راقم السطور ایک مایہ ناز علمی وادبی شخصیت اور کمپیوٹر کو اردو جیسی بے مثال و شیریں زبان سے نوازنے والی عظیم ہستی ڈاکٹر عطش دُرانی صاحب مرحوم کی وفات پر اپنے رنج و غم کو لفظوں کا جامہ پہنانے سے فارغ ہی ہواتھا کہ ایک اور ملی قومی اورسیاسی رہنما،رُکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند، ممبر پارلیمنٹ ، فروغِ تعلیم کے لئے سرگرم عالمِ دین، مشہور اہل قلم اور صاحب طرز ادیب ومصنف مولانا اسرار الحق قاسمی علیہ الرحمہ کا حادثہ وفات کی خبر سنی۔ انااللہ وانا الیہ راجعون ۔ناچیز کو اس خبر سے کافی صدمہ ہوا،اور علمی حلقوں کے لیے یہ کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں۔ مرحوم اپنی ذہانت، بذلہ سنجی، خوش مزاجی اور خوش مذاقی کے لیے ہی نہیں بلکہ شگفتہ زبان وقلم کے لئے بھی معروف ومشہور تھے۔ آپ کے قلم سے کثیر تعداد میں ادبی، علمی اور فکری مقالات نکل کر علمی حلقوں میں مقبول ہوئے۔
مولانا مرحوم نے ساٹھ کی دہائی میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت حاصل کی تھی۔ آپ زمانہ طالب علمی سے ہی نمایاں رہے اور بعد از فراغت جمعیۃ علماء ہند کے جھنڈے تلے اپنی عملی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ایک طویل مدت تک جمعیتہ کے سکریٹری اور پھرجنرل سکریٹری رہے ،’’ الجمعیۃ‘‘ اخبار کے ایڈیٹر رہے۔ مولانائے مرحوم آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدر، ملی کونسل کے تاسیسی ممبر اور نائب صدر اوردیگر دسیوں تعلیمی ورفاہی میدانوں میں اعلیٰ خدمات انجام دینے والے اداروں کے تاسیسی رُکن اور سینکڑوں مدارس کے سرپرست ہونے کے علاوہ ممبر پارلیمنٹ اور بھارت کی اعلیٰ ترین دواہم دانش گاہوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کورٹ کے بھی ممبر رہے۔ مولانا اسرار الحق قاسمی کا شمار ملک کے چنیدہ علماء کرام میں ہوتا تھا اور اُن کی تعلیمی رفاہی اور سماجی خدمات کا دائرہ کار ملکی پیمانے پر محیط تھا۔ آپ کی سرپرستی میں ملک بھر کے مختلف علاقوں میں سوسے زائد مکاتب اور تین اقامتی مدرسے اور بنات کے لیے کشن گنج بہار میں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کا منظم اقامتی ادارہ’’ ملی گرلز اسکول‘‘ قائم کیا۔ علاوہ ازیں کشن گنج کے ۱۴۹ ؍اور پورنیہ کے ۷۲؍ ایسے ملحقہ مدارس جو خستہ حالی کا شکار تھے ،جس وجہ سے طلبہ وطالبات کو دشواریوں کا سامنا تھا ،ان مدارس میں دارالاقامہ درسگاہوں اور غسل خانوں کی تعمیر وغیرہ میں آپ نے بھر پور تعاون فرمایا۔ مولانا اسرار الحق قاسمی مرحوم اپنے عہد کے بلند پایہ قلم کا ر بھی تھے، ملک بھر کے اردواخبارات رسائل وجرائد میں حضرت والا کے مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہے ہیں ۔آپ کی قلمی کاوشیں مسلمانوں کی تعلیم وتدریس ،اتحاد واجتماعیت کے فروغ اور فلاح وبہبود کے موضوعات پر مرکوز رہیں۔مولانا اسرار الحق قاسمی مرحوم ایک پرجوش داعی ومبلغ اور تحریکی ذہن وفکر کے حامل شخصیت ہی نہ تھے بلکہ میدان سیاست کے ایک منفرد شہسوار تھے۔ بھارتی مسلمانوں کی بقاء اورتحفظ کے سلسلہ میں آپ کی بصیرت مسلم الثبوت تھی۔ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ انتخابات میں فرقہ پرست طاقتوں کو ناکام بنانے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ فرقہ پرست جماعتوں کے خلاف کھلے عام بولنے یا نعرے بازی کرنے یا کسی کے مذہبی معاملات پر بات کرنے کے بجائے منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے حلقوں میں کام کیا جائے اور لوگوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیا جائے۔ اسی طرح اگر میڈیا کی طرف سے یاشدت پسند جماعتوں کی جانب سے جب بھی مسلمانوں کو بھڑکانے کے لئے کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے تو اس پر فوری رد عمل ظاہر کرنے کے بجائے صورت حال کا حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور جمہوری انداز میں قانون کا سہارا لے کر ایسے عناصر کے خلاف عدالتی کاروائی کاراستہ تلاش کیاجائے ۔اسی طرح انتخابات کے موقع پر کسی فرقہ پرست جماعت کے مخالف امیدواروں کی کھلے عام حمایت کرنے یا ان کے حق میں جذباتی نعرے لگانے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جائے اور جو اُمیدوار ملک وقوم کے حق میں بہتر ہواسے منتخب کرنے کی کوشش کی جائے۔
مولانا اسرار الحق قاسمی بھارت کے مسلمانوں کو عمومایہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ مسلمانان ِ ہند دوسری مصرفیات سے قطع نظر تعلیم کے شعبے پرسب سے زیادہ توجہ دیں۔ بلاشبہ بھارتی مسلمانوں کی بہت سی پریشانیوں اور مشکلات کاخاتمہ تعلیم کے فروغ کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے، مسلمانوں میں جو معاشی بدحالی اور سیاسی وفکری شعور کی کم یابی ہے یا مسلمان زندگی کی دوڑ میں برادرانِ وطن سے پیچھے ہیں، اس کی ایک اہم وجہ ہے کہ مسلمانوں میںتعلیم کی شرح افسوس ناک حدتک کمی ہے ۔آپ نئی نسل کے تعلق سے بہت فکر مندرہتے تھے ۔اسی حوالے سے ایک جگہ رقمطراز ہیں : نئی نسل کا تعلیم کے ساتھ معقول طرز فکر کا حامل ہونا ضروری ہے ،علم معاشرے میں انسان کی شناخت اور تشخص کی بہتری کا ہی سبب ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر علم کے ذریعے انسان کی فکری تربیت اور ذہنی پرورش ہوتی ہے ،جس کے نتائج وہ اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں بھی دیکھتا ہے اور اپنے شب وروز کے اعمال وافعال میں بھی۔ عام طور پر علم چاہے وہ دینی ہو یا آج کل کی اصطلاح میں عصری اور دنیوی اس کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ انسان چند نصابی کتابوں کو پڑھ لے اور پھر عملی دنیا میں مصروف ہو جائے ،حالانکہ حقیقی تعلیم محض چند مضامین کی تدریس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تربیت اس کا ناگزیر حصہ ہے ۔ایسی تعلیم جو بہترین تربیت کے ساتھ حاصل کیا جائے ،نہ صرف انسان کے دل کی آنکھیں کھول دیتی ہے بلکہ انسانی شخصیت میں حقیقی نکھار بھی پیداکرتی ہے۔ فردخاندان قوم اور ملک کی کامیابی کے لیے یہی تعلیم حقیقت میں نفع بخش ہے۔ یہ انسان کے خیالات اور طبیعت کے سلجھاؤ اس کے ارادوں اس کے اندر مدلل اور مؤثر انداز گفتگو اور اس کے طرز فکر میں وسعت وگہرائی اور مثبت تبدیلی پیدا کرتی ہے تعلیم کے ذریعہ انسانی شخصیت کی ہمہ جہتی نشوونماہوتی ہے او راس نشوونما کا اہم پہلو ہے انسان کے سوچنے سمجھنے غوروفکر کرنے رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے میںاعتدال پسندی فیصلہ کرنے سے پہلے مسئلہ کے جملہ مثبت اور منفی پہلوؤں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ فریق ثانی کی بات سننے کا حوصلہ سوچنے کے اسی طریقے کو معروضی معقول یا سائنٹفک طرز فکر کہا جاتا ہے اور سائنٹفک طرز فکرکی نشوونما صرف سائنسی کتب یاسائنسی مضامین کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ طرز فکر پیدا ہوتا ہے۔ صحیح انداز کی تعلیم وتدریس اور تربیت سے اچھی انسانی صحبت سے مختلف علوم کی کتابوں کے غیر جانب دارانہ مطالعے سے اس طرز فکر میں غیر جانبداری اعتدال پسندی اپنے نقطۂ نظر کو دوسروں پر زبردستی تھوپنے سے گریز جسمانی مالی اور افرادی طاقت پر غرور اس کے اظہار اور غلط استعمال سے اجتناب دوسروں کی بات کو سننے اور سمجھنے کی ہمت وعادت سوجھ بوجھ دور اندیشی عملی بصیرت اور عواقب ونتائج کا ادراک شامل ہیں۔ اس میں کوتاہ اندیشی گھبراہٹ ہٹ دھرمی تنگ نظری ذرا سی بات پر برافروختہ ہوکر کوئی قدم اٹھانا واقعات کو توڑ مروڈ کر کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش جیسی منفی صفات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان محض اپنے نقطۂ نظراور اپنی رائے پر اَڑانہ رہے، صرف اپنی ہی بات نہ کہے بلکہ دوسروں کی بات بھی سنے۔ اس کے اچھے اور مثبت پہلوؤں کو پہچانے ،تب کسی نتیجہ پر پہنچ کر کوئی قدم اٹھائے۔
آہ! یہ پُر خلوص عالم با عمل اس دنیا سے روپوش ہوگیا۔ موت بر حق ہے اور موت سے زیادہ یقینی کوئی شئے نہیں ۔ ہم اللہ کے ہیںاور اسی کے پہلو میں واپس لوٹنا ہے مگر مسلمانانِ ہند ایسی عظیم المرتبت شخصیات سے محروم ہورہے ہیں جو اُن کے لئے آندھی میں چراغ بنی رہیں ، جو زمانے کے فتن وآشوب میں اُمہ کے بچاؤ میں ڈھال بنی رہیں ۔ دعا ہے رب کریم مولانا مرحوم کو بال بال مغفرت فرماکر اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے اور حضرت والا کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے بڑھائیں اور آپ کے علمی منصوبوںکی تکمیل کے لئے آپ کا نعم البدال دے۔ مورخہ۷؍دسمبر ۲۰۱۸ء بروز جمعۃ المبارک ملک وملت کے اس بے لوث رہنما کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپردخاک کردیا گیا ۔قبل ازیں نماز جنازہ بعدجمعہ اداکی گئی۔ ملک کے مختلف خطوں سے ہزاروں کی تعداد نے اس میں شرکت کی ۔ملک کی مقتدر دینی فلاحی علمی سماجی وسیاسی شخصیات نے مولانا کے انتقال کو ملک کا عظیم خسارہ قراردیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر بیاسی سال تھی، پسماندگان میں تین بیٹے اور دوبیٹیاں چھوڑیں ۔مرحوم کی نماز جنازہ تعلیم آباد ٹپوکشن گنج میں ان کے قائم کردہ ملی گرلز اسکول کے احاطے میں ادا کی گئی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ یہاں ریاست جموں وکشمیر کے نامور عالم دین حضرت الاستاذ مولانا غلام قادر صاحب زیدہ مجدہم مہتمم جامعہ ضیاء العلوم اور مولانا سعید احمد حبیب صاحب مدظلہ نائب مہتمم جامعہ ضیاء العلوم نے بھی تعزیت نامہ میں آپ کے انتقال پر ملال پر جہاں گہرے دکھ کا اظہار فرمایا ،وہاں جامعہ میں مسنون ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا بھی اہتمام فرمایا ۔ راقم السطور کی مولانا اسرار الحق قاسمی علیہ الرحمہ سے پہلی ملاقات آج سے لگ بھگ ایک دہائی قبل جامعہ ضیاء العلوم میں اس موقع پر ہوئی تھی جب جامعہ کے زیر انتظام یوم آزادی کے حوالے سے ایک خصوصی پروگرام ڈگری کالج پونچھ میں منعقد کیا گیا تھا۔اس میں مندوب خصوصی کے طورپر آپ کو مدعوکیا گیا تھا دوران قیام انتظامیہ کی جانب سے اس عاجز کو آپ کی خدمت پر مامور کیا گیا تھا اورحضرت سے آخری ملاقات مفکر ملت مولانا عبد اللہ کاپودروی علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات سے معنون بین الاقوامی سیمینار منعقدہ ۱۸؍اکتوبر۲۰۱۸ء کے موقع پر ہوئی تھی۔ حضرت والا نے اس موقع پر اپنے مقالے کی تلخیص پیش کرتے وقت مختصر مگر جامع اور یادگار تقریر بھی فرمائی تھی۔دعاہے کہ اللہ رب کریم آپ کی خدمات وحسنات کو قبول فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
رابطہ نمبر : 9682327107/9596664228
E-mail.- [email protected]