سہیل سالمؔ
۔2013میں شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوا۔ہم اکثر دوست تمام ادبی نشستوں میں شرکت کرتے تھیں پھر چاہے وہ یونیورسٹی کے کیمپس میں ہو یا یونیورسٹی کے باہر ۔اس اثناء میں ہم نے شعبہ اردوکے آپ پاس ایسی خبریں سنیں کہ ہماری وادی میں کل ہند مشاعر کا اہتمام کیا جارہا ہے جس کی صدارت اردو دنیا کے ایک معتبر شاعر پروفیسر وسیم بریلویؔ کرنے والے ہیں ۔بس میرا وجود بے قراری کے دریا میں ڈوبنے لگا کہ وہ دن کب آئے گا کہ میں بھی پروفیسر وسیم بریلوی ؔ کو آمنے سامنے دیکھ لو ۔ جن کی یہ مشہور غزل آج بھی لوگ اپنی سریلی آواز میں گنگناتے ہیں ؎
اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے
میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے
کتابِ ماضی کے اوراق اُلٹ کے دیکھ ذرا
نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے
میں تجھ سے ملتا تو تفصیل میں نہیں جاتا
مری طرف سے ترے دل میں جانے کیا نکلے
جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ نکلے
کچھ مدت کے بعد ہی کشمیر یونیوسٹی کے سر سید گیٹ کی دیوار پر بینر لٹکایا گیا، جس پر لکھا یہ تھا ’’کل ہند مشاعرہ۔۔ایک شام کشمیر کے نام ۔۔تاریخ 19نومبر 2013 بمقام آڈیٹوریم ،ایس کے آئی سی سی سرینگر،وقت ،تین بجے دن۔پھر میں 19تاریخ کو گھر سے د ن کے2 بجے نکلا ، وہاں پہنچ کر دیکھا کہ دس منٹ کے بعد آڈیٹوریم میں کوئی بھی جگہ خالی نہیں ہوگی ۔ میں نے چاہا کہ آڈیٹوریم کی پہلی صف میں بیٹھ جائوں لیکن وہاں کوئی بھی نشست خالی نہ تھی۔مشاعرے کی ابتدا سے پہلے تمام شعراء کرام کو پروفیسر رحمن راہی کی موجودگی میں شال پوشی سے نوازا گیا۔ اس کے بعد مشاعرے کی شروعات کی گئی جس کی نظامت اردو کے ایک اور معروف شاعر عالی جناب منصور عثمانی ؔکر رہے تھے۔
اس قومی مشاعرے میں جن شعراء کرام نے اپنے کلام سے سامعین کے دل جیت لئے، ان کے اسمائے گرامی جناب راحت اندوری ؔ،جناب منور راناؔ،شبینہ ادیبؔ،منظر بھولیؔ،وسیم بریلویؔ،اقبال اشہر،ڈاکٹر نسیم نکہتؔ،چرن سنگھ بشرؔ،نعیم اختر برہانپوریؔ،پاپولر میرٹھیؔ،فاروق نازکیؔ،رفیق رازؔ،مظفر ایرجؔ،رخسانہ حبینؔ،شفق سوپوری ؔ اور لیاقت جعفری ؔوغیرہ قابل ذکر ہیں۔اسی مشاعرے کے توسط سے پہلی بار میں نے منور رانا کو قریب سے دیکھا۔جو کلام منور رانا ؔنے اس مشاعر میں پیش کیا، ملاحظہ فرمائیں ؎
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بدنصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے انتہائی شریف النفس ، مکاری اور چالاکی سے پاک مگر وقت کی خطر ناک چال اور زمانے کے ستم سہنے والا، بے باک لہجے کا مالک اور نیک سیرت و صورت کا مجسمہ لیکن دوسروں کی غلطیوں اور ناراضگی کو گنگنا کر نظر انداز کرنے والا عظیم شاعر 14جنوری 2024 کو دن کے ساڑھے گیارہ بجے پی جی آئی اہسپتال میں زندگی کی جنگ ہار گیا۔پھرکیا۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر واٹس ایپ اور فیس بک پر پوسٹ کی گئی،ٹویٹر پر ٹویٹ کیا گیا اور موبائل فوں کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوگئیں۔غرض کہ کشمیر یا کشمیر سے باہر ہی نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا میں منور رانا ؔکی موت کی خبر پھیل گئی۔وہ ایسی باغ و بہار شخصیت تھی جس کا مکمل خاکہ کھینچنا ناممکن ہے۔وہ جس دبستان کے چشم وچراغ تھے اور جن معزز ہستیوں کی آغوش میں رہ کر ان کی پرورش ہوئی اور جو کچھ انھیں تربیت میں ملا ،اس نے آخری سانس تک ان تمام صفات کی حفاظت کی۔لیکن ان کی شخصیت اس کے بغیر بھی کئی اوصاف حمیدہ سے مزئین تھی، جو ان کے اپنے اور صرف اپنے تھے اور جو انھوں نے خود محنت و مشقت سے حاصل کئے تھے۔ان کا بے باک لہجہ ،نڈر پن، حق گوئی ،قول و فعل میں یکسانیت ،انصاف پسندی ،صاف گوئی کے علاوہ خودستائی، منافقت ،فرقہ پرستی،دھوکہ بازی اور حسد و کینہ سے دور وہ نئی اور پرانی تہذیب کا ایسا دریا تھاجس سے بہت سارے لوگ اپنی علمی پیاس بجھاتے تھیں۔ان کا وجود ایسا خوشبو دار درخت تھا جس کے سایہ میں پرندے ہی نہیں بلکہ بے شمار لوگ آرام سے زندگی بسر کر کےتازہ دم ہو کر اڑان بھرنے کے لئے نکل جاتے ۔ان کا مزاج ہو یا ان کی شخصیت ان کے اپنے دبستان میں بھی منفرد تھی اور جہاں جہاں وہ مشاعرہ پڑھنے جاتے تھے وہاں بھی منفرد ہی رہیں۔اب جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں منور رانا نے باغیرت لباس پہن کر زندہ دلی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہمیشہ سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ ہی کے ساتھ وضاحت کرنی کی کوشش کی۔ منور رانا کی شاعری کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ وہ جس موضوع کو غزل کا روپ دیتے ہیں اسے بڑی بہادری اور شائستگی سے پیش کرتے ہیں۔ان کے یہاں بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے تجربات ،حادثات ،عصر حاضر کے مشاہدات کو پیپل چھاؤں ،مور پاؤں ،نیم کے پھول ،سب اس کے لئے ،بدن سرائے اور کہو ظل الٰہی میں نہایت ہی خوبصورت سلیقے سے پیش کرتے ہیں ۔منور رانا اس بات سے بھی واقف تھے کہ متوسط طبقے کی نئی نسل سماجی استحصال میں غرق ہو رہی ہے اور انھیں اس تباہی سے بچانے کے لئے ہمیشہ متحرک نظر آتے ہیں ۔وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگرہم اپنے آس پاس کے ماحول کو سماجی گندگی سے پاک و صاف نہیں رکھیں گے تو ہمارے آس پاس کے حالات بھی تبدیل نہیں ہوں گے اور اگر ہم نے مشکل سے مشکل وقت میں اپنی جد وجہد جاری نہیں رکھ لی تو ہم کو زندگی کے ہر موڑ پر ناکامیابی کا دیدار کرنا پڑے گا لیکن اگر یہی جد وجہد ایمان داری اور خلوص کے ساتھ جاری رکھ لی تو پھر ایک دن ضرور مسرت ،آرام اور سکون کا آفتاب طلوع ہوگا۔بقول منور رانا؎
امیرِ شہر کو تلوار کرنے والا ہوں
میں جی حضوری سے انکار کرنے والا ہوں
جرأت سے ہر نتیجے کی پرواہ کئے بغیر
دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کئے بغیر
یہ دورِ احتجاج ہے خاموش مت رہو
حق بھی نہیں ملے گا تقاضا کئے بغیر
الغرض منور رانا نے اس مشاعر ے میں شرکت کر کے اہل کشمیر کے دلوں میں سچائی اور ایمان داری کو اجاگر کرنے کی حتی الامکان کوشش کر کے کشمیر کی ادبی تاریخ میں اپنا نام رقم کیا جس کا اعتراف آنے والی نسلیں اس یقین کے ساتھ ضرور کریں گی کہ ؎
اب اپنی انا سے مجھے ڈر لگنے لگا ہے
صحرا میں نہ جانے کہاں سر لگنے لگا ہے
آگے کا سفر مری روح کرے کی
اب جسم بھی سامان سفر لگنے لگا ہے
���
رعناواری سرینگر
موبائل نمبر؛9103654553