اس وقت دنیا میں جو ماحولیاتی تباہی ہو رہی ہے وہ ہر طرح کی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے ۔جنگوں سے تباہی تو ہوتی ہے لیکن ماحولیاتی اور پانی کی تباہی و بربادی کئی نسلوں کو متاثر کر کے انسانیت کا جینا مشکل بنانے کے لئے کافی ہے ۔اس ما حولیاتی تباہی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ عالمی سطح پر تبا ہی کا باعث بن رہا ہے۔اس پر قابو نہ پایا گیا تو اس سیارے پر رہنے والی مخلوق کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔پوری دنیا اس وقت بدترین گلوبل وارمنگ کا شکار ہے۔موسموں کی تبدیلی سے گلیشیر پگھلتے ہیں جو سیلابوں کا باعث بنتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند برسوں میں۲ ؍ارب سے زائد لوگ سیلابوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ کشمیر میں ۲۰۱۴ء کے ہیبت ناک سیلاب کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔گلوبل وارمنگ میں آکسیجن کی کمی ،کاربن ڈائی آکسایڈ گیس میں اضافہ، پانی میں تیزابیت ، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا،سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنا،قطبین پر برف پگھلنا قابل ذکر عوامل ہیں۔ اس کے اثرات خشکی پر زیادہ ہیں اس کے بعد فضائی آلودگی دوسرے نمبر پر ہے۔موسموں کی شدت قحط سالی ،بادسموم ،طوفانی بارشیں ،سیلاب انسانی زندگی کے لئے قدرتی آفات کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔قدرت نے ماحول اور آب و ہوا میں ایک توازن قائم کیا ہوا ہے جب یہ توازن بگڑتا ہے تو کرہ ارض پر تبا ہی آتی ہے ۔اس زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس توازن کو برقرار رکھنے میں معاونت کریں۔
جب ہم عصر حاضر پر اپنی نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں ماحولیات کی بہتری کے لئے کوئی قدم اُٹھتا نظر نہیں آتابلکہ اس کے بر عکس انسان نے دنیا میں قدرت کے کارخانے سے چھڑ کھانی کرنے کی جُراء ت کی ہے جس کی وجہ سے ہم آج بدترین گلوبل وارمنگ کا شکار ہو گئے ہیں۔ہم جس اور بھی اپنی نظریں دوڑاتے ہیں اس طرف سر سبز جنگلوں کو کٹا ہوا پاتے ہیں۔آکسیجن تمام جانداراں کے لئے ناگزیر ہے۔جنگلات کا صفایا اس کمی کا با عث بن رہا ہے۔دنیا کے مظلوم ترین ممالک پر طاقت ور قوتوں کے ذریعے سے بے تحاشا کیمائی ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا میں انسانیت کا جینا مشکل ہونے لگا ہے ۔دوسری عالمی جنگ ہیرو شیما ناگا ساکی تباہی پر ختم ہوی۔امریکہ نے نہ صرف عالمی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا بلکہ ایٹمی اسلحہ کے استعمال سے تابکاری سے آلودگی کو اس حد تک بڑھایا کہ برسوں بعد بھی ان شہروں میں اپاہچ بچے پیدا ہوتے ہیں ۔پوری دنیا میں ہتھیار لینے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میں ہتھیا ر لینے میں دوسرے سے آگے بڑھ جاوٗں ۔
اس وقت دنیا کی سب سے بڑی عالمی طاقتیں امریکہ ،روس فرانس اور ہندوستان دنیا میںاپنے ہتھیاروں کا ناجائز استعمال کر کے دنیا میں بدترین ماحولیاتی تباہی پھلانے کا مرتکب ہو رہیں ہیں دوسری اور ہندوستان دنیا کے مظلوم ترین خطہ ارضی جموں و کشمیر پر بھی مہربان رہا کہ آج بھی اس جنت کشمیر کی فضا کو ہر دن ہزاروں ٹیر گیس شلوں سے آلودہ کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے کشمیر کی بڑی آبادی چھاتی اور سانس کے درد میں مبتلا ہو گئی ہے۔اس پر بس نہیں کیا گیا وادی کشمیر کے سر سبز جنگلات کا بے دردی کے ساتھ صفایا کر کے جہازوں میں دنیا کے مختلف علاقوں میں اس سے حاصل شدہ لکڑی پہنچائی گئی۔ہمارے صاف و شفاف آبی ذخائر پر عمارتیں تعمیر کرا کے کارخانوں اور گھروں سے نکلی ہوی گندگی کو ان ہی آبی ذخائر میں ڈمپ کیا جاتا ہے۔الغرض ارض کشمیر بھی باقی دنیا کی طرح گلابل وارمنگ کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے۔جس کا اندازہ ہم پچھلے پانچ سالوں کے موسم کے بدلاو سے کر سکتے ہیں۔جیسے سردیوں کا کم برف پڑھنا یا نہ ہونے کے برابر گرمیوں میں مکمل بارشوں کا سلسلہ جس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو گئیں۔جنگلات کی کٹائی کے بعد انسانوں کی بستیا ں قائم ہونا ،آبی ذخایر کا آلودہ کرنا ۔الغرض ہر رنگ میں فساد بپا ہو گیا ہے۔
اسی ماحولیاتی تباہی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جموں و کشمیر کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے حال ہی میں ایک اہم قدم اُٹھایا جس کے لئے جمعیت کے مرکزی ذمہ داروں سے لے کر یونٹ سطح کے ذمہ دارمبارک باد کے مستحق ہیں ماہ مارج میں پوری ریاست میں اس تنظیم سے جُڑے ہزاروں نوجوان طلبہ نے عوامی مقامات ،اسکولوں ،کالجوں،ہسپتالوں ،آبی ذخائر کی صفائی اور شجر کا ری کی مہیم چلانے کے علاوہ عوامی جگہوں پر بینرس،پوسٹرس سے عوام الناس کو ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے جانکاری فراہم کی ۔اس کے ساتھ ساتھ لگ بھگ ۶۵۰ کے قریب ماحولیات کے تعلق سے ریاست کے تعلیمی اداروں میں لیکچرس کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں گورنمٹ ڈگری کالج بارہمولہ میں ایک ماحولیاتی بیداری کانفرنس کا بھی اہتمام کیا گیا۔اس میں دوسو سے زائد طلبہ نے ماحولیاتت کے تئیں اپنی بیدار ذہنی کا مظاہرہ کیا اور اس کانفرنس میں وادی کشمیر کے مختلف اداروں سے ماحولیات کے ماہرین نے طلبہ کو اپنے ذریں خیالات سے نوازا۔ آخر پر طلبہ نے موصوفین سے ماحولیات کے بارے میں اہم سوالات بھی پوچھے اور وضاحتیں طلب کیں ۔اسی طرح سے اسلامہ باد میں صفائی مہیم کے دوران ضلع کے دو بڑے اسپتالوں جن میں جنگلات منڈی اور میٹرنٹی اسپتال قابل ذکر ہیں،میں جمعیت کے جیالو ں نے بڑے ہی خوصورت انداز میں صفائی ابھیان چلایا جس میں CMO اورSUPERINTENDENTنے اس مہیم میں شرکت کر کے جمعیت کے کام کی سراہنا کی۔ آخر پر مذکورہ حضرات کو ناظم ضلع نے تفہیم القرآن کے نسخے تحفتاً عنایت فرمائے ۔اسی طرح سے ریاست میں ۴۰۰ کے قریب صفائی مہیمیں بھی چلائی گئیں جن میں ریاست کے تعلیمی اداردوں ،اسپتالوں ،کالجوں ،آبی ذخائر ،محلوں ،قصبوں اور گلی کوچوچے قابل ذکر ہیںاور ساتھ ساتھ میں ۶۰ کی تعداد میں طلبہ کے ذریعے سے ماحولیاتی بیداری ریلیوں کا بھی اہتمام کیا گیاتا کہ عام لوگوں تک ماحولیات کے حوالے سے جانکاری پہنچ سکے ۔علاوہ ازیں اس کے ساتھ ساتھ جو اہم کام ہوا وہ شجر کاری کی مہم تھی، جمعیت کے ذمہ داروں کی یہ کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ ریاست کے تعلیمی اداروں ،عوامی مقامات وغیرہ پر شجر کاری کی جائے جو اللہ کے فضل سے کامیاب رہی ۔شجرکاری مہم میں جمعیت کے ارکان رفقاء نے ہزراوں کی تعداد میں شجر کاری کر کے قوم و ملت کا غم خوار ہونے کا بین ثبوت دیا ۔الحمد اللہ
الغرض اس مشن کا مقصد یہی تھا کہ پوری دنیا میں اوروادی کشمیرمیں خصوصاً جو کہ اس وقت بدترین گلوبل وارمنگ کا شکار ہے کو اس عذاب سے نکالنے کی کوشش کی جائے اور خوشی اُس وقت ہوئی جب یہ طلبہ اپنی اسکولی وردی میں بھی گنداور غلاظت کے ڈھیر اپنے نرم ونازک ہاتھوں سے ٹھکانے لگاتے ہوے دیکھے گئے۔ان مناظر سے ایک اُمید سی جگ گئی کہ اس دور میں بھی انسانیت کے غم خوار سماج کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے نوجوان کچھ اچھا کر نے کے لئے تیا ر ہیں ۔طلبہ کے اس عظیم کام نے ہمیں جینے کی اُمید دلانے کے علاوہ ہمارے لئے ایک ایسا سبق چھوڑا۔ اگر ہم اسے اپنایں تو اُمید ہے ہم بھی ایک دن کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔واقعی ان کا کام قابل تحسین تھا ۔ اس میں ایک اور خاص بات یہ دیکھنے کو ملی اس مشن میں پرائیمری سطح سے لے کر یونیورسٹی سطح تک طلبہ نے ذوق وشوق سے شرکت کی۔ایک طرف پرائیمری کلاس کے طلبہ اور دوسری طرف ڈاکٹرس اور انجینیرس اس رفاہی کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اللہ تبارک تعالیٰ ان کو ہاتھوں ہاتھ اس نیکی کا بدلہ دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت کو شرف قبولیت سے نوازے۔آمین
چونکہ جوانی زندگی کا ایک اہم دور ہوتا ہے ،نوجوانی قوتوں ،صلاحیتوں ،حوصلوں ،اُمنگوں ، جذبوں،شاہینی پروازی اور آہنی عزایم کا دوسرا نام ہے اس لئے اگر یہ صلاحتیں سماج کی تعمیر میں لگ جائیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ معاشرے میں اس وقت پنپ رہی بُرایوں کا جنازہ نکل جائے گااور ہمارہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سماج سیوک طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ ہمارے معاشرے کے باقی طلبہ کے اندر بھی سماج کی تعمیر کا حسین جذبہ پیدا ہو جائے۔آخر پر عالم اسلام کے اس وقت کے محسن علامہ یوسف القر ضاوی کی نوجوانوں کے لئے ان کی نصیحت پیش خدمت ہے:نوجوانوں کے لئے میری پانچوی نصیحت یہ ہے کہ وہ مثالیت اور خوابوں کے آسمان سے اُتر کرحقیقت کی سرزمین پر آئیں،لوگوں کے ساتھ مل جل کررہیں ،کسان مزدور،کاریگر، محنت کش اور جدوجہد کرنے والے افراد سے ملیں ،شہر کی گنجان بستیوں ،محلوں گلیوں اور گاوٗں میں جائیں۔یہیں انہیں اچھی فطرت اور اچھے دل کے انسان ملے گے۔یہیں ان کی محنت سے نڈھال جسموں سے ملاقات ہوگی۔
رابطہ 9906664012