خِر دکا نام جنون او رجنوں کا نام خِرد رکھ دیا
جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے
اقبال
نیشنل کانفرنس کے سر پرست اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے تضاد بیانیاں ، اپنے ہی بیانات کے تردید یں، جگہ بہ جگہ کے مطابق مختلف المعنی اظہارات، بھانت بھانت کی بولیاں ، اپنے موقف کو بار بار تبدیل کرنا، پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہونا، گرگٹ کی طرح سیاسی معاملات پررنگ بدلنا ہر کس وناکس پر واضح ہے اور اُن کی یہ اداکاریاں کسی کے لئے بھی حیران کن امر نہیںہے۔ اُنہوںنے اپنی زندگی کا آغاز تحریک محاذ رائے شماری کے دوران کیا اور رائے شماری کے موقف کے لئے جان تک قربان کردینے کا حلف بھی لیا۔ 1974میں پاکستانی کشمیر کے مشہور شہر میر پور میں اس خطہ میں محاذ شماری کے بانی صدر عبدالخالق انصاری کی صدارت میں اُن کا یہ اعلان کہ اگر میرے والد بھی رائے شماری کاموقف چھوڑدیں، تو بھی میں اس موقف پر اٹل اورقائم رہوںگا، بہت جلد ٹائیں ٹائیں فش ہوا جب کہ عبدالخالق انصاری اپنے اس موقف کی آبیاری کے لئے سترہ سال تک پاکستانی جیلوںمیں صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ اس کے اُلٹ میں ڈاکٹر فارو ق عبداللہ نے اقتدار حاصل کرکے نہ صرف یہ موقف ترک کردیا بلکہ جموںوکشمیر کو بلا کم وکاست ہندوستان کا اَٹوٹ انگ قراردینے میں اپنی قوت گویائی کا بھر پور استعمال کیا اور اسی تبدیلی ٔ موقف کے عوض میں ابھی تک داد ِعیش دے رہے ہیں۔ کبھی اندرا گاندھی اور کانگریس پارٹی کی تعریف وتوصیف میں ربط اللسان رہے لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے روح رواں بن کر سری نگر میں این ٹی راما راؤ سمیت اپوزیشن کے کنکلیو کرنے کی میز بانی میں لگے رہے لیکن پھر ہوس ِاقتدار کے لئے سیاسی قلابازی کر تے ہوئے راجیو گاندھی کے ساتھ یارانہ گانٹھ کر ان کے ساتھ گویا یک جان دوقالب ہوگئے۔ کشمیر میں ملی ٹینٹ تحریک شرو ع ہوئی تو بندوق کی گن گرج سے خائف ہوکر جموںوکشمیر سے بوریا بسترہ باندھ کر رفوچکر ہوئے اور لندن کی خنک فضاؤں میں محو ہوگئے۔ جب نرسمہا رائو نے اقتدار کی طشتری سامنے کی تو اٹانومی کی سیاسی راگ فوراً ترک کر کے ان کے مدح خوان اور قصیدہ گو بن گئے۔ نرسمہارائو نہ رہے تو دیوی گوڑا کے دربار میں چھلانگ ماری ، ان کا ستارۂ اقبال غروب ہو اتو یکایک بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ یارانہ گانٹھ لیا تو اپنے فرزند کو ان کی کابینہ میں ایڈجسٹ کروایااور اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ پوکھران دوم کی ایٹمی تقریب میںشر یک ہوکر پاکستان پر ایٹم بم کی بارشیں کرنے کا تقریری جلال دکھانے میں مصروف ہو گئے ، خود کو بادشاہ سے زیادہ وفادار جتلاتے ہوئے کشمیر میں مزاحمتی تحریک کے لیڈروں کو پاکستان بدر کرنے کی متواتر دھمکیاں دینے کے علاوہ محبوس عسکریت پسندوں کو جیل میں رکھنے کے بجائے گولی ماردینے کی علانیہ صلاح دینے لگے۔۔۔ لیکن جب اقتدار چھن گیا تو پھر سے اٹونومی کی ہدی خوانی میں لگ گئے۔ قبل ازیں اپنے سیاسی جانشین کے طور اپنے فرزند عمر عبداللہ کو وزیراعلیٰ بناکر پھر سے اقتدار حاصل کیا تو کشمیری عوام پر ظلم وستم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ ۲۰۱۰ء کی خون ریزی اس کی نمایاں ثبوت ہے۔ اس کے بعد گردش ِ زمانہ سے پی ڈی پی نے اقتدار سنبھالاتو ظاہر ہے ڈاکٹر فاروق کرسی سے محروم ہوئے ، یک بہ یک اُنہیں مزاحمتی تحریک عوامی تحریک معلوم ہونے لگی اور اپنے کارُکنوں کوا س تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے ہدایات جاری کردیں۔ آج کل ڈاکٹر صاحب پاکستان پر بم گرانے کے اپنے بیانات کی تکرار کے بجائے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کی لن ترانیوں میںلگے ہیں۔ بہرحال موصوف کو متضاد روشِ سیاست اپنانے اور اپنے سابقہ بیانات کو بار بارتبدیل کرنے کاایسا چسکہ لگا ہے کہ جن کی تفصیلات سے ا وراق نہیں بلکہ کتابیں بھی کم پڑسکتی ہیں۔ اس لئے ان کی کسی بھی بات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
سردست این سی کے روحِ رواں پر دو بار ہ موجودہ حاکمانِ ہندکو خوش کرنے کا جوش وجنون سوار ہوچکا ہے۔ جب وزیراعظم ہند نریندرمودی نے حال ہی میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ پنڈت نہرواور کانگریس تقسیم ہند کے ذمہ دار ہیں تو فاروق عبداللہ کو نریندرمودی تک پہنچنے اور رسائی حاصل کرنے کے لئے موقع ہاتھ آگیااور مودی کی تائید کی، البتہ درباری خوشامدی کا نام نہ پڑے،اس لئے بروزن ِ شعر انہوں نے نہروکے علاوہ پٹیل ،مولانا آزاد کانام بھی تقسیم ہند کے ذمہ داروں کی فہرست میں شامل کردیا اوریہ گل افشانی کہ تقسیم ہندکے لئے محمد علی جناح نہیں۔ بلکہ نہرو، پٹیل کے ساتھ مولاناآزاد ذمہ دار ہیں۔ دُنیا جانتی ہے کہ محمد علی جناح تقسیم ِہند کے زبردست حامی تھے اور نظریہ پاکستان اُن کی تخلیق ہے۔ اِسی لئے اُنہیں پاکستان میںبانی ٔپاکستان یا بابائے پاکستان کہا جاتاہے ۔ پاکستان کا قیام اُن کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردارپٹیل اپنے بیانات اور عمل سے بلواسطہ طور تقسیم ہند کی ذمہ داری سے تاریخ میںبچ نہیں سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ فاروق عبداللہ نے تواریخ کواُلٹا پلٹا کر کے مولانا آزاد، جوکہ تقسیم ہند کے اَزلی اور ابدی طورپر مخالف تھے، کا نام کیونکر تقسیم ہند کے ذمہ داروں میں شامل کیا؟ شاید ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے یہ جناب ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں نے تحریک آزادیٔ ہند میں کوئی حصہ نہیںلیاہے اور یہ سب تقسیم ہند کے حامی تھے۔ حالانکہ درحقیقت مسلمانان ِ ہند پہلے دن سے ہندؤوں کے شانہ بشانہ تحریک آزادی ٔ ہندمیں اپنی جان نثاریوں اور قربا نیوں کے حوالے سے مستانہ وار پیش پیش تھے بلکہ وہ اس راہ میں فوج درفوج شہید ہوئے اور مصائب برداشت کر گئے، آلام وآفات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ لہٰذا تاریخ مسلمانوں کا نام مجاہدین آزادی میں سنہری حروف میں لکھ چکی ہے۔ اس ضمن میں خصوصاً علمائے اسلام جن میں مولانا ابوالکلام آزاد سر فہرست ہیں، کے کارناموں اور قربانیوں کو نظراندازکیانہیں جاسکتا۔ محض وقت کے حکمرانوں کی خوشنودی میںا ور ان کی جی حضوری کے لئے مولانا آزاد کو تقسیم ہندکے لئے ذمہ دار قراردینا فاروق عبداللہ کا انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد خیال آرائی ہے جس پر انہیں تاریخ انگشت بدنداں ہے۔ فاروق عبداللہ کی یہ لن ترانی سراسر کذب بیانی ہے ،جھوٹا کاپلندہ ہے، اتہام تراشی ہے ، تاریخ سے عدم واقفیت کا ثبوت ہے، خاص کر یہ ٹامک ٹوئیاں اور شوشہ آرائیاں ہندوستان کی سیاسی تاریخ کو بوجوہ مسخ کرنے کامجرمانہ فعل ہے۔ تقسیم ہند تاریخ کا قدیم ترین واقعہ نہیں جس کے متعلق کذب بیانی سے ابہامات پیداکئے جائیں بلکہ یہ سات دہائی قبل کا اہم ترین واقعہ ہے جسے دیکھنے والے اور سننے والے ابھی لاکھوں کی تعداد میں زندہ ہیں اور بہ ہوش وگوش جانتے ہیں کہ اس کی سرگزشت کیا ہے۔
مولانا ابوالکلا م آزاد تمام عمر آزادی، متحدہ قومیت، متحدہ ہندوستان اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار رہے۔ اُنہوںنے کبھی فرقہ وارانہ تقسیم کی حمایت نہیںکی۔ بلکہ فرقہ پرستی کے خلاف وہ مردانہ وار لڑتے رہے۔ اُن کے سر فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہند کی حمایت تھوپنا، ایک گھٹیا الزام بلکہ سراسر بے ہودہ الزام ہے۔ 1938میں جب وہ رام گڑھ (بہار) کے کانگریس اجلاس کے صدر تھے تو اُنہوںنے اپنے صدارتی خطبہ میں ببانگ دہل کہاتھاکہ اگر فرشتہ بھی قطب مینار پر کھڑے ہوکر کہے کہ تم متحدہ قومیت اور ہندومسلم اتحاد سے دستبرار ہو جائوتو تمہیںآزادی دے دوںگا،تو میں آزادی سے دستبردار ہوجائوںگا لیکن متحدہ قومیت اور فرقہ وارانہ اتحاد سے دستبردار نہیںہوںگا۔ مولانا تمام عمر اس موقف پرقائم ودائم رہے۔ 1940میں جب کانگریس کی صوبائی وزارتوں کی کئی ایک کارروائیوں سے مسلم اقلیت میںکچھ بدگمانیاں پیدا ہوئیں جن سے مسلم لیگ کو تقویت حاصل ہوئی اور پاکستان کانعرہ بلند ہوا تو مولانا آزاد نے دل وجان سے تقسیم ہند کی مخالفت میں کمر کس لی اور عوام کو اس کے مضرات اور نقصانات برملا آگاہ کیا۔ جب مسلم عوام کی اکثریت میں محمد علی جناح کی طرف سے پیش کیاگیاتو نظریہ پاکستان مقبول ہوا، تب بھی اُنہوںنے مسلم عوام کو اس کی ممکنہ ضرر رسانیوں سے آگاہ کیا۔ چنانچہ آغا شورشؔ کاشمیری کوانٹرویو دیتے ہوئے مولانا نے بلا خوف و خطر کہا تھا کہ بے شک مسلم عوام کی اکثریت اس وقت میرے موقف سے بے اعتنائی برت رہی ہے اور وہ نظریہ پاکستان کو قبول کررہی ہے لیکن تاریخ خود وبخود اس کے نقصانات اُجاگر کردے گی۔ اُنہوںنے پیش گوئی کی تھی کہ اس سے ہندوستان میں مسلمان درجہ دوئم شہری بن جائیںگے اور پاکستان تقسیم ہوجائے گا۔ مولانا کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف دُرست ثابت ہوئی۔ پاکستان بھی دولخت ہوگیااور ہندوستان میںمسلمانوں کی حالت ِزار بھی کوئی سربستہ رازنہیں ہے۔
تقسیم ہند سے پیشتر برطانوی سرکارکے وفود سے ملاقاتوں میںکانگریس کے ترجمان مولانا آزاد تھے۔ اُنہوںنے پورے طورپر تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی۔ اس کی شہادت اُس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ دیول اور وفود کے اراکین سرسٹیفورڈ کرپس ، نتھک لارنس کی تحریرات سے مکمل طورپر عیاں ہوتی ہے ۔ مولانا آزاد کی خود نوشتہ India wins freedomسے یہ امر مکمل طورپر واضح ہوتاہے۔ معلوم نہیںفاروق عبداللہ نے کس ثبوت کی بنیاد پر مولانا پر تقسیم ہند کا بھونڈا الزام لگایاہے۔ اس کے پس پردہ ماسوائے موجودہ حاکمان ِہند کی خوشنودی کے علاوہ اور کوتی تُک نظر آتا۔
مولانا امام الہند تھے، جیدعالم اسلام تھے، قوی الفکرمفسر قرآن تھے، قرآن کی تفسیر’’ ترجمان اُلقرآن ‘‘مولانا آزاد کی شہکار تصنیف ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بعض اور لاثانی کتابیں ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی ایک کھلی کتاب رہی ہے، مسلمانوں میں ان کے حریفوں نے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف اُن کے نظریہ سے خار کھاکر اُن پر طرح طرح کی ایسی بہتان تراشیاں کیں جو ناقابل بیان ہیں۔ اُن پر اتہامات کی بارشیں کی گئیں، ناقدین نے اُن کوکانگریس کا شوبوائے کہا، علی گڑھ جیسی شہرہ ٔآفاق جامعہ میںطلباء نے برہنہ ہوکر اُن کے خلاف مظاہرے کئے لیکن مولانا نے سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود کوئی جوابی کارروائی نہیں کی اور متحدہ ہندوستان کے اپنے جچے تُلے موقف پر سختی سے قائم رہے۔ اس قسم کے بااصول، پختہ عزم اور مستحکم ارادے کے مالک، تعریف اور توصیف سے بے نیاز شخص، حقیقت شناس عالم ، معاملہ فہم مدبر، قابل اعتماد سیاستدان ، دوربین ونباض انسان جو ساری عمر متحدہ ہندوستان کے تصور کی خاطر جدوجہد کرتا رہا ،کو آج فاروق عبداللہ جیسے ہوس اقتدار پر اپنے اصولی موقف تک کو تیاگ دینے والے شخص کی طرف سے تقسیم ہندکا الزام لگانا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ راقم السطورکی فاروق عبداللہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لئے تاریخ کو مسخ نہ کریں اور نہ ہی مولانا ابوالکلام آزاد جیسی بزر گزیدہ ہستی کے خلاف بہتان تراشی کا گناہ اپنے سرلیں۔
فاروق عبداللہ نے محمد علی جناح کو تقسیم ہند سے مبرا کرکے اور ان پر قیام پاکستان کی حصول یابی سے انکار کرکے جناح صاحب کی بھی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔ محمد علی جناح کا اپنے پیروکاروں میںعزت و احترام اسی وجہ سے ہے کہ اُنہوںنے اپنی جدوجہد کے ذریعہ پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میںاُنہیں بابا ئے قوم اور قائداعظم کا رُتبہ ودرجہ حاصل ہے اور پاکستان کے نام کو محمد علی جناح کے نام سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فاروق عبداللہ نے جہاں مولانا آزاد کو تقسیم ِ ہندکا ذمہ دار قراردے کر اُن کی عزت ریزی کی ہے، وہاں محمد علی جناح سے تقسیم ہنداور قیام پاکستان کاعلمبردار ہونے کا رُتبہ چھین کر تاریخ کی مٹی پلید کی ہے۔ مولانا آزاد کا اپنا اور محمد علی جناح کا اپنا اپنے پیروکاروں میں اپنا ایک اعلیٰ مقام ہے۔ فاروق عبداللہ کی لن ترانیوں اور بے سر وپا بیانیے سے ان اوپنے قد والے لیڈروں کا مقام ومرتبہ گر نہیں سکتا۔ اور نہ سیاسی طور فاروق عبداللہ کا قدبلند ہوسکتاہے۔ فاروق عبداللہ کو یہ امر ذہن نشین کر ناچاہیے کہ مولاناآزاد اس قدر عظم المرتبت ہستی تھے کہ اپنے حریفوں اور محالفوں سے بھی عناد اور کینہ نہیں رکھتے تھے۔ دُنیا جانتی ہے کہ مسلم لیگ نے مولانا کے خلاف کس قدر دُشنام طرازی اور اتہام بازی کی لیکن کیا مجال مولانا کی زبان سے کسی ایک بھی مسلم لیگی لیڈر کے خلاف کوئی نازیبا کلمہ نکلا ہو۔ حتیٰ کہ مولانا آزاد پاکستان کسی میٹنگ کے سلسلے میں گئے تو کراچی پہنچ کر انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ محمد علی جناح کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ مولانا آزاد تقسیم ہندکے کٹر مخالف تھے لیکن جب تقسیم کے بعد پاکستان کا قیام عمل میںآگیا تو اُس کے استحکام و سلامتی اورہندوستان و پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ ا س سلسلہ میں آغا شورشؔ کاشمیری کی طرف سے مولانا آزاد پر لکھی گئی کتاب ’’ابو الکلام آزاد‘‘ کے صفحہ 230-231 پر شورش ؔنے لکھاہے: ’’ 1956میںمولانا نے یادکیا۔ راقم دہلی پہنچا۔ مولانا پاکستان کے سیاسی انتشار سے بھی ناخوش تھے ا ور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمکش سے بھی پریشان تھے‘‘۔ اُنہوںنے فرمایا: ’’پاکستان کو محسوس کرناچاہیے کہ ہندوستان کی ایک سیاسی کھیپ کو اس کے وجود میںآنے پر قلق ہے۔ اگر مسلم لیگ لیڈر شپ نہرو اور گاندھی کی جماعت سے مفاہمت کرلیتی تو پاکستان خطروں سے محفوظ ہوجاتا۔ پنڈت جواہر لال نہر و جذباتی انسان ضرور ہیں۔ وہ بسااوقات ایک مسئلے پر ضدی ہوجاتے ہیں لیکن اُنہیں استدلال کی طاقت سے منا لینامشکل نہیں۔ سردار پٹیل کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی تائید کرتے تھے کہ پاکستان پر اس کاحق ہے اور وہ پاکستان کو ملنا چاہیے۔ جواہر لال نہرو کوراضی کرلینا مشکل نہ تھا۔ وہ لازماً کشمیر پر ہندوستان کے قبضے سے دستبردار ہوجاتے لیکن قائد اعظم کی ر حلت کے بعد لیاقت علی بھی کسی نیشنلسٹ مسلمان سے گفتگو کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ مجھ سے سردار پٹیل نے بیان کیا کہ اُنہوںنے گورنر ہائوس لاہورمیں لیاقت علی کے اصرار اور استفسار پر اُن سے کہاتھا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور پنڈت جواہر لا ل نہرو ہندوستان کے وزیراعظم ہیں۔ دونوں ہی مجاز اور مختار ہیں، کسی مسئلے کاحل مشکل نہیں۔ میں استدلا ل کے طویل چکرمیں پڑے بغیر ذمہ داری لیتاہوں اور معاہدہ ابھی ہوسکتاہے کہ پاکستان منادر ، جونا گڑھ اور حیدرآباد سے دستبردار ہوجائے ،ہم کشمیر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ ریاستیں ہندوستان کی حدود میں ہیں اور کشمیر پاکستان کی حدو د میں لیکن لیاقت علی نے منادر ، جوناگڑھ اور حیدرآباد کے سلسلہ میں پس پیش کیا، نتیجتاً دونوںمملکتوں کے وزرائے اعظم کی پہلی کانفرنس ناکام ہوگئی‘‘۔اس اقتباس سے ظاہر ہوتاہے کہ مولانا آزاد کتنی عظیم المرتبت شخصیت تھے۔ آج اگر اُن پر فاروق عبداللہ یا کسی بھی طرف سے کذب و افتراء کا افسانہ گھڑلے تو تاریخ کے ساتھ ہی ناانصافی نہیں بلکہ حال اور مستقبل سے بھی ایک بھونڈا مذاق جو کسی سیاسی لیڈر کے لئے ایک انتہائی معیوب فعل قرار پاتا ہے۔