سن ۲۰۱۴مىں جب نریندر مودى جى کى سرکار بر سر اقتدار آئى ،اُس وقت پردھان منتری مودی نے عوام سے بہت سارے وعدے کئے ،آج چار سا ل بعد عوام جانتے هیں که وه ہر ہروعدہ پورا کرنے میں بالکل ناکام رہے هىں ۔ اس پر جنتاکےدل ودماغ میں ہزاروںسوالات پىدا کلبلا رہے هىں ، افسوس ان سوالات کا جواب کوئی دیتا نہیں۔ کون دے گا سوالوں کاجواب جب حکومت نے کان بند کر لئے هىں، زبان بند کر لی ہے ،آنکھ بند کر لی ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اگر کوئی قوم کو درپیش مسائل پر گفتگو کرے یاعوام کے سلب شدہ حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کرےتو اُسے جھٹ سے دیش دروهى اور پاکستانی ایجنٹ ہونے کے الزام ملتا ہے ،اللہ اللہ خیر صلا ۔نوٹ بندی پر پردھان منتری سے پوچھا گیا ،جواب ندارد ، جی ایس ٹی پر تنقید ہوئی ،سنی اَن سنی کی گئی ، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کوئی پوچھے تو صدابصحرا ، حتیٰ کہ روپے کى مسلسل گرواٹ پر بھی مودی جی کا مون برتھ ہے ۔آج کی تاریخ میںدىش کا نوجوان طبقه هاتھوں مىں ڈگریاں لئے نوکریوں کی تلاش میں دربدر گھو م رهاهے،نوکرىوں کے دروازے بند هىں اور بے روزگاوں کا کوئى پرسان حال نهىں۔ جو ۳ىا ۴فیصد نوکرىاں هىں بھی، اُن کے لئے اول تو ریکروٹمنٹ ٹیسٹ کنڈکٹ هى نهىں هو تے اوراگر طویل انتظار کے بعد یہ هو بھى جائیں تو سلىکشن لسٹ آتے آتے اور کئی سال کھسک جاتے هىں ۔ہم سب کو ىاد هو گا کہ ۲۰۱۴ سے پہلے پىٹرول کے دام بڑھ جا تے تو مودى جى اس کی مخالفت میں بهت بولتے ، روپىه کا ویلیو گرتا تووہ ہاہاکار مچاتے ،ٹى وى پر صبح شام مہنگائی پر حکومت کے خلاف لمبی چوڑی بحثیں هوتىںلیکن اب همارےمىڈىا اوراپوزىشن کو بے روزگاری اور مہنگائی کے بارے میں جیسےسانپ سونگھ گىاہے، جب کہ ٹى وى چىنلوں کو آئے دن دھارمک جھگڑوں کے سوا کچھ اور نظر ہی نهىں آتا۔ رام مندر ، سہ طلاق، بابرى مسجد،گئو رکشا ، کشمیر پر مغزماریاں ہی ان کے مدعے بنے ہوئے ہیں ، کیا باقى سب کچھ هو چکا هے؟ اپنے جمهورى ملک میں مىڈىا وهی کچھ دکھا تا هے جو حکومت کی مرضی هو، اس پر کسی کو سوال کرنے کى اجازت نهىں اوراگر کوئى غلطی سے سوال کر ڈالے تو اس کا منہ بند کیا جاتا هے ۔ جب سوال کرنے یا اپنا حق مانگنے والوں کے لئے پولیس کى لاٹھىاں حرکت میں آئیں تو جمہوریت کہاں رہی؟
پردھان منترى اپنى ۲۰۱۴کى تقریروں کو سن کر خود بھی پرىشان هوتے هوں گے یا نہیں ، وہ میں نہیں جانتا مگر اب وہ ضرور۲۰۱۹کے چناؤ کے لئے اچھى تقریر لکھوا رهے هوں گے۔ جنتا پوچھے کالا دھن کالا دھن کى جو رَٹ قبل ا زانتخابات لگائے رکھى گئی، اس کا کیا ہو ا؟ وکاس ہے کہاں ؟ اچھے دن کس جانور کانام ہے ؟ کسانوں کی خودکشیاں کس کھاتے میں ہیں ؟ غریب عوام کى جانىں کیوں جارہی ہیں ؟ ہجمومی تشدد اور قتل ناحق کا ذمہ دار کون ہے ؟جنتا کے ان عام سوالوں پر ٹى وى چنلیں پر کچھ کیوں نہیںکہہ رہی ہیں ؟اُن پر صرف۲۰۱۹ کے خیالی چناؤی انکڑے دکھانے کا بھوت کیوں سوار ہے ؟ بکاؤ مىڈىا حکومت کی تعرىفىں رات دن کرتے کرتے نهىں تھکتا، ان کا جھوٹ سن سن کے لوگوں کے کان پک گئے هىں، جب کہ گراؤنڈ لىول پر کام زیروفیصدهے ۔وهى تعلیم یافتہ نوجوان جو کل تک اپنا تھا نوکرى مانگنے پراىا هو ا،ىونىورسٹىوں مىں فنڈز نهىں ،رىسرچر پرىشان هىں ،ان کے تجربات کے خرچے روک دئے گئے هىں ، ملک کى معاشى حالت بد سے بدتر هورہی هے۔ بہر حال پر دھان منترى اگر واقعی پرھان سیوک ہیں تو انہیں دىش کے جوانوں ، مزدوروں،کسانوں، طلبہ وطالبات ، مہیلاؤں کے من کی بات سننی چاہیے اور ان کے سوالوں کا جواب دىنا چاہیے ۔ بهت اُمید تھى ان لوگوں کو مودی حکومت کے آنے سےلىکن ان سارى امیدوں پر پانى پھر گىا ہے۔ دھرم ،مذهب اور جاتی واد کےسیاسی خول سے باهر آکر بھى دیکھئے کہ جنتا کتنى پریشان هے اور ان نوجوانوں کا مستقبل کیا هو گاجن کے ہاتھ میںلىپ ٹاپ کى جگه خنجر آرہے هىں۔ کان کھول کر سنئےایک سوپچیس کروڑ دیس واسی اپنے لئے اچھی تعلیم ، اچھی صحت، اچھی غذا، اچھا روزگار ، اچھا مستقبل اور سکھ شانتی اورمترتا چاہتے ہیں ۔ اسی ماحول کو جنتا اچھے دن کہتی اور سمجھتی ہے ۔
رابطہ :ر یسرچ اسکالر۔ سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد