وزیراعظم نریندر مودی اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے کی دہلیز پر ہیں لیکن اسی کے ساتھ ملک بھر میں یہ بحث بھی چھڑنے لگی ہے کہ آیا ملک کو آگے اُن کی ضرورت ہے کہ نہیں ۔ بالفاظ دیگر یہ سوال اب سنجیدہ ذہنوں پر حاوی ہے کہ مودی کا انتخاب بہ حیثیت وزیر اعظم دوسری ٹرم کے لئے کیا جائے یا نہیں ؟ میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ یہ تاثر دینے کی کوشش میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے کہ مودی کے دوبارہ نہ آنے کی صورت میں ملک میں انارکی پھیل جائے گی ، کسی ایک پارٹی یا ا نتخابی تحاد کو مکمل اکثریت نہ ملنے کی صورت میں ملک کی سیاسی اور معیشی صورت حال تتر بتر ہوگی۔ یہ حلقہ شوشہ آرائی کر رہاہے کہ اگر مودی کے متبادل کے طور ملی جلی حکومت بنی تو یہ کھچڑی سرکار ہو گی ۔ یہ لوگ تاریخ کا حوالے دے کر جنتا پارٹی اور اندرا گاندھی کی یاد دلا کر کہتے ہیں کہ کس طرح اندرا گاندھی کو اُکھاڑ پھینکنے کیلئے جنتا پارٹی کے بینر تلے اپوزیشن کی تمام پارٹیاں یکجا ہو گئی تھیں اور اس وقت ایک ہی مقصد تھا کہ اندرا گاندھی کی رعونت کو خاک میں ملانا ہے۔ اگرچہ کامیابی جنتا پارٹی کے حصے ہی میں آئی تھی لیکن لیڈرشپ کا مسئلہ اس قدر شدید تھا کہ جنتا حکومت اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکی اور اندرا گاندھی پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہو گئیں اور اپنی موت تک بر سراقتدار رہیں ۔ ان کی ہلاکت کے بعد ہمدردی کی لہر نے ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو بھرپور اکثریت دلائی، حالانکہ اس سے قبل وہ ایک پائلٹ تھے اور سیاست کے ’’الف بے‘‘ سے بھی واقف نہیں تھے لیکن انہوں نے 5 سالہ مدت پوری کی ۔ غرض گودی میڈیا مودی کو اندرا گاندھی کے روپ میں دیکھتا ہے اور یہ باور کراتا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد کے ذریعے اگر مودی کو وزارت عظمیٰ سے روکا گیا تو وہ اندرا گاندھی ثابت ہوں گے اور پھر سے بی جے پی اقتدار میں اسی شان و شوکت سے آ جائے گی جس طرح اندرا گاندھی آ گئی تھیں اور جو سیاسی احیائے نو کانگریس کا ہوا تھا ،ویسا ہی پھر بی جے پی کے ساتھ ہوگا۔
میڈیا کے اس طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ ممتا بنرجی کی کولکتہ مہا ریلی کے بعد ایک تیسرے فرنٹ کے وجود میں آنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ’’ایک بلاک‘‘کی مانند کام کرے اور اسی میں سے کوئی ایک متفقہ شخصیت نکل کر وزیر اعظم بن جائے جس کو کانگریس باہر سے حمایت دے اور پھر دو ایک برس بعد پہلے کی مانند حمایت واپس لے کر حکومت کو گرا دے۔ ملک میں پھر سے انتخابات ہوں گے اور جس میں کانگریس ہارکر بی جے پی پھرسے سنگھاسن پر آ جائے کیونکہ کانگریس کے دن اب ویسے کہاں رہے ہیںجو کبھی اس کی خصوصیت رہی ہے ۔ بہر کیف اس مخصوص میڈیائی دنیا ہی کی طرح بی جے پی بھی سوچ رہی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ میڈیا کا یہ حصہ ملکی مفاد سے زیادہ اپنی جیبیں بھاری کر رہاہے ،اور بی جے پی کی ایماء پر ہی اس طرح خیالی باتیں گھڑ کو عوام پر تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بلاشبہیہ سب قیاس آرائیاں ہیں اور جمہوریت کا تقاضا ہے سب کو اختیار اور آزادی ہے کہ جن خطوط پر چاہے ملکی مسائل اور قومی بھلائی کے لئے رائے زنی کر ے لیکن ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اگر تیسرا فرنٹ بنانا ہوتا تو ممتا بنر جی کب کا اعلان کر چکی ہوتیں ۔ کبھی فیڈرل فرنٹ کی بات تلنگانہ کے سی آر کی طرف سے آئی تھی لیکن کمال ہوشیاری سے ممتا نے انہیں ٹال دیا تھا کہ فیڈرل فرنٹ سرد خانے میں چلا گیا۔ اگر اس طرح کے فرنٹ کی کوئی کوشش بر سر زمین ہوتی تو کے سی آر بھی ممتا کی ریلی میں شرکت ضرور کرتے۔ ان کے علاوہ جگن ریڈی اور نوین پٹنائک بھی اس میں شریک نہ ہوئے تھے۔ یہ تینوں بی جے پی کے ممکنہ اتحادی ہیں ، البتہ نوین پٹنائک ایمرجنسی کی صورت میں کانگریس کی حمایت بھی کر سکتے ہیں ۔
در اصل اس بار سیاسی اتحاد کا کھیل ہی سب کچھ ہے۔ دونوں قومی پارٹیوں کا دارومدار علاقائی پارٹیوں پر ہی ہے اور دہلی کا راستہ انہی کے آپسی انتخابی اتحاد سے ہو کر گزرتا ہے۔کانگریس اپنے طور پر تو بہت کچھ کرنے کو سوچ رہی ہے لیکن وقت بہت کم ہے، اس لئے اسے چھوٹی علاقائی پارٹیوں سے میل جول برقرار رکھنا چاہئے۔ کانگریس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مغربی بنگال میں وہ ممتا کی حریف ہے۔ یہ تو میڈیا کا سارا شور و غوغا ہے کہ بنگال میں بی جے پی ممتا سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور کانگریس وہاں کی اپوزیشن پارٹی ہے اور اسمبلی میں اس کا اپوزیشن لیڈر ہے۔ مدتوں حکومت کرنے والی سی پی ایم تیسرے نمبر کی پارٹی ہے۔ دراصل بی جے پی کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے جس کی بنگال میں کوئی حقیقت نہیں ۔ممتا کانگریس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتیں اور اس طرح کانگریس کو گومگو کی حالت میں ڈال چکی ہیں ۔کانگریس کا ممتا سے اتحاد کا مطلب بنگال سے کانگریس کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے، اس لئے دونوں کی نپی تلی سمجھ داری بہت کچھ سمجھا دیتی ہے اور کانگریس کے نمائندوں کا ممتا کی مہا ریلی میں شرکت بھی ملک کی مصلحت کو اولیت ملنے کی جانب مضبوط اشاریہ ہے۔ ا س لئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہکھیر تو تیڑھی ہے مگر بنانا پڑے گی اور کھانا بھی پڑے گی۔
بعض ماہرین ومبصرین بتاتے ہیں کہ بے شک مودی آج بھی ملک کی پہلی پسند ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ راہل گاندھی کا گراف بھی بہت زیادہ بڑھا ہے اور جنوبی ہند میں تو زیادہ تر لوگ راہل ہی کو بطور پی ایم پسند کر رہے ہیں ۔ رہی بات شمالی ہند کی تو تین ہندی صوبوں کے رجحان کا پتہ چل ہی گیا ہے،اب جہاں تک بہار اور یوپی کا معاملہ ہے ،ان میں بہار بی جے پی کیلئے اس قدر پیچیدہ ہے کہ وہ پہلے ہی بزبان حال ہار تسلیم کر چکی ہے۔ اس کے موجودہ ایم پی 22؍ ہیں لیکن وہ 17؍ جگہوں پر الیکشن لڑے گی یعنی 5 سیٹیں تو پہلے ہی ہار چکی ہے ۔ بہار کے عوام بھی اس قدر گومگو کی حالت میں ہیں کہ وہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے ہیں کہ کس اتحاد کی طرف جائیں ۔مثلاً مغربی چمپارن کی ایک پارلیمنٹری سیٹ بیتیا حلقۂ انتخاب ہے۔ وہاں کا موجودہ ایم پی بی جے پی کا ہے۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے کہ مذکورہ سیٹ پر بی جے پی ہی لڑے گی یا نتیش کمار کی جے ڈی یو۔ بی جے پی کون سی 5 سیٹیں ترک کرے گی، یہ تجسس بھی برقرار ہے۔ نتیش نے مول بھاؤ کر کے 17؍ سیٹیں تو لے لی ہیں لیکن ووٹ کہاں سے لائیں گے؟ یہ ان کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تیجسوی یادو نے انہیں پلٹو رام کہہ کہہ کر اُن کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا ہے جنہیں ووٹ کرنے کے لئے عوام اب پچاس بار غور کریں گے۔
ایک تیسرے اتحادی رام ولاس پاسوان ہیں جنہوں نے بی جے پی سے اپنے لئے راجیہ سبھا کی سیٹ مانگ کر پہلے ہی شکست تسلیم کر لی ہے یعنی وہ لوک سبھا الیکشن نہیں لڑیں گے۔ رام ولاس کو سیاسی اقتدار کا موسم بھانپ لینے میں ماہر سمجھا جاتا ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جس پارٹی سے اتحاد کریں گے یا جس پارٹی میں جائیں گے جیت اُسی کی ہوگی ۔ پٹنہ کی گلیاروں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ پاسوان نے بی جے پی کی ممکنہ ہار کو پوری طرح بھانپ لیا ہے ۔ کہا جاتاہے کہ وہ کسی اور اتحاد میں نہ جائیں گے بلکہ اپنا منہ بھی صرف بند رکھیں گے، اس کے لئے اُنہیں مراعات دے دی گئی ہیں یا ان کا وعدہ کیا گیا ہے، جبھی تو ان کا بیٹا چراغ پاسوان گاہے گاہے چراغ پا ہوتا رہتا ہے ۔ بایں ہمہ ابھی بھی کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جا سکتا کہ آخری لمحے میں کیا ہو۔ آر جے ڈی بلاک کیا کرے گا، اس مدعے پر بھی ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اتنا طے ہے کہ بہار میں بی جے پی اپنے طور پر 10 سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتی ۔ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں آ جانے کے بعد یوپی کے نتائج کا حساب کتاب بھی بدل سکتا ہے بلکہ الٹ پلٹ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ کانگریس 20؍ کے آس پاس سیٹیں جیت لے۔ اس صورت میں بی جے پی کو یو پی میں 5 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ملک کو مودی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ ہے کہ ملک کو بی جے پی کی بھی ضرورت ہے کہ نہیں؟ تو کیا مودی سے بی جے پی ہے یا بی جے پی سے مودی؟ ا س سوال کے جواب میں کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ ایسے دسیوں مودی آرایس ایس کے پاس ہیں ، وہ جب چاہے مودی کو آؤٹ کر دے اور اپنے کسی دوسرے مہرے کو سامنے لے آئے۔ یہ کام شروع بھی ہو گیا ہے۔ اس لئے ایسا لگتا ہے کہlaw of marginal utlity کے عین مطابق مودی کی ضرورت ملک کو ہے، نہ آرایس ایس کو اور نہ ہی بی جے پی کو، کیونکہ اب بربادی بہت ہو چکی ہے،اور قوم میں مزید بربادی کوئی بھی ذی ہوش فرد بشر نہیں چاہتا!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)