اظہار خیال
نریندر مودی
آج 11 ستمبر ہے۔یہ دن دو بالکل الگ الگ واقعات کی یاد تازہ کرتا ہے۔ پہلی یاد 1893 سے وابستہ ہے، جب سوامی ویویکانند کے شکاگو میں اپنا تاریخی خطاب کیا تھا۔ اس موقع پر ’امریکہ کی بہنو اور بھائیو‘ ان چند الفاظ نے حاضرین کے دل جیت لیے تھے۔ اس تقریر کے ذریعے انہوں نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی لازوال روحانی وراثت اور آفاقی اخوت کے پیغام کو پیش کیا۔ دوسری یاد 9/11 کے المناک حملوں کی ہے، جب اسی اصول کو دہشت گردی اور شدت پسندی کی صورت میں شدید چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
اس دن کی ایک اور اہم بات بھی قابل ذکر ہے۔ آج ایک ایسی شخصیت کی سالگرہ ہے جنہوں نے ’وسو دھیو کٹم بکم‘ کے اصول سے تحریک حاصل کرکے اپنی پوری زندگی سماجی تبدیلی، ہم آہنگی اور اخوت کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لیے وقف کر دی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سےوابستہ لاکھوں لوگوں کے لیے وہ ’پرم پوجیہ سرسنگھ چالک‘ کے طور پر نہایت احترام کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں۔ جی ہاں، میں جناب موہن بھاگوت جی کا ذکر کر رہا ہوں، جن کی 75ویں سالگرہ ایک ایسے موقع پر ہے جب آر ایس ایس اپنی صد سالہ تقریبات بھی منا رہا ہے۔ میں انہیں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور ان کی درازیٔ عمر اور اچھی صحت کے لیے دعا کرتا ہوں۔
میرا موہن جی کے کنبے سے رشتہ بہت گہرا رہا ہے۔ میری یہ خوش نصیبی رہی کہ میں نے موہن جی کے والد، آنجہانی مدھوکر راؤ بھاگوت جی کے ساتھ قریبی طور پر کام کیا۔ اپنی کتاب ’جوتی پُنج‘ میں، میں نے ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ قانون کے شعبے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کو ملک کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا تھا۔ گجرات میں آر ایس ایس کو مضبوط بنانے میں ان کا کردار نہایت اہم رہا۔ مدھوکر راؤ جی کا ملک کی تعمیر کے لیے ایسا جنون تھا جس نے ان کے فرزند موہن راؤ کو بھی ہندوستان کی نشاة ثانیہ کے لیے کام کرنے کے قابل بنایا۔ یوں سمجھ لیجیے جیسے پارس منی مدھوکر راؤ نے ایک اور پارس منی موہن راؤ کی صورت میں تیار کر دیا۔
موہن جی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں پرچارک کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ لفظ پرچارک سن کر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کا مطلب صرف پرچار یا کسی خیال کی تشہیر کرنے والے سے ہے، لیکن جو لوگ آر ایس ایس کے نظام کار سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پرچارک کی روایت تنظیم کے کام کا بنیادی حصہ ہے۔ گزشتہ سو برسوں میں ہزاروں نوجوان حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے گھر اور کنبوں کو چھوڑ کر اس مشن کے لیے وقف ہو گئے کہ بھارت مقدم کےنظریہ کو عملی شکل دی جا سکے۔
آر ایس ایس میں موہن جی کے ابتدائی سال وہ وقت تھا، جب ہندوستان کی تاریخ کا ایک نہایت تاریک دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کی کانگریس حکومت نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ جو بھی شخص جمہوری اصولوں کو عزیز رکھتا تھا اور ہندوستان کی ترقی چاہتا تھا، اس کے لیے فطری بات یہی تھی کہ ایمرجنسی کے خلاف تحریک کو مضبوط کرے۔ یہی کام موہن جی اور بے شمار آر ایس ایس سویم سیوکوں نے کیا۔ انہوں نے مہاراشٹر کے دیہی اور پسماندہ علاقوں، خاص طور پر ودربھ میں وسیع پیمانے پر کام کیا۔ اس تجربے نے انہیں غریب اور پسماندہ طبقات کے مسائل کو قریب سے سمجھنے کا موقع دیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ بھاگوت جی نے آر ایس ایس میں مختلف ذمہ داریاں نبھائیں اور ہر ایک فریضہ نہایت مہارت اور سلیقے کے ساتھ ادا کیا۔ 1990 کی دہائی میں موہن جی ’اکھل بھارتیہ شاریرک پرمکھ‘کے عہدے پر فائز تھے، اس دور کو آج بھی بے شمار سویم سیوک محبت سے یاد کرتے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے بہار کے دیہی علاقوں میں خاصا وقت گزارا۔ان تجربات نے انہیں زمینی مسائل کو قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ سنہ 2000 میں وہ ’سرکاریہ واہ‘کے منصب پر پہنچے اور وہاں بھی اپنے منفرد طرزعمل کے ذریعے پیچیدہ سے پیچیدہ صورتحال کو آسانی اور درستگی کے ساتھ سنبھالا۔ 2009 میں وہ ’سرسنگھ چالک‘ بنے اور بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ خدمات انجام دیتے رہے۔
’سرسنگھ چالک‘ ہونا محض ایک تنظیمی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ایک عظیم فریضہ ہے جسے غیر معمولی شخصیات نے اپنی قربانی، مقصد کی وضاحت اور ماں بھارتی کے تئیں پختہ عزم کے ذریعے نئی معنویت دی ہے۔ موہن جی نے نہ صرف اس بڑی ذمہ داری کو پوری ایمانداری کے ساتھ نبھایا ہے بلکہ اس میں اپنی ذاتی قوت، فکری گہرائی اور ہمدردانہ قیادت بھی شامل کی ہے۔ ان کی اِن تمام خصوصیات کو ملک مقدّم کے اصول سے ترغیب حاصل ہے۔
اگر میں موہن جی کی دو نمایاں خصوصیات کا ذکر کروں جو انہوں نے ہمیشہ اپنے دل کے قریب رکھی ہیں اور اپنے طرزِ عمل میں اپنائی ہیں، تو وہ ہیں تسلسل اورصورتحال کے حساب سے خود کو ڈھال لینا۔ انہوں نے ہمیشہ تنظیم کو نہایت پیچیدہ حالات میں رہنمائی فراہم کی ہے، کبھی بھی اس بنیادی نظریے پر سمجھوتہ نہیں کیا جس پر ہم سب کو فخر ہے اور ساتھ ہی سماج کی بدلتی ضروریات کو بھی پیشنظر رکھا ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ ان کا ایک فطری رشتہ ہے، اسی لیے انہوں نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو سنگھ پریوار سے جوڑنے پر زور دیا ہے۔ وہ اکثر عوامی مباحثوں میں شریک ہوتے ہیں اور لوگوں سے براہراست بات چیت کرتے ہیں، جو آج کی متحرک اور ڈیجیٹل دنیا میں بے حد سود مند ثابت ہوا ہے۔
وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو بھاگوت جی کا دور آر ایس ایس کے 100سالہ سفر میں سب سے زیادہ تبدیلی کا حامل سمجھا جائے گا۔ وردی میں تبدیلی سے لے کر ’ شکشا ورگھ‘(تربیتی کیمپس) میں اصلاحات تک، ان کی قیادت میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
مجھے خاص طور پر موہن جی کی وہ کاوشیں یاد ہیں جو انہوں نے کووڈ کے دور میں کیں، جب انسانیت ایک صدی میں آنے والی سب سے بڑی وبا سے دوچار تھی۔ اس وقت روایتی سنگھ سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ ایسے میں موہن جی نے ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال پر زور دیا۔ عالمی چیلنجز کے پس منظر میں انہوں نے ادارہ جاتی ڈھانچے تیار کرتے ہوئے دنیا کے بدلتے زاویوں کے ساتھ اپنا ربط قائم رکھا۔
اس وقت تمام سویم سیوکوں نے اپنی اور دوسروں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے ضرورت مندوں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کئی مقامات پر میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے۔ ہم نے اپنے بہت سے محنتی اور مخلص سویم سیوک بھی کھوئے، لیکن موہن جی کی ایسی رہنمائی اور تحریک تھی کہ ان کے حوصلے کبھی متزلزل نہ ہوئے۔
اس سال کے آغاز میں، ناگپور میں ’مادھونیتر چکِتسالیہ‘ کے افتتاح کے موقع پر میں نے کہا تھا کہ آر ایس ایس ایک ’اکشیہ وت‘کی مانند ہے، ایک دائمی برگد کا درخت جو ہماری قومی ثقافت اور اجتماعی شعور کو توانائی بخشتا ہے۔ اس اکشیہ وت کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں کیونکہ یہ اقدار میں پیوست ہیں۔ موہن بھاگوت جی نے جس جذبے اور لگن کے ساتھ ان اقدار کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے میں اپنی زندگی وقف کی ہے وہ واقعی قابل تحسین اور متاثر کن ہے۔
موہن جی کی شخصیت کی ایک اور قابل ستائش خوبی ان کی نرم و نازک گفتار ہے۔ انہیں لوگوں کی بات سننے کی غیر معمولی صلاحیت عطا ہوئی ہے۔ یہ خصوصیت نہ صرف ایک گہری بصیرت فراہم کرتی ہے بلکہ ان کی شخصیت اور قیادت میں حساسیت اور وقار کا بھی احساس پیدا کرتی ہے۔
میں یہاں یہ بھی لکھنا چاہوں گا کہ موہن جی نے ہمیشہ مختلف عوامی تحریکوں میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ’سوچھ بھارت مشن‘ سے لے کر ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘تک، وہ ہمیشہ پورے آر ایس ایس کنبے سے کہتے ہیں کہ ان تحریکوں کے ذریعے توانائی اور جوش پیدا کیا جائے۔ سماجی فلاح و بہبود کو مزید فروغ دینے کے لیے موہن جی نے پنچ پریورتن کا نظریہ پیش کیا، جس میں سماجی ہم آہنگی، خاندانی اقدار، ماحولیاتی آگاہی، قومی خودشناسی اور شہری فرائض شامل ہیں۔ یہ اصول ہندوستان کے ہر طبقے کے لوگوں کے لیے تحریک کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہر سویم سیوک کا خواب ایک مضبوط اور خوشحال ملک ہے۔ اس خواب کو حقیقت کی شکل دینے کے لیے واضح نظریہ اور فیصلہ کن اقدامات دونوں کی ضرورت ہے، موہن جی میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔
بھاگوت جی ہمیشہ سے ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کے نظریہ میں پختہ یقین رکھتے ہیں اور وہ اس بات میں بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کی کثیر تہذیبی تنوع اور وطن کی مختلف ثقافتوں اور روایات کی تقریبات ہمارے ملک کا حصہ ہیں۔
اپنی مصروفیات کے باوجود، موہن جی ہمیشہ موسیقی اور گلوکاری جیسے شوق کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مختلف ہندوستانی موسیقی کے سازوں میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا مطالعے کا شوق ان کی کئی تقاریر اور بات چیت میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
اس سال، چند دن بعد آر ایس ایس کے قیام کو 100 سال ہوجائیں گے۔ یہ بھی ایک خوشگوار اتفاق ہے کہ اس سال وجے دشمی، گاندھی جینتی، لال بہادر شاستری کی جینتی اور آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات ایک ہی دن ہیں۔ یہ ہندوستان اور دنیا بھر میں آر ایس ایس سے وابستہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک تاریخی سنگ میل ہوگا اور آج ہمارے پاس موہن جی جیسا ایک بصیرت افروز اور سخت محنت کرنے والا سرسنگھ چالک ہے، جو تنظیم کی قیادت کر رہے ہیں۔میں اختتام پر یہ کہنا چاہوں گا کہ موہن جی’ وسودھیو کٹمبکم‘ کی زندہ مثال ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم سرحدوں سے بالاتر ہو کر ہر فرد کو اپنا سمجھتے ہیں، تو یہ سماج میں اعتماد، بھائی چارہ اور مساوات کو مضبوط کرتا ہے۔ ایک بار پھر میں دل کی گہرائیوں سے موہن جی کے لیے ’ماں بھارتی‘ کی خدمت کے تئیں درازیٔ عمر اور صحت مند زندگی کی دعا کرتا ہوں۔
مضمون نگار ملک کے وزیر اعظم ہیں،بشکریہ پی آئی بی