اس وقت ہمارے معاشرےکی نوجوان نسل کی ایک خاصی تعداد میںمنشیات کی جو لت پڑچکی ہے، وہ ہر صاحب فکر کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے۔ سرکاری انتظامیہ کی طرف سے جاری کاروائیوں ، بعض فلاحی و دینی تنظیموںاور کچھ عوامی حلقوں کی طرف سے مختلف احتیاطی تدبیروں کے باوجود منشیات کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔چنانچہ مادیت پرستی کے ہوس نےجن لوگوںکا ضمیر مُردہ کر دیاہےاور انسانی شکل میں درندے بن گئے ہیں، وہ تواتر کے ساتھ منشیات کے زہریلا کاروبار کو پھیلا رہے ہیںاور دلکش شکلوںوخوشنما رنگوںمیں اس انسان دشمن زہریلے کاروبارکوفروغ دینے میں مصروف ِ عمل ہیںاورمعاشرے کی نوجوان نسل کو جسمانی واخلاقی ، اقتصادی ومعاشرتی اعتبار سے تباہ حال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے ہیں۔یہ بھی بتا جاتا ہے کہ یہ بے ضمیرلوگ خوردونوش کی مختلف چیزوںمیں مخفی طور پر نشہ آور مادے شامل کرکے نوجوانوں کو ان کا عادی بنا رہے ہیں ، پھر ان کو منشیات کا خوگر کردیتے ہیں۔ دراصل معاشرے میں منشیات کا استعمال عام ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگوں کےایمانی جذبات کمزور اور سرد پڑگئے ہیں،اُن میں اللہ کا خوف رخصت ہورہا ہے،جس کے نتیجے میں ایسےلوگ گناہوں کی طرف سر پٹ دوڑرہے
ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے ہنگاموں اور مشغولیات میں اب زیادہ تر والدین کو اپنی اولاد کی دینی واخلاقی تربیت کے لئے کوئی فرصت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اُنہیں اس بات کا احساس ہے کہ اُن کی اولاد کس انداز میں بے حیائی کی راہ پر جارہی ہے او رکس طرح منشیات کی لعنت میں مبتلا ہورہی ہے۔بے شک بیشتر نوجوان بے کاری اور بے روزگاری کے دلدل میںپھنس کر جب ذہنی تنائو میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو یہی تنائو اُنہیں بگاڑکی راہ پرلےجاتا ہے اور پھر وہ اُن بے ضمیر لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیںجو مادیت پرستی کی ہوس میں اپنے ناجائز ،غیر قانونی اور انسان دشمن دھندے چلاتے ہیں۔چنانچہ موجودہ حالات میں جب معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے اورہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ بے روزگاری کی حالت میں مایوسی ، نفسیاتی کرب اور اضطراب کا شکار ہے،تو یہی کرب و اضطراب بسا اوقات اُن میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے اور اُنہیں منشیات کے استعمال کے مہلک راستے پر لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں نشے کی لت کا ایک محرک، نشے باز ساتھیوں کی صحبت ورفاقت بھی ہے۔بغور دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں منشیات اور دیگر فواحش کے عام ہونے کی ایک اہم وجہ ہماری اندھی نقالی اور غلامی کا مزاج بھی ہے۔ معاشرے میںنوجوانوں کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو بگاڑ پھیلانے والوں کی طرف سے رائج نشہ آور گولیوں کے جھانسے میں آکر انہیںمقوی دواسمجھ کر استعمال کرلیتا ہے اورمنشیات کا زہر اپنے وجود میں اُتار لیتا ہے، پھر رفتہ رفتہ وہ اِن نشہ آور دوائوں کا عادی ہوجاتا ہے،جو انہیں بُر باد کرڈالتا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ بجا ہےکہ بے روزگاری کی وجہ سے آنے والے افلاس کی صورت حال انسان سے وہ سب کچھ کراسکتی ہے جو نہیں کرنا چاہئے،جبکہ مایوسی اور اضطراب کی کیفیات انسان کو منشیات کا عادی بھی بنادیتی ہے۔اس لئےنہ صرف یہاںکی موجودہ دو سطحی سرکار کے لئے لازم ہے کہ وہ بے روز گار ی کے دیرینہ مسئلے کو دور کرنےکے لئےٹھوس اقدام اٹھائے بلکہ یہاں کے عوام کو بھی چاہئے کہ وہ معاشرے سے بے روزگاری کے خاتمے کی مہم میں اپنا حصہ ڈالیں اور یہ یاد رکھیں کہ کسی بے روز گار کو روز گارفراہم کرنا ایک اعلیٰ درجے کا عمل ِ خیر اور گناہوں سے بچانے کا بابرکت کام بھی ہے۔ نوجوان نسل کو بھی یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ منشیات سمیت تمام بُرائیوں سے دور رہنے کا کارگر نسخہ یہ ہے وہ بُرے لوگوں کی ہم نشینی سے اجتناب کریںاور اچھے دیندار اور نیک افراد کے ساتھ رفاقت رکھیں۔ والدین کی بھی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیںاوراس کی نگرانی کریں،تاکہ وہ کسی طرح کےبگاڑ کا شکار نہ ہوجائےاور منشیات سے صاف و پاک رہے۔
! منشیات کے رواج کو ختم کیا جائے