سرینگر// سدھو شوپیان میں منگل کی شام طویل مایوسی اور تاریک پردوں کو چاک کر کے خوشیوں اور مسرتوں نے دستک دی۔علاقے کا ایک گھر ان خوشیوں کا مرکز بنا ہوا تھا،تاہم خوشیاں صرف مخصوص گھر میں ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں یکساں طور پر منائی جا رہی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ علاقے کے ہر ایک گھر اور ہر ایک گلی میں کافی عرصہ بعد خوشیوں نے ڈھیرہ ڈال دیا ہے۔سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی جونہی ہر سو اندھیرا چھانے لگا،یکایک سدھو شوپیاں میں ہر ایک گھر روشن ہوا۔وقت دسویں جماعت کے نتائج کا تھا،اور علاقے کی ایک بیٹی نے ہر ایک مصیبت اورمصائب کو شکست دیکر اپنی قابلیت اور صلاحتوں کا لوہا منوایا۔2016 کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران اپنی دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ہونے والی انشاء مشتاق نے دسویں جماعت کے امتحانات میں کامیابی کے جھنڈے گھاڑ دئیے۔ خبر پھیلتے ہی ہرسو لوگوں نے انشاء مشتاق کے گھر آنا شروع کردیا،اور انشا اور اس کے والدین کو مبارکبادی کا سلسلہ چل پڑا۔ انشاء اور اس کے والدین میں آنسو تھے،تاہم اس بار یہ آنسو غم کے نہیں بلکہ خوشی کے تھے۔گھر میں رقوت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے،اور چیخوں و سسکیوں نے گھر میں آنے والے ہر ایک فرد و مہمان کی آنکھیں بھی تر کی۔ انشاء کے والدین کو اگر ایک طرف اپنی بیٹی کی کامیابی کی خوشی تھی،مگر دوسری اور انہیں ایک بار پھر اپنی بیٹی کی آنکھوں سے نور بصیرت جانے کا غم تھا۔ دختر کی کامیابی پر انشاء مشتاق کے والد مشتاق احمد گھر کے ایک حصے میں خوش و خرم نظر آرہے تھے۔مشتاق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’کافی عرصہ کے بعد خوشیوں نے انکے دروازے پر دستک دی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ انشاء کے نتائج ظاہر ہونے کی خبر سنتے ہی وہ کچھ پریشان سے ہوگئے تھے،تاہم انہیں اپنی قابل بیٹی کی محنت اور حوصلہ کن مشقت پر بھروسہ بھی تھا،اور آج انہیں اس بات پر فخر بھی ہے‘‘۔مشتاق احمد نے کہا کہ امتحانات کے نتائج ظاہر ہونے کے بعد انشاء کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں،جس کی وجہ سے انہیں آگے پڑھائی جاری رکھنے کی ترغیب ملے گی۔انہوں نے کہا کہ انشاء کی کامیابی پر پورا علاقہ خوش ہے۔انشاء نے امتحانات کے دوران ایک مددگار کی خدمت حاصل کی تھی،جو کہ انکی جماعت سے کم جماعت کا تھا۔انشاء نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انکے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ11ویں جماعت میں اب داخلہ لے گی،اور اس نے پڑھائی جاری رکھنے کا فیصلہ لیا ہے۔انشاء کا کہنا تھا’’ اگر میرے ساتھ حادثہ پیش نہیں آتا،تو میں اس سے کافی بہتر کرسکتی تھی،کیونکہ امتحانات کے دوران وہ کافی کچھ بھول بھی گئی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑ ھ برس سے وہ تاریکی اور مایوسی کے عالم میں تھی،اور اب نہ صرف اسکو زندگی جینے کا مقصد مل گیا ہے،بلکہ اس کی مایوسی میں بھی کمی ہو رہی ہے۔12جولائی 2016 کو انشاء اپنے گھر سدھو شوپیاں میں گھر کی کھڑکی سے احتجاجی مظاہرے دیکھ رہی تھی،جب فورسز کی طرف سے داغے گئے پیلٹ کی وجہ سے وہ دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئی۔فروری2017میں انشاء واپس گھر آگئی،جبکہ اس سے قبل انہوں نے دہلی کے آل انڈیا میڈیکل انسٹی چیوٹ،ادتیہ جیوت اسپتال ممبئی اور دیگر اسپتالوں میں علاج و معالجہ کیلئے کافی عرصہ گزارا۔