہ 370بھی اب صرف اس کی عزت کا سوال ہے وہ عزت کی اس دستار کوسرسے اترنے نہیں دیگا ۔چاہے اسے کوئی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔بے شک اسے اپنی بے سروسامانی کا بھی احساس ہے لیکن بے سروسامانی کبھی اس کے جذبے کی راہوں کا روڑا نہیں بنی ہے ۔وہ اپنی کمزوریوں کو بھی جانتا ہے اور اس طاقت سے بھی واقف ہے جو اسے کچل دینے کیلئے تیار ہے لیکن جس کے سر پر سودا سوار ہے اسے کون اور کیسے روکے ۔کشمیری کل بھی کہہ رہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہے ؎
میں صاحب عزت ہوں میری لاش نہ کھولو
دستارکے پرزوں سے کفن میں نے سیا ہے
نوٹ: مضمون نگار کی آراء سے ادارے کا کلی یا جزوی اتفاق ضروری نہیں