جرسِ ہمالہ
میر شوکت
یہ دھرتی، جو کبھی تہذیبوں کی ماں، سونے کی چڑیا، عشق و معرفت کا گہوارہ کہلاتی تھی، آج ایک ایسے بازارِ مرگ میں بدل چکی ہے جہاں زندگی کی قیمت ریت پر لکھی اُس لکیر سے بھی کم ہو گئی ہے جو ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے سے مٹ جاتی ہے۔ صبح کا سورج نکلتا ہے تو امید جاگتی ہے، مگر شام ہونے سے پہلے کتنے ہی گھروں کے دروازے سوگ کی لال چادر اوڑھ لیتے ہیں اور معاشرہ موبائل اسکرین پر انہی کی موت کی سرخی پڑھ کر اگلے ہی پل میمز کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ سڑکیں، جو کبھی شیر شاہ سوری کے قافلوں، امیر خسرو کی سیرگاہوں اور پرانی تہذیبوں کے سنگچور راستوں کی گواہ تھیں، آج گڈھوں، کھلے مین ہولوں اور بے لگام ٹریفک کی وجہ سے موت کے سب سے بڑے منچ بن چکی ہیں۔
ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے چار انسان، جن کے سروں پر اُمید کا بوجھ ہے مگر ہیلمٹ نہیں، اور سامنے ایک ٹرک جو تقدیر سے بھی تیز دوڑ رہا ہے،یہی ہمارا معمول ہے۔ 2022میں سڑک حادثات نے 1.55لاکھ جانیں نگل لیں، یعنی روز 425چہرے! حادثہ ہوتے ہی لوگ بھاگتے نہیں، موبائل نکالتے ہیں، کیمرہ آن کرتے ہیں اور موت ایک انسٹاگرام ریل میں بدل جاتی ہے۔ کوئی پوچھتا ہے: ’’زندہ ہے کیا؟‘‘ جواب ملتا ہے: ’’پتہ نہیں! ویڈیو وائرل ضرور ہو رہی ہے!‘‘ گھر، جو کبھی سکون، محبت اور تحفظ کی جگہ تھے، آج اکثر نفسیاتی موت کے گہوارے بن چکے ہیں۔ چائے میں چینی کم ہو جائے، لہجہ ذرا بدل جائے یا اَنّا کو معمولی سا دھچکا لگ جائے، تو گھر کی دیواریں چیخوں کا بوجھ اٹھاتی رہتی ہیں۔ ہر سال ہزاروں عورتیں گھریلو تشدد میں مار دی جاتی ہیں۔ یہ وہی دھرتی ہے جس نے کبھی ستی کی رسم میں عورتوں کو زندہ جلتے دیکھا، اور آج بھی آگ بجھی نہیں۔بس چتا کی جگہ کمرے کی خاموشی نے لے لی ہے۔ مرد بھی اندر ہی اندر مر رہے ہیں، اپنی کمزوریوں کو’’مردانگی‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر دفن کرتے ہوئے۔ بچے ایئر فون لگا کر اس شور سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کبھی کبھی گھر کو میدانِ جنگ بنا دیتا ہے۔ محلہ، جو کبھی رشتوں کا مرکز تھا، آج زبانوں کی تلواروں کا میدان ہے۔
’’تمہارے درخت کی شاخ میرے گھر کی طرف کیوں جھکی؟‘‘۔’’تمہارے کتے نے میری دیوار پر سایہ کیوں ڈالا؟‘‘ اور معمولی بحث نسلوں کی دشمنیوں میں بدل جاتی ہے۔ انہی گلیوں میں کبھی 1947 کے مہاجرین کو پناہ دی گئی تھی، آج وہی گلیاں ایک معمولی جملے سے لرز جاتی ہیں۔ دہشت گردی اس دھرتی کے سینے میں پیوست وہ خنجر ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ 2008کی ممبئی کی رات آج بھی فضا میں چیخ بن کر گونجتی ہے۔ 2022میں دہشت گردی سے 600سے زائد بے گناہ مارے گئے،وہ سب جو بس غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ چینلز موت کو ریٹنگ کا سامان بنا کر چلّاتے ہیں: ’’بریکنگ نیوز! نیشن وانٹس ٹو نو!‘‘ اور چند گھنٹے بعد ایک نئی خبر، ایک نئی سنسنی۔ ہسپتال، جہاں زندگی کی آس لے کر لوگ داخل ہوتے ہیں، آج امید کا مقتل بن چکے ہیں۔ 2017کے گورکھپور میں آکسیجن کی کمی سے مرتے بچوں کی تصویریں آج بھی روح کو جھنجھوڑ دیتی ہیں، مگر کیا بدلا؟ آج بھی ڈاکٹر تھکے ہوئے، نرسیں کم، مشینیں خراب، اور مریض کوریڈور میں زندگی اور موت کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں۔ بھوپال گیس سانحے کی چنگاریاں آج بھی اس ملک کی رگوں میں سلگتی ہیں، جب ہزاروں لوگ ہسپتالوں میں تڑپے اور جواب میں صرف ’’افسوس‘‘ ملا۔ خودکشی اس معاشرے کی سب سے خاموش چیخ ہے۔
2022میں 1.7لاکھ لوگوں نے اپنی زندگی ختم کی۔ وہ کسان جن کے کھیت سوکھ گئے، وہ طالب علم جنہیں 95 فیصد بھی کم لگا، وہ نوجوان جن کی محبت نے انہیں بے گھر کر دیا، وہ ملازم جن کی تنخواہ ان کے خوابوں کو پورا نہ کر سکی ،سب نے اپنی تنہائی سے ہار مان کر زندگی چھوڑ دی۔ رات کے سناٹے میں ایک نوجوان کا خط: ’’میں کمزور نہیں تھا، میں تنہا تھا،یہ پورے نظام کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ معاشرہ؟ وہ واٹس ایپ پر’’جے ہند‘‘ لکھ کر اپنے فرض پورے سمجھتا ہے۔ سماجی زندگی ایک اسٹیج ہے، ہر چہرہ ایک نقاب۔ نوکر کو ’’بھائی جان‘‘ کہہ کر خوش رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ وہ محلے میں آپ کے راز کھول سکتا ہے۔ باس کی بے وقوفی پر’’واہ سر!‘‘ کہنا ضروری ہے، کیونکہ تنخواہ محبت سے زیادہ اہم ہے۔ خوشامد کا یہی وہ کھیل ہے جو کبھی مغل درباروں میں ہوتا تھا، آج ہر دفتر، ہر اسکول اور ہر گھر میں جاری ہے۔ اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ ابھی زندہ ہیںاور یہ اس معاشرے میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہاں زندگی ایک لطیفہ ہے جس پر کوئی نہیں ہنستا، اور موت ایک ایسی خبر ہے جسے ہر شخص شیئر کرتا ہے، پھر بھول جاتا ہے۔ اگلا حادثہ ،چاہے سڑک پر ہو، گھر کی دیوار کے پیچھے، ہسپتال کے کوریڈور میں، یا دل کے کسی ویران کونے میں،آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ مگر اس موت کے بازار میں زندہ رہنے کا صرف ایک ہی راز ہے:خاموش نہ رہیں۔ آواز اٹھائیں۔ شور مچائیں۔ کیونکہ یہاں جو چپ رہتا ہے، وہ روز تھوڑا تھوڑا مر جاتا ہے۔ زندگی یہاں تماشا ہے اور موت یہاں خبر نہیں،ایک کاروبار ہے۔