میانمار//میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال کے حوالے سے ایک بات جس پر شاید ہر کسی کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ اس سے ریاست کے خلاف عسکری مزاحمت میں اضافہ ہو گا۔25 اگست کو تقریباً 30 پولیس اور فوجی چوکیوں پر حملوں کے بعد جو شدید جوابی فوجی کارروائی شروع کی گئی اس کے نتیجے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد کو بنگلہ دیش میں پناہ لینی پڑی ہے۔اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں میں اب میانمار کی ریاست کے خلاف عسکری مزاحمت جڑ پکڑ رہی ہے اور اس کی قیادت اراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (آرسا) نامی ایک گروہ کر رہا ہے۔تاہم بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں اور عسکریت پسندوں سے باتیں کر کے معلوم ہوتا ہے اس گروہ کی منصوبہ بندی انتہائی کمزور ہے اور اسے تمام روہنگیا کی حمایت حاصل نہیں میانمار کی سکیورٹی فورسز کے بیانات کے مطابق 25 اگست کو ہونے والے حملوں میں بیشتر انتہائی سادہ تھے جن میں زیادہ تر حملہ آوروں کی نیت خودکش حملے کرنے کی تھی اور وہ چاقوؤں یا ڈنڈوں سے مسلح تھے۔ان میں سے مہلک ترین اور اولین حملوں میں سے ایک حملہ تھا ایلل تھان کوا نامی قصبے میں پولیس چوکی پر کیا گیا تھا۔پولیس لیفٹیننٹ آنگ کوا مو نے بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں اس حملے کی پیشگی خبر تھی اور انھوں نے ایک رات قبل ہی اپنے مقامی حکام کو بیرکوں میں بھیج دیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ تقریباً صبح چار بجے 500 کے قریب حملہ آور نے دھاوا بولا۔ انھوں نے ایک امیگریشن افسر کو ہلاک کیا مگر آسانی سے خودکار ہتھیاروں سے لیس پولیس نے انھیں بھگا دیا اور 17 لاشیں پیچھے رہ گئیں۔بنگلہ دیش میں ایک پناہ گزین نے جب مجھے اس حملے کی کہانی سنائی تو اس کی باتوں میں بھی مماثلت تھی۔رخائن ریاست سے نکالے جانے کے بارے میں جب میں نے اس سے سوال کیا تو اس نے شکایت کی کہ 25 اگست کے حملے کے چند ہی روز میں عسکریت پسندوں نے ان کے پورے گاؤں کو حملوں میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔25 اگست کے میں سے مہلک ترین اور اولین حملوں میں سے ایک حملہ تھا ایلل تھان کوا نامی قصبے میں پولیس چوکی پر کیا گیا جس کے بعد اس گاؤں کو تباہ کر دیا گیا۔پناہ گزین کے مطابق عسکریت پسندوں نے خود ہی بیل بکریوں پر قبضہ کیا اور لوگوں سے کہا کہ جو آزاد روہنگیا ریاست قائم ہو گی تو انھیں یہ واپس کر دیے جائیں گے۔اس کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے نوجوانوں کو بڑے چاقو دیے اور کہا کہ قریبی تھانوں پر حملہ کریں۔اس نے بتایا کہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ آرسا کے پاس بہت ہتھیار ہیں اور وہ ان نوجوانوں کی حمایت کے لیے واپس آئیں گے۔انھوں نے کہا کہ میری برادری کے 25 نوجوانوں نے ایسا ہی کیا مگر عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئی حمایت نہ آئی۔بنگلہ دیش میں میری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے بھی ہوئی جس نے چار سال قبل آرسا میں شمولیت اختیار کی تھی۔اس نے بتایا کہ 2013 میں آرسا کا رہنما عطا اللہ اس کے گاؤں میں آیا اور کہنے لگا کہ روہنگیا پر مظالم کے خلاف لڑنے کا وقت آ گیا ہے۔’اس نے ہر برادری سے 5 سے 10 نوجوان دینے کا مطالبہ کیا۔ وہ ایک گروہ لے کر قریبی جنگلوں میں گئے جہاں ان نوجوانوں کو پرانی گاڑیوں کے انجن کے حصے استعمال کرتے ہوئے دیسی ساختہ بم بنانے کی تربیت دی گئی۔‘’ہمارے دیہات کے لوگوں کو اس سے حوصلہ ملا اور وہ کھانا اور دیگر اشیا ان کے لیے لے جانے لگے۔ آخرکار میں بھی ان میں شامل ہو گیا۔‘انھوں نے دیہات کی نگرانی شروع کر دی، ان کے پاس صرف ڈنڈے تھے اور انھوں نے اس بات کو یقینی بنانا شروع کر دیا کہ ہر کوئی نماز پڑھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی کوئی بندوق نہیں دیکھی۔حملوں کے بعد جو انتہائی شدید جوابی فوجی کارروائی شروع کی گئی اس کے نتیجے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد کو بنگلہ دیش میں پناہ لینی پڑی ہے۔اس سابق جنگجو کا کہنا ہے کہ 25 اگست کو اسے ایک فاصلے پر فائرنگ سنائی دی اور آگ دکھائی دی۔ آرسا کا مقامی کمانڈر (جسے مقامت امیر کہا جاتا تھا) وہاں پہنچا اور کہنے لگا کہ فوج ان پر حملہ کرنے والی ہے۔ اس امیر نے کہا کہ ’آپ پہلے حملہ کر دیں کیونکہ آپ نے مرنا تو ہے ہی تو کیوں نہ اس مہم کے لیے شہید ہو جائیں۔ ‘اس سابق جنگجو نے بتایا کہ تمام عمر کے مردوں نے خود کو چھریوں اور ڈنڈوں سے لیس کیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے فوجی دستے کی جانب بڑھ گئے، اور اس طرح بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔اس کیبعد عسکریت پسند چاول کے کھیتوں میں بھاگ گئے اور بنگلہ دیش جانے کی کوشش کی۔ اس دوران رخائن کے بودھ مردوں نے ہی ہراساں کیا۔میں نے اس سے پوچھا کہ ایسے حملے کا مقصد کیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنا تھا۔ ’ہم پر اتنا ظلم ہو رہا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ہم جیتے یا مرتے۔‘اس سابق جنگجو نے کسی بھی بین الاقوامی دہشتگرد گروہ کے ساتھ تعلقات سے انکار کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کا ہدف میانمار کی فوج سے ہتھیار چھین لینا تھا۔