وزیراعظم نریندر مودی نے اندور مدھیہ پردیش میں بوہرہ فرقہ کے سیفی مسجد میں عشرہ مبارک میں شرکت کی ۔ اس موقع پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کیا اور بوہرہ مسلمانوں کی قومی خدمات کے لئے خراج تحسین ادا کیا۔ بوہرہ دراصل گجراتی زبان میں تاجر کو کہتے ہیں اور فرقہ بواہیر جو شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے‘ اپنی تجارت، معاشی مرفع الحالی اور سیکولر کردار کی وجہ سے اپنی علیحدہ شناخت کے حامل ہیں۔ اس فرقہ نے جن کے روحانی پیشوا کو داعی مطلق اور سیدنا کہا جاتا ہے‘ اپنے آپ کو تعلیم اور تجارت میں اس قدر مستحکم بنایا کہ ان میں سے بہت کم معاشی طور پر پسماندہ ملیںگے۔ بلاسودی قرض کی فراہمی کی بدولت ان کے اپنے ذاتی کاروبار اور ذاتی مکانات ہیں۔ اسلامی فن تعمیر کے تحفظ اور فروغ کے لئے فرقہ بواہیر کے روحانی پیشوائوں کی خدمات مسلمہ ہیں۔ ممبئی میں روضہ طاہری فن تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ 51؍ویں داعی مطلق سیدنا طاہر سیف الدین مرحوم کے مقبرہ کی اندرونی دیواروں پر مکمل قرآن مجید سونے کے پانی سے کندہ ہے اور 113 سورتوں پر بسم اللہ الرحمن الرحیم یاقوت سے کندہ ہے۔ جامعہ ازہر کی تعمیر و ترقی میں بھی فرقہ بواہیر کا اہم رول رہا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کیلئے بھی 52؍ویں داعی مطلق سیدنا برہان الدین نے فنڈ قائم کیا تھا۔ بہرحال ان کی سماجی خدمات‘ مسلمہ ہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو بوہرہ کہلاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بوہروں نے ان کا ہر قدم پر ساتھ دیا۔ یہ اور بات ہے کہ 2002ء میں جب گجرات میں نسل کشی کی جارہی تھی‘ مکانات، دکانات، تعلیم اور تجارتی ادارے نذر آتش کئے جارہے تھے ،اُن میں جانی اور مالی نقصان اٹھانے والوں میں گجراتی بوہرے بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے سیفی مسجد میں حاضری دی۔ جب وہ وزیر اعظم بنے تھے تب انہوں نے بوہرہ مسلمانوں کی جانب سے پیش کی گئی ٹوپی قبول نہیں کی تھی، تاہم اس مرتبہ انہیں بوہروں کے روحانی پیشوا کے سامنے انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ دیکھا گیا۔ یہ نہیں بلکہ جو تبرکات سیدنا نے پیش کئے، اُسے انہوں نے بصد احترام اپنی آنکھوں سے لگایا۔ مودی کی بوہروں سے ملاقات پر تبصرے جاری ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کے تئیں ان کے رویے میں تبدیلی اور نرمی سمجھا جائے یا اسے آنے والے انتخابات سے قبل پالیسیوں کو لچک دار بنانے کی کوشش سمجھا جائے۔ اس کا ہندوستانی مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا؟ یہ کہا نہیں جاسکتا البتہ بوہرہ مسلمانوں میں گجرات فسادات کے بعد جو تلخیاں اور خلش پیدا ہوئی تھیں، ممکن ہے کہ اس میں کمی پیش آجائے۔ مسٹر مودی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلم ووٹ بنک کے نظریہ کو ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، کیوں کہ 2014ء کے الیکشن میں مسلم اکثریتی آبادی والے حلقوں سے بھی بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم وزیر اعظم بننے کے بعد بعض مسلم ممالک کے دوروں اور وزارت عظمیٰ کی میعاد کے آخری مرحلے میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ قدرے نرم رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کو بھی اس سلسلہ میں ہدایت دی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں مسلمانوں کے لئے تحفظات کا بی جے پی رکن اسمبلی نے بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی کی حلیف شیوسینا نے بھی مسلم تحفظات کی حمایت اور وکالت کی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟ جو پارٹی اور اس کا قائد ہندوتوا کی لہر میں مسند اقتدار تک پہنچ گیا، جو جماعت مسلم آبادی میں اضافہ پر ہمیشہ تشویش اور اندیشوں کا اظہار کرتی رہی اُسے آخر مسلمانوں سے ہمدردی کیسے ہوئی؟ شاید اس لئے کہ 2014ء میں جو لہر ان کے حق میں تھی ویسی نظر نہیں آتی۔ پچھلے الیکشن میں جو جو طبقات اپنے نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو صرف ایک دن کے لئے مٹاکر انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھائی تھی اب ان میں سے بیشتر ان کے مخالف ہوچکے ہیں۔ حتیٰ کہ این ڈی ٹی وی کے ایک پروگرام میں مسٹر مودی کے سب سے بڑے حمایتی اور اکثریتی طبقہ کی قابل لحاظ تعداد کے لئے قابل احترام یوگا گرو رام دیو نے دو ٹوک لہجہ میں یہ کہہ دیا کہ 2019ء کے الیکشن میں مودی کی حمایت میں تحریک نہیں چلائیںگے۔ اُترپردیش میں بھیم سینا کے قائد راون چندر شیکھر نے 17؍مہینوں کی قید سے رہائی کے بعد سینہ ٹھوک کر یہ اعلان کیا کہ اب ان کا ایک ہی مقصد ہے بی جے پی سے اقتدار چھین لینا۔ وہ درجہ فہرست طبقات کے مقبول رہنما ہیں اور بی ایس پی کے ساتھ مل کر اُترپردیش میں الیکشن کے دوران اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
آندھراپردیش میں تلگودیشم نے ان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اور چندرا بابو نائیڈو بڑھ چڑھ کر مخالفت کررہے ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی پہلے جیسے حالات نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں کئی سنسنی خیز انکشافات کا امکان ہے۔ وجے مالیا کے اس انکشاف کے بعد کہ لندن فرار ہونے سے پہلے پارلیمنٹ میں انہوں نے ارون جیٹلی سے ملاقات کرکے انہیں اس کی اطلاع دی تھی۔ مسٹر جیٹلی نے اس سے انکار کیا تاہم ایک کانگریس قائد نے جو جیٹلی۔وجے مالیا ملاقات اور بات چیت کے چشم دید گواہ تھے باقاعدہ راہول گاندھی کے ساتھ پریس کانفرنس میں کئی انکشافات کئے۔ یقینا اس کے مودی اور بی جے پی پر منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ مسٹر مودی نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد بار بار یہ کہا تھا کہ وہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں چھپائے ہوئے ہندوستانی کالا دھن کو واپس لے آئیںگے مگر ہوا اس کا اُلٹا۔ جب کہ ہندوستان ہی سے اچھا خاصا دھن لے کر کئی لوگ ہندوستان سے باہر چلے گئے۔ ان کے قریبی حلقے میں شامل صنعت کاروں نے اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دے کر ہزاروں کروڑ روپئے ہڑپ لئے اور اپوزیشن کے الزام ہے کہ جو بینک اس فراڈ کی وجہ سے قلاش ہوگئے تو نوٹ بندی کے ذریعہ عوام کے پیسوں کو بینکوں میں لایا گیا اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مختلف بینکوں کو ا یک دوسرے میں ضم کرنے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پتہ نہ چل سکے کہ کس نے کس بینک کو کتنی رقم کا دھوکہ دیا۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ اب تک اپوزیشن الزام لگاتی تھی مگر اب عام آدمی بھی صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے مجبور ہوگیا ہے، کیوں کہ جب سے دنیا ایک عالمی گائوں بن گئی ہے‘ انفارمیشن ٹکنالوجی عام ہوگئی ہے‘ کوئی راز راز نہیں رہا‘ اب عام آدمی بھی سوال کرنے لگا ہے کہ آخر کیوں بیرونی ممالک کو تیل کم قیمت میں بیچا جارہا ہے اور ہندوستانیوں کو دوگنے داموں میں فروخت کیا جارہا ہے؟ لگتا ہے کہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی جماعت اور حکومت جھلس سکتی ہے۔ اگرچہ کہ رافل معاملات سے عام آدمی کو کوئی دلچسپی نہیں مگر اپوزیشن نے اُسے اس قدر عام کردیا ہے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی بتاسکتا ہے کہ 126؍لڑاکا جیٹ طیاروں کی مینوفیکچرنگ کے لئے دنیا کی 6بڑی اہم طیارہ ساز کمپنیوں نے بولی لگائی تھی۔ ان میں رافل اور یورو فائٹر بھی شامل تھے۔
اگرچہ کہ ہندوستان کے وزیر دفاع نرملا سیتارامن نے 18؍ستمبر کو کانگریس کے زیر قیادت یو پی اے حکومت پر الزام عائد کیا کہ رافل معاملات میں اس نے ہندوستان ایروناٹک لمیٹیڈ کو شامل نہیں کیا تھا۔ تاہم کانگریس کے قائد اور سابق وزیر دفاع اے کے انتھونی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے ایچ اے ایل کی شبیہ کو متاثر کیا ہے۔ اس معاملہ میں کمیشن خوری کے الزامات اور اپوزیشن ان الزامات کو ہر چیانل سے عام آدمی تک پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔ یقینا اس کا بھی اثر عام آدمی پر ہوگا اور تاجر برادری جی ایس ٹی کی وار سے زخمی ہے۔ ان کی بزنس میں 40فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے اور کانگریس کا وعدہ ہے کہ وہ جی ایس ٹی قوانین میں نرمی کرے گی۔ مسلسل بیرونی دورے اور مختلف مدوں میں غیر معمولی اخراجات کا بھی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عام آدمی پر منفی اثر ہوا ہے کیوں کہ ان کا یہ احساس ہے کہ اس کا بوجھ ان کی جیب پر پڑرہا ہے۔
بہرحال ایسے کئی عوامل ہیں جس سے مودی اور ان کی پارٹی کو مسائل درپیش ہیں۔سینئر قائدین کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ ایک خبر اُڑتی اُڑتی یہ بھی ہے کہ خود سنگھ پریوار نے 2019ء میں وزیر اعظم کی کرسی پر کسی اور کو دیکھنا چاہتا ہے۔مودی اور بی جے پی نے بوہرہ فرقہ سے اپنی شروعات کی ہے‘ مسلم ممالک کے دوروں اور وہاں کے اعزازات کا ہندوستانی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔اب ان کی تقاریر کا کیا اثر ہوگا ،آنے والا وقت بتائے گا۔ ان کیلئے یہ المیہ ہے کہ انہوں نے اقلیتوں سے متعلق مختلف شعبہ جات میں اہم عہدوں پر بے بھروسہ اور نامعقول قسم کے افراد کا تقرر کیا۔ وہ مسلمانوں کے جس جس فرقہ سے تعلق رکھتے تھے، ان فرقوں نے ان افراد کو خارج کیا ہے اور ان کے پھسپھسے بیانات نے سب سے زیادہ مودی کو نقصان پہنچایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی۔۔۔ حیدرآباد۔ فون:9395381226