شبنم بنت رشید
سانس لیتے ہوے انسان بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
آج کا دن بڑا بھاری تھا، شاید مکافات عمل کا دن۔ ارتقاء نے اپنی مرضی سے شادی کے صرف ڈیڑھ دو سال بعد دائم سے اس بات پر الگ ہونے کا فیصلہ کردیا کہ دائم کو مجھ سے محبت ہی نہیں تو بچے پیدا کرکے اور گھر بسا کے کیا فائدہ۔ کئی دنوں کے بعد عدالت میں طلاق کی دستاویزات پر دستخط کر کے گھر لوٹی تو بستر پرڈھ گئی۔ یہ غم ہم سب کے لئے یکساں تو تھا مگر اسکے ابا نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے مجھے بہت ڈانٹا اور کوس کوس کر میرابرا حال کردیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ اُسے تو فقط ڈانٹنا ہی تو آتا تھا۔ مگر اب تو نہ جوانی کے دن تھے نہ ڈانٹ سہنے کی طاقت اور نہ ہی اس میں میرا کوئی قصور تھا۔ پانی کی بوتل ارتقاء کو تھماکر میں گرتے سنبھلتے اپنے ٹوٹے وجود کو لیکر گھر کے اس مخصوص کونے میں بیٹھ گئ جو میرے ہر درد کا ہمراز تھا۔ یہ بات بالکل سچ اور واضح تھی کہ ارتقاء کو اپنے ابا نے بالکل شہزادیوں کی طرح پالا تھا۔ اسکے سارے لاڈ اٹھائے، اور اسکی ہر خواہش کو پورا کیا۔ تعلیم و تربیت، پرورش اور خاص طور پہ اسکی شادی میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہ رکھی۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ اس نے پہلے دن سے میرے ساتھ الگ اور عجیب قسم کا برتاؤ کیا۔ میرے زخم یکدم ہرے ہونے لگے تو میں ارتقاء کے غم کو بھول گئ اور اپنے ماضی کی کتاب کے اوراق پلٹنے لگی۔
شاید انتخاب کو ایک شریک حیات نہیں بلکہ ایک ہرفن مولا چاہیے تھا جو ہر کام کا ماہر ہو اور ہر کام وقت سے پہلے انجام دیتا رہے ۔ کبھی بھی کوئی بھی کام ٹالنے کی گنجائش بالکل بھی نہ تھی مگر میں بھی تو کسی ہرفن مولا سے کم نہ تھی۔ میں معاشرے کے رابطے نبھانے، بچوں کی پرورش اور انکی ٹیوشن ٹیچر، پسند کا ذائقہ دار کھانا پکانے والا باورچی،برتن جھاڈو ، صفائی اور پونچھا لگانے والی نوکرانی، دائی، دھوبن، درزن، چوکھٹ کی چوکس چوکیدار اور بندہ بے دام یعنی بیوی کے چھوٹے بڑے فرائض نبھانے کے علاوہ بلا اجرت مزدور کی طرح بہت کچھ سنبھالتی تھی۔ پھر بھی میں اس کے دل میں گھر نہ کرسکی۔دن بھر کی تھکان کا اظہار کرنے پر مجال ہے اسکے منہ سے کبھی بھی ہمدردی کے دو بول ادا ہوے ہوں، البتہ وہ ماہر تیر انداز ضرور تھا، اسے تنقید کرنے کا، نظرے پھیرنے کا اور نظر انداز کرنے کا ہنر خوب معلوم تھا۔ وہ تو نہ مجھ سے راضی تھا اور نہ ہی میرا قدردان تھا،نہ شاکر تھا نہ شوقین۔ اسکے دل میں نہ رحم تھا نہ رعایت۔ نہ جانے کیوں مجھے دیکھ کر اس کے موڈ کی فضاء میں بیشمار تناؤ بھر جاتا تھا۔ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ میری زندگی بھی اداسی سے بھردی۔ بارہا میں نے اسکے سامنے اپنا دل کھول کے رکھ دیا، حالانکہ میں اس کے ہر دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتی رہی، بار بار اس سے اپنے اندر کا موسم بدلنے کی بھیک بھی مانگتی رہی، اسے سمجھاتی رہی کہ زندگی بڑی انمول ہے صرف ایک ہی بار تو ملتی ہے، خوبصورت سی۔ کوئی پریشانی ہے تو مل بیٹھ کر حل کرلینگے۔ مگر اُس نے میرے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا۔ کوئی وضاحت نہ کی، اور نہ ہی مزاج بدلنے کا کوئی وعدہ کیا۔ مجھے اس پر بڑا ناز تھا اسلئے کہ وہ میرے ابا کا انتخاب تھا۔ انکے بچپن کے ایک دوست کا بیٹا، شریف اور سنجیدہ نظر آنے والا بندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری ہولڈر بھی۔ باپ دادا بڑے کاروباری اور عزت دار لوگ تھے، نہ جانے کیوں میرے گھر والوں کے علاؤہ میرے خاندان والوں نے بھی اس رشتے کی مخالفت کی۔ امی حیات ہوتی تو شاید وہ بھی اس رشتے کے خلاف ہوتی مگر میں نے سر جھکا کر ابا کا ساتھ دیکر انکا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ اچھی بیٹیاں نہ احسان فراموش ہوتی ہیں اور نہ ہی بے ظرف، چاہیے والدین کو واقعی بیٹیوں کے فرائض نبھانے ہوں یا بیٹیوں کا بھوج سر سے سرکانا ہی کیوں نہ ہو، وہ ہر حال میں سرخم کر ہی لیتی ہیں۔ میں نے بھی دل کی گہرائیوں سے اپنے خوابوں، خیالوں کے باب کو صبر کے تہہ خانے کے اندر دفن کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔ شادی کے موقع پر کافی کچھ ملا،پھر میں پوری ایمانداری اور توانائی سے زندگی کے موسموں میں محبت کے رنگ بھرنے میں جٹ گئی۔ مگر نہ جانے میرے مقدر کے ہاتھ میں ایسے کونسے رنگ آئے کہ ہر رنگ پھیکا نکلا، سانس لینا محال ہوگیا۔ دم گھٹتا گیا، زندگی وہیں آکے رک گئی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ عمر گزر گئ، مگر میں اسکے دل کے اندر جھانک نہ سکی کہ اندر کونسا احساس پل رہا ہے، محبت کا یا پھر نفرت کا۔ نفرت کا تصور بھی نہ تھا، محبت سے تو زندگی دلکش اور روشن ہوجاتی ہے۔ جو بھی ہو انسان کا رویہ اسکے اندرونی احساسات کی ترجمانی ضرور کرتا ہے۔ ہر بار میں اپنے آپ سے سوالی ہوتی کہ کیا وہ میرے جوڑ کا نہیں تھا یا پھر میں اس کے جوڑ کی نہ تھی؟ اس کے دل کے اندر چور تھا یا کوئی اور سبب، یا کوئی خاص مجبوری؟ اگر ناپسند تھی تو برداشت کیوں کر رہا تھا؟ اگر پسند تھی تو یہ بے مروتی کیوں؟ ان سوالوں کے جواب مجھے آج تک نہ ملے، عمر کے اس پڑھاؤ پر آج بھی وہ ایک گہرے راز کی طرح تھا۔
میں ویسے ہی اسکی ڈانٹ، ڈپٹ اور رویئے سے خوفزدہ اور پریشان رہتی تھی کہ ماہ مبارک شروع ہوا۔ اس نے پورے مہینے کا سودا سلف لاکر رکھ دیا اور میں نے مبارک مہینے کی آمد سے پہلے ہی پورے گھر کی صاف صفائی کی۔ لیکن صفائی کے دوران میلے کپڑوں، کمبلوں، بستر کی چادروں وغیرہ کا ایک انبار جمع ہو چکا تھا۔ پہلی سحری کھا کر میں نے کچھ دیر آرام کیا، پھر بچوں کا لنچ تیار کرکے انہیں اسکول روانہ کیا اور واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھونے شروع کئے۔ کپڑے دھوتے دھوتے پھر انہیں رسیوں اور دیواروں پر لٹکاتے لٹکاتے بچے اسکول سے واپس آئے، انہیں کھلایا پلایا اور انکی وردیاں دھو کے رکھ دیں اور اتنی ہی دیر میں عصر کا وقت ہوگیا، دھوپ بڑی تیز تھی، میں نے وضو بناکر ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ اداکیں اور تلاوت قرآن پاک بھی کی۔ تھکاوٹ اور روزے کی وجہ سے سر کافی بھاری لگنے لگا۔ پھر بچوں کو سلاتے سلاتے میری بھی آنکھ لگ گئی۔ میں کتنی دیر سوتی رہی اسکا مجھے اندازہ نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ افطاری سے لگ بھگ تیس منٹ پہلے میری آنکھ کھلی۔ میری تو شامت ہی آگئی جب میں نے انتخاب کو گیٹ کے اندر داخل ہوتے دیکھا۔ پورا گھر پھیلا ہوا تھا، اور افطاری کے لئے کوئی کھانے کی چیز تیار نہ دیکھ کر وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ میں نے اسے اللہ کا واسطہ دیا، اپنی لاپرواہی کی معافی بھی مانگ لی، مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے آج مجھ پر ہاتھ اٹھا کر ساری حدیں پار کرلیں۔ سوئے ہوئے بچے بھی ایسے سہم سے گئے جیسے انکے اندر جان ہی نہ ہو، وہ طعنوں اور طشنوں کے ہتھوڑے برساتا رہا، اس بات پہ اس نے مجھے اتنا ذلیل و خوار کیا کہ دل نے چاہا کہ اسی وقت واپس مائیکے جانے کا فیصلہ کرلوں یا پھر کچھ اور احمقانہ حرکت…..! مگر اب یہ ممکن نہ تھا کیونکہ کچھ وقت قبل ہی بچوں نے اسکول جانا شروع کیا تھا، مائیکے میں بھائی الگ الگ رہنے لگے تھے اور چھوٹی بہن ابھی غیر شادی شدہ تھی اور ابا …. ابا تو بیچارے بہت کمزور ہو گئے تھے۔ یہ خیالات آتے ہی میں رونا بھول گئی۔ کتنا آسان ہوتا ہے اپنے آپ کو منانا، اور کتنا مشکل ہوتا ہے ایک رشتہِ توڑنا۔ اسی کے ساتھ میں نے چہرےپر سے بہتے ہوے آنسوں صاف کیے اور کچن کے اندر چلی گئی۔
یہ واقع ذہن پہ اتناسوار ہوگیا کہ ہر روز میری روح گھائیل ہوتی گئی۔ تب سے کتنے موسم آئے اور گزرگئے مگر سب موسم بنجر سے لگنے لگے۔ میں نے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی۔ مگر میرے دل کے اندر اسکے تئیں جو جذبات کی تڑپ تھی ان سب پر میں نے قابو پالیا اور میں پر سکون سی ہوگئی۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے میں نے اس سے خاموشی سے زبانی، ذہنی اور جذباتی تعلق ترک کردیا۔
اللہ خیر کرے وقت کا ڈھیر سارا وقت گزر گیا۔ کہتے ہیں نا وقت ہی خدا ہے اور خدا کسی کا برا نہیں کرتا۔ میرا موم سا منتظر وجود رفتہ رفتہ پتھر بن گیا، دل کا لاوا پگھل پگھل کر آنکھوں کی جھیلوں میں جم گیا، تو اپنے سوا کچھ نظر نہ آیا، صبر کی مورت بن گئ، اپنے صبر پر رشک ہونے لگا، اپنے دکھوں اور غموں کو سہہ سہہ کر ایسی اداکاری اور فنکاری سیکھ لی، جس سے میرا دکھ درد تو چھپ گیا ساتھ ہی ساتھ ان تمام رشتوں کا بھرم قائم رہا جو مجھ سے منسلک تھے۔
اداسی تم پہ بیتے گی تو تم بھی جان جاؤگے
کوئی نظر انداز کرتا ہے تو کتنا درد ہوتا ہے
(شاعر نامعلوم)
���
پہلگام ، کشمیر
موبائل نمبر؛ 9419038028