جمہوریت میں حکومت کا اولین فریضہ عوام الناس کے مفاد میں کام کرنا ہوتا ہے اور اس لئے ہر ایک سیاسی جماعت انتخاب سے قبل ہی اپنا انتخابی منشور جاری کرتی ہے کہ اگر اس کی حکومت تشکیل پائی تو اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی جانب اقدام اٹھائیںگے۔جمہوریت کی صحت کے لئے بھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ عوام اپنی حکومت کے کاموں کا احتساب کرے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنے انتخابی منشور پر عمل نہیں کرتی۔البتہ ہر ایک سیاسی جماعت منشور سازی اور پھر اس کو جاری کرنے کی رسم ادائیگی ضرور کرتی ہے۔در حقیقت آزادی کے ستر برسوں کے بعد بھی ہمارے ملک کی شرح خواندگی ستر فی صد کے نشانے کو پار نہیں کیا ہے اور ہمارے سیاست دانوں نے عوام کو اتنے خانوں میں تقسیم کار دیا ہے کہ اس کو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ کس سیاسی جماعت نے کونسا فلاحی اور لوگ باگ کے مفاد میںکام کیا کھا تھا۔نا خواندہ کی بات جانے دیجئے اہل علم طبقہ بھی کبھی کسی جماعت سے سوال نہیں کرتا کہ انتخاب کے وقت جو منشور جاری کیا تھا اس کا کیا ہوا۔غرض کہ اب ہر ایک جماعت عوام کی نفسیات کو سمجھتی ہے اور وہ اپنے اپنے حسا ب اور مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہر انتخاب میں نیا شوشہ اور پینترہ لے کر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم دنوں دن ترقیاتی دور میں پسماندگی کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔یہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے اور ہماری جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا سوال ہے تو یہ بات جگ ظاہر ہے کہ یہ حکومت ملک کے اکثریت کی منتخب حکومت نہیں ہے کہ اس کو پارلیمانی انتخاب میں محض 39فی صد ووٹ حاصل ہوا تھا۔چونکہ دیگر سیاسی جماعتوں میں ووٹ تقسیم ہو گیا تھا اس لئے ان کے امید واروں کو کامیابی حاصل ہوئی اور یہ حکومت سازی میں کامیاب رہے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مودی حکومت کی تشکیل کی بنیاد مودی پسندی سے زیادہ کانگریس سے عوام کی بد زنی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کے خلاف ملکی پیمانے پر ماحول سازی میں قومی میڈیا کا بڑا کردار تھا۔اور میڈیا مودی حکومت کی حمایت میں آج بھی ایک مشن کے طور پر کام کر رہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ملک کے جتنے بڑے صنعتی گھرانے ہیں سب کے سب مودی بکھان میں کام کر رہیں ہیں۔ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔نتیجہ ہے کہ مودی عوام الناس کے مفاد کی اندیکھی کر کے صرف بڑے سرمایہ داروں کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔نوٹ بندی سے ملک کے چھوٹے صنعت کاروں کو جو خسارہ ہوا ہے اور قومی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ بھی جگ ظاہر ہے۔
مودی حکومت نے ملک کے عوام کو گزشتہ چار سال کے دور اقتدار میںجس قدر بے وقوف بنایا ہے شاید اب تک کی کسی حکومت نے نہیں بنایا۔اس نے نو جوانوں کو روزگار دینے کا جو کمٹمنٹ کیا تھا اس اعلان کا پانچ فی صد بھی پورا نہیں ہوا۔ہر شہری کے بینک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے اور کالے دھن کی واپسی تو جملہ ہی ٹھہرہ۔ملک گیرسطح پر کسانوں کی خود کشی کا رکارڈ یہ سا بت کرتا ہے کہ اس وقت ملک میں کسانوں کی حالت کتنی بد تر اور تشویش ناک ہے۔ہمارے وزیرا عظم نریندر مودی نے اب تک کے تمام وزیر اعظم کے ملکی دورے کا رکارڈ توڑ چکے ہیں مگر ان چار سالوں میں ہماری خا رجہ پالیسی کس قدر مستحکم ہوئی ہے ہم سب جانتے ہیں۔ہاں، ان چار سالوں میں ملک میں منافرت اور فرقہ واریت کو فروغ ضرور ملا ہے۔ گھرواپسی ،پاکستان، گائے،قبرستان،لو جہاد کے نام پر ملک کی فضا کو جس قدر مکدر کی گئی ہے اس سے ملک کی سا لمیت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔آج پورے ملک میں آر ایس ایس اور دیگر سنگھ پروار تنظیمیںا علانیہ فرقہ واریت کو فروغ دے رہی ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔مودی جی کبھی کبھار ان ہندوتو طاقتوں کے خلاف زبان تو کھولتے ہیں لیکن عملی اقدامات ندارد ہے۔در اصل ان کی بیان بازی ایک مصلحت پسندی کا حصّہ ہوتا ہے۔
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ آج پورے ملک کے تعلیمی اداروں اور آئینی اداروں پر سنگھ نظریے کے لوگوں کو بیٹھایا جا چکا ہے۔نتیجہ ہے کہ جے آن یو۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔جامہ مللیہ اسلامیہ اور دیگر بڑی انورستیوں میں افرا تفری کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش جاری ہے۔یو جی سی اور انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس اور آن سی اآرٹی ،ایس سی ای ایس آر، آئی سی ایچ آرجیسے اداروں میں آرایس ایس کے وکیلوں کو براجمان کیا گیا ہے۔اب پی ام ا و نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ یو پی اس سی امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کا کیڈر حکومت طے کریگی۔۔منشا ظاہر ہے کہ یہاں بھی آئی ایس ایس اور آئی پی اس کیڈر کا فیصلہ حکومت کرے گی۔اب دلت اور اقلیت طبقے کے طلبہ کامیابی کے بعد بھی شاید کلکٹر اور اس پی نہیں بن سکیں گے۔ایک سب سے بڑی افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ جمہوری نظا م کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ان چار سال میں ہمارے آئین اور قانون کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ملک کے تمام راج بھون میں جس طرح کے لوگوں کو بیٹھایا گیا ہے اور ان کی کار کر دگی سے جس طرح جمہوری شاخ مسخ ہو رہی ہے وہ ملک کی جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔گوا اورکرناٹک کا واقعہ کتنا شرم ناک ہے۔ہماری عدلیہ کو بھی حکومت نے شک و شبہات کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ ان حالات میں اگر ہم مودی حکومت کا احتسابی جایزہ لیتے ہیں تو چہار طرف مایوسی ہی نظر آتی ہے البتہ ہماری میڈیا نے مودی جی کے جھوٹ کو جس طرح سچ کا لبادہ اوڑھا کر پیش کرنے کی جانب گامزن ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ حکومت مفاد عامہ سے زیادہ پروپگنڈہ پر توجہ دے رہی ہے اور یہ رویہ ایک جمہوری نظا م ملک کے لئے خطرناک ہے۔مگر کیا کیجئے کہ جمہوریت میں ایک مضبوط اپوزیسن کا ہونا لازمی ہے مگر اس وقت کوئی اپوزیشن ہے ہی نہیں اور جو ہے بھی وہ خود بے زبان ہے۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
جب 2014 میں مودی حکومت اقتدار میں آئی تھی تو عوام کو لگا تھا کہ شاید نئی حکومت اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے اور لوگوں کو راحت ملے لیکن چار سال کے بعد ملک میں جس برق رفتار سے لا قانونیت اور بے تحاشہ مہنگائی بڑھی ہے اس سے عوام کے سارے خواب چکنا چور ہو گے ہیں۔خانہ داری کے سامان سے لے کرزراعت کے سامان اور کھادبیج کی قیمتوں میں آسمان چھوٹی مہنگائی نے متوسط طبقے اور کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ایک طرف کسانوں کو ان کی پیداوار کا مناسب قیمت نہیں مل رہا ہے تو دوسری طرف قرض کے بوجھ سے دب کار خود کشی کر رہے ہیں۔حال ہی میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نے تمام طبقے کو متاثر کیا ہے با وجود اس کے حکومت اپنی واہ واہی میں لگی ہے۔دوسروں کی بات چھوڑئے اب بی جے پی کے لوگ بھی بدزن ہیں۔ان کے ممبر پارلیمنٹ شترو گن سنہا اور ایک بڑے لیڈر یشونت سنہا نے بھی مودی حکومت کی کار کر دگی پر سوال اٹھائے ہیںمگر مودی حکومت خود اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں لگی ہے۔یہ افسو س ناک ہے، اگرچہ عوام نے حال کے ضمنی انتخابات میںیہ اشارہ دے دیا ہے کہ اکثر حلقوں میں بی جے پی اور اس کے اتحادی جماعت کو ہار کا منہ دیکھنا پڑ ا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی حالت اور بدتر ہوگی۔شرط یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعت متحد ہوکر مقابلہ کرے کہ ووٹ کی تقسیم سے ہی اس کو ہمیشہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔خواہ مرکز ہو کہ ریاستی حکومتیں حزب اختلاف کے ووٹو ں کے انتشار کی بدولت ہی تشکیل پائی ہے۔اب شاید تمام غیر بھاجپائی سیاسی جماعت متحد ہوں کہ بھاجپا بڑھتے گراف سے نہ صرف کانگریس بلکہ کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے وجود کا خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔
موبائل9431414586