فہم و فراست
محمد عرفات وانی
دنیا کی تاریخ میں بارہا ایسے ادوار آئے ہیں جب معیشت کے بوجھ نے انسانیت کی سانسوں کو گھونٹ دیا۔ لیکن آج کا زمانہ اپنے اندر ایک انوکھا المیہ لیے ہوئے ہے، یہ دور صرف اشیائے ضرورت کی قیمتوں کے بڑھنے کا نہیں بلکہ انسان کی روح، غیرت اور ضمیر کے پست ہونے کا دور ہے۔ آج روٹی کا ایک نوالہ عزت و وقار کے سوال کے مترادف ہو چکا ہے۔ مہنگائی نے نہ صرف جیبیں خالی کی ہیں بلکہ خوابوں، امیدوں اور حوصلوں کو بھی نگل لیا ہے، ایک عام شہری جب صبح جاگتا ہے تو اس کے دل میں پہلا خیال یہ نہیں آتا کہ آج کون سا خواب پورا کرنا ہے بلکہ یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا گھر میں بچوں کے پیٹ بھرنے کے لیے کچھ میسر ہوگا یا نہیں۔ یہ منظر کسی ایک خطے یا ملک تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا بھر میں عوامی ضمیر مہنگائی کی زنجیروں میں کراہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بے رحم معیشت ہمیں کہاں لے جا رہی ہے، کیا ہم عزت و وقار کے ساتھ جینے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا ہمیں حالات کے آگے جھکنا پڑے گا؟
روٹی، کپڑا اور مکان کو ہمیشہ انسان کی بنیادی ضرورت کہا گیا ہے لیکن آج یہ سہولتیں خواب بن گئی ہیں، روٹی جو کبھی غریب کے لیے بھی آسانی سے دستیاب تھی ،اب سب سے بڑا سوال عزت اور وقار کا بن گئی ہے۔ مزدور جب دن بھر پسینہ بہا کر شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے تو اس کی آنکھوں میں بچوں کی بھوک کے سامنے باپ ہونے کا وقار دم توڑ دیتا ہے۔ ایک ماں جب خالی برتن دیکھتی ہے اور مسکراہٹ کے پردے میں بچوں کو بہلاتی ہے تو حقیقت میں مہنگائی کا زہر اس کے وقار کو کچل رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’فاقہ کش قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے اگر وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتی ہوں‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے عزت کا سودا کرنا پڑے تو وہ حوصلہ کہاں سے پیدا ہوگا، مہنگائی انسان کے اندر سے وہ حوصلہ نچوڑ لیتی ہے اور ضمیر کو ایسی بیڑیاں پہنا دیتی ہے کہ انسان زندہ رہنے کی فکر میں ہی قید ہو کر رہ جاتا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سلطنتیں صرف تلواروں سے نہیں گرتیں بلکہ غربت اور مہنگائی سے بھی قوموں کے ستون لرز جاتے ہیں، سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں اشیائے ضرورت کی قلت نے عوام کو مایوس کر دیا۔ برصغیر میں نوآبادیاتی دور میں کسان جب ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب گئے تو بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ایران، مصر اور لاطینی امریکہ کی تاریخ بھی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب معیشت عوام کا گلا گھونٹتی ہے تو انقلاب کے دروازے کھل جاتے ہیں۔آج بھی دنیا ترقی کے نعرے لگاتی ہے لیکن جب کسی عام آدمی کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہو تو یہ ترقی بے معنی ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق 2025میں دنیا بھر میں تقریباً 850ملین لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور عام آدمی کی خریداری کی طاقت روز بروز کم ہو رہی ہے۔
مہنگائی صرف قیمتوں کے بڑھنے کا نام نہیں بلکہ انسانی اخلاقیات کے زوال کا دوسرا نام ہے۔ بھوک انسان کو ایسے کام کرنے پر مجبور کرتی ہے جن کا وہ کبھی تصور بھی نہ کر سکتا تھا، چوری، رشوت اور بدعنوانی اسی بھوک کی پیداوار ہیں، جب پیٹ خالی ہوتا ہے تو ضمیر کی آواز دب جاتی ہے۔ روز یہ خبریں آتی ہیں کہ کوئی ماں غربت سے تنگ آ کر بچوں سمیت خودکشی کر بیٹھی، کوئی باپ حالات سے مایوس ہو کر اپنی زندگی ختم کر گیا، یہ واقعات محض خبریں نہیں بلکہ اس نظام معیشت کے منہ پر طمانچے ہیں جو انسانی عزت کو روند رہا ہے۔ سماجی نابرابری کا بڑھتا ہوا فرق معاشرتی انتشار کو جنم دیتا ہے، نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ ان کے خواب مہنگائی کے بوجھ تلے دم توڑ رہے ہیں جبکہ امراء کے بچے آسائشوں میں پل رہے ہیں تو ان کے دلوں میں بغاوت کی چنگاریاں سلگتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات بھی ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ بھوک ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ مجھے پورا معلوم نہیں مگر شاید نبی اکرمؐ نے دعا کی،’’ اے اللہ میں بھوک اور کفر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ بھوک کو کفر کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جب انسان بھوک کی شدت میں ڈوبتا ہے تو اس کے ایمان کے چراغ بجھنے لگتے ہیں، اسلام نے ہمیشہ معیشت کے توازن کو عدل و انصاف کے اصولوں کے ساتھ جوڑنے کی تلقین کی ،لیکن آج کا نظام سود اور استحصال پر کھڑا ہے جس میں غریب مزید غریب اور امیر مزید امیر ہو رہا ہے۔ قرآن میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دولت کو صرف چند ہاتھوں میں محدود نہ رہنے دیا جائے بلکہ اس کی گردش پورے معاشرے میں ہو، یہی اصول اگر اپنایا جائے تو معاشی ناہمواریوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر مہنگائی کے بڑھنے کے کئی عوامل ہیں۔ یوکرین جنگ اور گندم و تیل کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی قرضوں کا بوجھ، سرمایہ دارانہ نظام کی چمک دمک جس میں ترقی کے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن حقیقی خوشحالی محدود طبقات تک رہ جاتی ہے۔ معاشی غلامی اور عالمی منڈیوں میں عدم توازن کا اثر عام انسان کی زندگی پر براہِ راست پڑتا ہے، گلیوں میں بھوک و محرومی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں جبکہ محلات میں عیش و عشرت کی محفلیں جاری رہتی ہیں۔مہنگائی اور غربت کے انسانی اثرات تباہ کن ہیں، ذہنی دباؤ، اضطراب، خودکشی، بچوں کی تعلیم چھوڑنا، صحت کی خرابی اور خاندانوں کا بکھرنا روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔ نوجوان نسل اپنے خواب گنوا رہی ہے اور سماجی عدم مساوات بغاوت کی چنگاریاں جلا رہی ہے، یہ سب اثرات معاشرے کی بنیادیں کھوکھلا کر دیتے ہیں اور انسانیت کے ضمیر کو دبا دیتے ہیں۔اس بے رحم معیشت سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ معاشی انصاف قائم کرنا، تعلیم، صحت اور خوراک کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا، کفایت شعاری اور ہمدردی کو فروغ دینا، نوجوانوں میں خود اعتمادی اور اختراع کا جذبہ پیدا کرنا، میڈیا اور دانشور طبقہ عوام کے اصل مسائل اُجاگر کرے۔علماء اور مذہبی رہنما عوام کو صبر، ایثار اور امید کی تعلیمات دیں اور انفرادی سطح پر فضول خرچی سے پرہیز، مقامی پیداوار کو اپنانا اور زکوٰۃ و صدقات کے اصول پر عمل کرنا شامل ہیں۔
فیض احمد فیض کے الفاظ آج بھی صدقے کے قابل ہیں: ’’یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر‘‘ یہ داغ داغ اُجالا، یعنی مہنگائی اور غربت کے اندھیروں میں بھی امید کی کرنیں موجود ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں: ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ یہ اشعار یاد دلاتے ہیں کہ حالات جتنا بھی سخت ہوں، حوصلہ، غیرت اور ضمیر کی روشنی کبھی مر نہیں سکتی۔
مہنگائی کی یہ زنجیریں صرف جیبوں کو نہیں جکڑتیں بلکہ ضمیر اور وقار کو بھی غلام بنا دیتی ہیں، یہ ایک ایسا سفر ہے جو روٹی کے نوالے سے عزت کے سوال تک پہنچا ہے، قومیں بھوک سے نہیں مرتیں بلکہ اس وقت مرتی ہیں جب ان کا ضمیر مر جائے۔ اگر ہم نے اپنے ضمیر کو زندہ رکھا اور انصاف، ہمدردی اور ایثار کو اپنایا تو مہنگائی کے اندھیروں میں بھی امید کے چراغ جل سکتے ہیں، لیکن اگر ہم نے حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو یہ معیشت ہمیں ایسی کھائی میں لے جائے گی جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی۔مہنگائی کے خلاف جنگ صرف حکومتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فرد، ہر خاندان اور ہر دانشور کی ذمہ داری ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان کے ساتھ ساتھ عزت، وقار، حوصلہ اور غیرت بھی محفوظ رکھنا ہمارا مشترکہ فرض ہے اور یہی شعور عوامی ضمیر کو مہنگائی کی زنجیروں سے آزاد کر سکتا ہے۔
[email protected]