اہل کشمیر کی جانوں کی قدر و قیمت کتنی گھٹ گئی ہے ،اس کا اندازہ اس المیے سے لگایا جاسکتا ہے کہ 9؍اپریل کوالیکشن کے دن فورسز آٹھ نو جوانوں کو دن دہاڑے گو لیوں سے بھو ند ڈالتے ہیں اور پچاس کو زخمی کر تے ہیں اور ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پریس کے نام بیان جاری کرتے ہوئے رسمی طور کہتی ہیں کہ انہیں ا س پر دُکھ ہواہے اور اسی کے ساتھ بات ائی گئی ہو جاتی ہے۔ نہتے اور معصوموں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتارنا اور بھر اظہار تاسف کا ایک عدد بیان جاری کر نا، یہی کشمیریوں کے جانو ں کی قیمت بنی ہے ۔ریاستی وزیر اعلیٰ ان ہلاکتوں سے بری الذمہ قرار نہیں پاسکتیں، ہاں اگر اقتدار سے با ہر ہوں تو اپنے حریف کو نیچا دکھانے اور سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے لئے کچھ شور غو غا تو لازمی بنتا ہی ہے لیکن کیا کریں جب حکومت کا اعلیٰ ترین عہدہ ہاتھ میں ہواور اس پر برقرار رہنے کے لئے بھارتی حکومت سے زیادہ سے زیادہ داد تحسین حاصل کرنے کی دوڑ بھی ہو تو زبان میں بھی کج ہوتی ہے اور ہاتھ پاؤں بے حس و حرکت ہو نا لازم وملزوم ہے۔ اس بار دہلی میں بیٹھے کر م فرماؤں سے حکم صادر ہو اتھا کہ کشمیر میں دو نشستوں کا ضمنی الیکشن کر انا ہی کرانا ہے ، وہ بھی اُس سوگوارما حول میں جب بھارتی دانش ور اور سیاسی پنڈت کشمیر میں بھارت کی پوزیشن بہت ہی بگڑی پاکر حکومت ِ ہندکو خبردار بھی کرتے رہے ۔کوئی مال و زر سے کشمیریوں کو خامو ش کرنے کی صلاح دیتا رہا اور کوئی بزورِ بازو ان کے عزم کو توڑنے کا مشور ہ دیتار ہا ۔ ماضی سے لے کر حا ل تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بھارتی حکومت کی ہرمنشاء پوری کرنے کے لئے ریاستی حکو مت سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار بیٹھی رہتی ہے، چاہے کشمیر یوں کے خو ن سے اس سر زمین کو رنگنا بھی پڑے۔ اپریل کی 9؍تاریخ کو کشمیریوں کی خون باری سے یہی عمل دہرایا گیا۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی طرف سے وادی کشمیر کے دو پارلیمانی نشستوںں میں ضمنی انتخاب کے اعلان نے ہی یہاں کے حساس حالات میںا یک بار پھر تناؤ پید اکر دیا۔ چونکہ الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی یہاں کے عوامی سطح پر غیر یقینیت کا ماحو ل بنا ہواتھا ، ا سلئے عقل ودانش کا تقاضا یہی تھا کہ الیکشن غیر معینہ عرصہ تک منسوخ کئے جاتے مگر ہو ا اس کے بالکل بر عکس ۔ ویسے بھی عام لو گوں میں یہی تاثرپا یا جا تا ہے کہ بانہال کے ا س پار انتخابی عمل فی الاصل جمہوری کم اور فورسز کی جنگی مشق زیادہ ہوتاہے جو لو گوں کو درپیش مصائب اور مشکلات میں اضافہ کاباعث بن جاتا ہے اور انسانی جا نوں کے زیاں کا موجب بھی ثابت ہو تا ہے ۔متنازعہ خطہ جموں وکشمیر میں الیکشن اپنا مفہوم و معنی کھو جاتا ہے۔ الیکشن عمل کے ذریعے یہاں جمہوریت کی روح کو بحا ل کر نے کا کوئی مدعا و مقصد نہیں ہو تا اورالیکشنوں کے ذریعے منصہ شہود پر لائی جانے والی ’’جمہوریت‘‘ میں لو گ یہاں طاقت کا سرچشمہ نہیں ہوتے بلکہ غیر معمولی اختیارات کی لاٹھی سے حکمران اپنی مرضی کے مطابق لو گوں کو جہاں چاہیں ہانک لے سکتے ہیں ۔ الیکشن نتائج اور اہداف حکومت ہند کی طرف سے پہلے ہی طے شدہ ہو تے ہیں، بس اس کے لئے انہیں کردار سامنے لانے ہو تے ہیں۔ بھارت الیکشن کا انعقاد کر کے جمہوری با لادستی اور جمہوریت نوازی کا ڈھونڈورا پوری عالمی دنیا میں پیٹتا پھرتاہے۔ یہاں کا الیکشن عمل اپنی بنیادی مقصد اورحقیقی مدعا سے عاری ہو تاہے جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ لو گوں کے روزمرہ زندگی سے وابستہ معاملات و مسائل کا شفاف انداز میں حل بہم پہنچایا جائے، انتظامی اموارات کا موثر طریقے سے ادائیگی کے عمل کو یقینی بنا یا جا ئے،عوام الناس اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرکے حق اپنے رائے دہندگی کا استعمال کریں ، اپنے جذبات واحساسات کی ترجمانی کر نے والے نمائندہ کا انتخاب کریں۔ شفافیت اور جو ابدہی کے اصولوں پر استوار انتظامی و سیاسی نظام کو قائم کرنے کے لئے اپنے ووٹ کا استعما ل کر یں ۔ انسانی جان کی حرمت ،عزت کے تحفظ اور عصمت کی محافظت کے لئے مخلص ومستعد سیاسی لیڈرشپ کو سامنے لایں۔ قانون اور اخلاقیات پر عامل دیانت دار افراد کے ہاتھ مضبو ط کئے جایں۔ خدمت خلق پر مامور قیادت پر اپنے اعتماد کی مہر ثبت کریں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انتخابات سے منسلک یہ تمام بنیادی اغراض و مقاصد جموں و کشمیر کی انتخابی تاریخ میں کہیں بھی نظر نہیںآ تے ہیں بلکہ الیکشنوں کاانعقاد یہاں دلی کی پیالہ بردراری اور یہاں کے عمو می جذبہ آزادی کو شکست سے دینے کی منضبط کوشش ہو تا ہے ۔ اگرچہ یہاں کے عوام گاہے گاہے ان الیکشنوں میں شرکت بھی کر تے رہے لیکن ان کے پیش نظر صرف روز مرہ زندگی کے مسائل سڑک ،پانی،بجلی، نالی ،نوکری وغیرہ ہو تی ہے ، جب کہ یہاں کی الیکشن نواز سیاسی پارٹیاں ان ہی مسائل کو حل کرنے کے لئے لوگوں کو ووٹ کا استعمال کرنے پر آمادہ کرتے ہیں لیکن بُرا ہواستحصالی سیاست کا کہ عوام کی سادہ لوحی اور مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اُٹھا کربھارت الیکشن کو دنیا کے سامنے اپنے حق میںووٹ کے طور پیش کر تا ہے ۔اس مقصد کے حصول میں مقامی ہند نواز پارٹیوں کی خدمات بخو بی حاصل کی جا تی ہے ۔
2016ء کی عوامی احتجاجی تحریک کے بعد شاید ہی کشمیر کے حالات کسی الیکشن عمل کے لئے موزون کہلائے جا سکتے ہیں، جس میں تقریباً سو لو گوں کی ہلاکت ،ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور بے رحمی کے ساتھ بر پا کئے گئے پلٹ قہر کے نتیجے میں آنکھوں کی بینائی سے محروم کئے گئے نوجوانوں کی حا لت زار ، بے پناہ املاک کی تباہی پولیس اور فورسز کی جانب سے مچا ئی گئی اور نہتے لو گوں کو قتل کر نے ،قید خا نوں کی نذر کرنے اور پیلٹ وار کر نے کا سلسلہ جو بلا نا غہ آج تک جاری ہے ۔ اقتدار اور مراعات کا بھو کا سیاسی ٹولہ دلی کے مشن کشمیر کی تکمیل کے لئے الیکشن میدان میں کو د پڑا ۔ یہ عناصر ان ہی بدحال لو گوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے لبھانے میں لگ گیا جن کے عزیز واقارب کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتارنے اور پیلٹ گنوں سے چھلنی بنانے کا خون آشام تماشا وہ گزشتہ سال خا موشی سے دیکھتا رہے ۔ نہ صرف تماشا دیکھتے رہے بلکہ لوگوں پر توڑے گئے انسانیت سوزمظالم کا دفاع کر نے میں پیش پیش رہا ۔ ان کی غیرت کو ہلکی سی جنبش بھی نہ لگی جب آئے روز پولیس و فورسز کی بربریت سے چڑھتی جو انیوں کو مسلا جا رہا تھا ، جب پیلٹ گنوںکے چھروں کی بارش کر کے کشمیر کی نسل نو کوبینا ئی سے محروم کیا جا رہا تھا،جب بزرگوں کی سرعام تذلیل کر کے گھسیٹ گھسیٹ کر پولیس تھانوں اور قید خا نو ںمیں پابند سلاسل بنا یاجا رہا تھا۔ چاروںجانب اس جنگل راج اور لا قانو نیت سے کبھی بھی لمحہ بھر کے لئے ان کے ضمیرکو تھوڑی سی چبھن بھی محسوس نہ ہو ئی۔ بہیمانہ قتل و غارت کا دفاع ’’دودھ اور ٹا فی‘‘ جیسی ہتک آمیز تاویلات سے کیا گیا ۔ اقتدارکی کرسی کو بچانے کے عوامی ایجی ٹیشن کو صرف پانچ فیصد لو گوں کی ’’کار ستانی ‘‘ ہونے کافتویٰ دیا گیا۔ کھوئے ہوئے اقتدار کی بحالی کے لئے پریشاں حزب اختلاف نے حکومتی پارٹیوں کو نہتے لو گوں کے قتل عام اور عوام کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ، حالانکہ خود اس نے 2010ء میں اسی پارٹی نے اپنے دور حکو مت میں ایک سو سے زائد لوگوں کو بڑی بے دردی سے مو ت کے گھاٹ اُتارا تھا ۔ حق یہ ہے کہ یہ پارٹیاں صرف وفاداریوں کا پھیر بدل کر تی ہیں ، باقی ان کے ہاتھوں کرسی پر بیٹھ کر ایک جیسے ہی سیاہ کارنامے انجام پا جاتے ہیں ۔
اس بار کے ضمنی الیکشن میں سنیمائی دنیا سے لوٹ آئے مفتی سعید کے فرزند تصدق مفتی نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز کیا اور پی ڈی پی کی طرف سے اسلام آباد کی پارلیما نی نشست سے بطور امیدوار میدان میں کو د پڑے۔ مفتی تصدق کے بارے میں میڈیا کی وساطت سے یہ معلومات عوام کو حاصل ہوئیں کہ مو صوف بھارتی فلمستان سے وابستہ رہے اور ایک پیشہ ور سنیما ٹو گرافر ہیں ، سیاست کا کوئی تجربہ نہیں مگر سیاسی خاندان سے ہونا ان کی سب سے بڑی کوالی فکیشن ہے۔ الیکشن مہم کے آغاز میں ہی مو صوف نے پارٹی ورکروں کو فہمائش کی کہ میں پارلیمنٹ ممبر بننے میں کا میاب ہو تا ہوں یا نہیں ، لیکن آپ کسی خطرے میں پڑ کر ووٹ ڈا لنے کے لئے مجبور نہیں ہو نا ۔ بات واضح ہو جا تی ہے کہ تصدق مفتی بخو بی جا نتے ہیں کہ کشمیر کے حا لات الیکشن کے لئے مو زون نہیں اور یہ کہ کشمیر ایک خو ن آشام دور سے گزر رہا ہے ،نیز ان کو یہ بھی خبر ہے کہ لوگوں کا غالب حصہ الیکشنوں سمیت یہاں کے بھارت نو از سیاست دانوں سے دلی طور متنفر ہیں ۔ کشمیر کی زمینی حقیقت سے با خبر ہو نے کے با وجود آپ بحیثیت امیدوار الیکشن اکھا ڑے میں کیوں کو د پڑے، وہ بھی خود میں ایک سوال ہے ۔ ۹ ؍ اپریل کو سری نگر کے حلقہ ٔ انتخاب میں پیش آئے ناگفتہ بہ حالات و واقعات کے پیش نظر تصدق کی سوچ پر حقیقت کی مہر لگ گئی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر واقعی انہیں لوگوں کی حفاظت کی فکر ہو تی توالیکشن میں شریک ہی نہ ہوتے اور نہ اپنے والد کے خو ابوں کی داستان سرائی کر تے پھرتے۔ اصل یہ ہے کشمیر میںکہ الیکشن اور کرسی ایک ایسا کافرادا نشہ ہے جس سے سیاسی خانوادوں کے مفادات اور دال روٹی وابستہ ہوتی ہے ۔ ورنہ ایک طرف کشمیر کے زخموں پر مرہم کا دعویٰ اور ودسری طرف ازلی طور فرقہ پرست اور مسلم دشمن بھاجپا کے ساتھ گٹھ جوڑ ا کہاں معرض وجود میں آتا ؟؟۔ مفتی تصدق نے پولیس اور فورسز کے سخت پہرے میں اپنی بے رنگ ا لیکشن مہم چلائی مگراپنے ورکروں کو جان خطرے میں نہ ڈالنے کی نصیحت بھی کی ۔ اس متضاد روش کو کیانام دیا جائے جائے ؟سیاست یا جذبا تی بلیک میل یا سادہ لو حی ۔ جس کسی کو صحیح معنوں میںانسانی جا نوں کے زیاں کا احساس دامن گیر ہو، اپنے ہم وطنوںکے تحفظ کی فکر ہو تو گزشتہ سال کی خون ریزی اور اندھ کاری مہم کسی بھی باشعور کشمیری کے ضمیر کو جھنجو ڑنے کے لئے کافی تھی۔ بہر حال یہ ایک قابل اعتناء امر ہے کہ ۱۲ ؍ اپریل کو اسلام آباد میں مجوزہ انتخابات کو فوری طور منسوخ کئے جانے کا اعلان ہوا، بصورت دیگر کشمیر میں حالات مزید کڑا رخ اختیار کر لیتے۔
سری نگر میں مڈٹرم الیکشن کے دوران عمداً وقصداً قتل کئے گئے نوجوانوں کو قبروں میں سلانے کا جواز الیکشن نواز طبقہ کیسے دے سکتا ہے ؟ کیا حزب اقتدار پی ڈی پی کی جانب سے اس پر محض دکھ کا اظہار کر نا کافی ہوگا ؟ کیا حزب اختلاف این سی کی طرف سے حکومت کو اس خون ریزی کا ذمہ دار قرار دینے سے قتل نا حق کی یہ اندوہناک کارروائوئیاں ٹائیں ٹائیں فش ہوں گی ؟ کیا این سی ا س ساری قاتلانہ صورت حال سے بر ی الذمہ ٹھہرے گی ؟ فوج کی طرف سے ایک نو جوان فاروق احمدڈار کو بیروہ کشمیر میں اپنی گاڑی کے ساتھ رسیوں سے باندھ کر انسانی ڈھال بنا کر نمائش کے لئے ۹؍ دیہات گھمانے کے ظالمانہ اور شرمناک واقعہ کی ذمہ داری سے یہ لوگ کیو نکر بھاگ سکتے ہیں ؟پلوامہ کالج میں گھس کر فورسز کی جانب سے بر پا کئے گئے قہر کا یہ کن الفاظ میں دفاع کر سکتے ہیں ؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن میں سات فیصد لو گوں کی شرکت میں، بھارت اور بھارت نواز لوگوں کے لئے کو نسا پیغام ہے ؟ بندوق کی نو ک پر مسلط ’’جمہوریت ‘‘ کو کشمیریوں نے کیوں رد کردی ہے ؟ سوال اور بھی ہے : کیا مہذب دنیا میںفو جی جماؤ اور فورسز کی بھاری موجودگی میں ووٹنگ کا عمل درست نتائج پیدا کر سکتا ہے؟کیا ووٹ ڈالنا اور گو لیاں چلنا ایک ساتھ کہیں دیکھنے کو ملتا ہے ؟ آج کی حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں حا لات کا رُخ بڑی تیزی کے ساتھ کڑا ہو تا جا رہا ہے ، جب کہ بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت ابھی تک طاقت کی زبان میں ہی کشمیریوں کے ساتھ بات کرنا چاہتی ہے ۔ مقامی ہند نواز لیڈر بھی کھلے بندوںاپنی سابقہ پوزیشن کے بر خلاف دلی کو مشورہ دے رہے ہیںکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے جذبہ مزاحمت کو طاقت کے بل پر توڑنا بالکل نادانی ہے،اس لئے دلی کو ریاست کے لو گوں کے جذبات اور احساسات کا پاس و لحاظ کر کے کشمیر حل کی طرف پیش قدمی کر نی چاہیے تاکہ کشمیر ہی نہیں بلکہ برصغیر میںا شانتی اک سدباب ہو اور تمام ہمسایہ ممالک ایک ودسرے کے حریف نہیں بلکہ دوست اور ہمدرد بن کر تعمیر وترقی کا نیاباب شروع کرد یں ۔ جب تک کشمیر کا منصفانہ اور قابل قبول سیاسی تصفیہ تینوں فریق مل بیٹھ کر نہیں کرت یء ،ا س وقت تک الیکشن کے ڈرامے اور خون ریزی کے سلسلے کتنی ہی مہارت سے چلائے جائیں، بہرصورت کشمیر کی آگ بجھے گی اور نہ دلی کا آتش انتقام ختم ہو گا، بہتری اور بر تری اسی میں ہے کہ حالیہ الیکشن بائیکاٹ کا مفہوم اور پیغام سمجھ کر اسلام آباد، سری نگر اور دلی کشمیر حل کے لئے ایک ہی صفحہ پر آ نے کی مثبت اور ثمر بار کوشش کریں ۔
رابطہ[email protected]