فیاض احمد فیاض
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس وسیع کائینات میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مخلوقات کو وجود بخشا ہے،لیکن انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشااور اس رنگ برنگی دنیا کو انسان کے لئے کھیتی قرار دیا،البتہ یہ اختیار بھی انسان کو ہی دیا کہ وہ اِس کھیتی سے کیا کمائے،کیسے کمائے اور کس لئے کمائے گا۔ہاں! اتنا ہے کہ انسان کی کمائی پر ہی انسان کی کامیابی منحصر ہے ۔البتہ کامیابی کے لئے محنت درکار ہے کیونکہ محنت کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ جس نے کوشش کی ،اُس نے پایا،محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔ اس طرح کے کئی جملے روزمرہ کی زندگی میں ہمیں اسوقت سننے کو ملتے ہیں جب کوئی شخص کامیابی کے جھنڈے گارڈ دیتا ہے اور انسان کی عقل اس وقت حیرت میں پڑ جاتی ہے،جب وہ اللہ کی بنائی ہوئی وسیع وعریض کائنات کے اندر کسی انسانی تخلیقات کاچشم دید گواہ بن جاتا ہے۔اُن ہزاروں تخلیقاتی میدانوں میں ایک تخلیقی میدانِ ادب کابھی ہے۔ادب کا بنیادی مقصد خطے کی تہذیبی وثقافتی میراث کو زندہ رکھنا اور اُس کو دور دراز کے قارئین تک متعارف کرانا بھی ہوتا ہےاور ادب کی بہت ساری شاخوں میں ایک شاخ علم عروض ہے ۔علم عروض کے اصول، ضوابط و قواعد کو اپنا کر ہی ایک انسان شاعر کہلاتا ہے۔جبکہ کئی شعراء اس علم سے لاعلم ہونے کے باوجود بھی اعلیٰ پایہ کی شاعری کرتے ہیں جو انھیںGod giftہوتا ہے۔ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے تخلیق ِ خداوندی کے فطری حسن و جمال،انسان کے دلی جذبات واحساسات کی حسین ترجمانی کرکے اپنی فنی صلاحیتوں سے ایک ایسا شہکار وجود میں لاتا ہے،جو قارئین کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوکے انکے ذہنی وقلبی اطمینان کا باعث بنتا ہے، اور نئی نسل کے لئے تہذیبی وثقافتی سرمایہ بن کر محفوظ رہتا ہے۔ اسی طرح کا ایک شہکار کتابی شکل میں سال 2016 ءمیں ’’یتھ واو ہالے ژونگ کس زالے‘‘کے نام سے منظر عام پر آئی۔جس کے تخلیق کار وادئی چنابؔ کے معروف شاعر جناب منشور بانہالی ہیں۔ اس کتاب پر کشمیریوں کو ہی ناز و فخر حاصل نہیںبلکہ ملک کے ایک بڑے قومی سطح کے ادارے نے اس کتاب کا انتخاب کرکےساہتیہ اکیڈمی2023 کا ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔اس بڑے اعزاز کے لئے میں منشور صاحب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔یہ ایوارڈ اگر چہ بنام منشورؔ ہے۔لیکن اصل میں یہ ایوارڈ کشمیری زبان اورکشمیری قوم کو ملا ہے،صوبہ جموں میں رہنے اور کشمیری زبان بولنے والوں کو ملا ہے،بالخصوص وادی چناب کے بانہال خطے کو ملا ہے۔کشمیری زبان کی شاعری میں غالباً اتنی بڑی ضخیم کتاب جو 616صفحات پر مشتمل ہے،آج تک میسر نہ تھی۔اسلئے یہ کارنامہ بھی صاحب تصنیف کے حصے میں آیا ہے۔وادی کشمیر کے ادب نوازوں کو منشور بانہالی کے اس شعری مجموعے نے یہ بات سر خم تسلیم کرنے کو مجبور کردیا کہ وادئ چناب کے لوگ بھی کشمیری زبان لکھنے ،پڑھنے اور بولنے کے علاوہ ملکی سطح کے ایوارڈ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔البتہ ایک طرف اگر چہ ہم لوگ اس اعزاز سے پھولے نہیں سما رہے ہیں،لیکن دوسری طرف صوبہ جموںبالخصوص وادی چناب کے ادب نوازوں کے کندھوں پر مزید ذمہ داری عاید ہوتی ہےکہ وہ اپنی مادری زبان کی اشاعت و حفاظت میں سرعت لائیں، گھر گھر اور ہر اسکول میں مادری زبان کو رائج کروانے کی ہر ممکن کوشش کریںتاکہ ہماری لسانی تہذیب زندہ رہے اور مغرب کی لسانی تہذیب کی غلامی سے نجات پاکر ایک خوشحال امن پسند اور ترقی یافتہ قوم بن کر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
جہاں تک منشور صاحب کی شاعری کا تعلق ہے تو وہ لاجواب ہے۔ کیونکہ آپ کے اندر بےپناہ فنی صلاحیتں موجود ہیں۔ ایک مخصوص لب ولہجہ اور شیریں بیانی میں کوئی ثانی نہیں۔پُر کیف و پُرکشش الفاظ کی تراش خراش کے ساتھ ساتھ ماہر شکاری کی مانند سامعین سے داد وتحسین وصول کرنے میں بھرپور مہارت رکھتے ہیں۔ معروف شخصیت محمد یوسف ٹینگ ،صاحبِ کتاب کےمتعلق لکھتے ہیں کہ’’رس جاودانی کے بعد منشور کے پاس ہی شاعری کا وہ نوکیلا ہتھیار موجود ہے،جو قاری کے دل کو چب جاتا ہے’’یتھ واو ہالے ژونگ کُس زالے‘‘شاعرانہ تواریخ اور توانگری کا چناب جیسا ہے،جو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔اس سطح کی شاعری کوئی دیدور،سوخن شناس اور تمدُن نواز ہی انجام دے سکتا ہے۔‘‘آپ کا پہلا شعری مجموعہ’’فضاچھ نفلہ پران‘‘غالباً سن2000ء میں شایع ہوا۔جس میں اقبال کی نظم ’’خودی ‘‘کا کشمیری ترجمہ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتے ہوئےاپنے منفرد انداز میں نعرہ الست بلند کیا جو کشمیری زبان کی بے مثال نظم تصور کی جاتی ہے۔اس نظم کا ایک شعر ملاحظ فرمائیں۔
فضا چھ نفلہ پران لا الا الااللہ
سحر تہ ساعت ونان لا الا الاللہ
اس نظم نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ مقبولیت پائی۔اکثر ٹی وی اور ریڈیو کے علاوہ کشمیر کے اکثر مقامی فنکاروں نے اپنی جادو بھری اور سُریلی آواز سے لاکھوں دلوں کی بے چین دھڑکنوں کے لئے راحت جان بن گئی اوراسی نظم سے عبدلغنی گیری مشہور ہوکر منشور بن گئے۔آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ’’یتھ واو ہالے ژونگ کُس زالے‘‘سن2016ء میں منظر عام پر آئی ،جو لگ بھگ کشمیری زبان کی شاعری میں اب تک کی سب سے بڑی کتاب ہے۔یہی وہ شاہکار کتاب ہے جسکو سال 2023 کے ساہتہ اکیڈمی کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی کتاب کی غزل کے ایک شعر میں صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ
مژرنہ چھ یوان رحمتک درواز یم ساتن
بدلان چھ حیاتک سآری انداز تمہ ساتن
اسکے علاوہ رابندر ناتھ ٹیگور کی نوبل انعام یافتہ کتاب گیتانجلی کا کشمیری منظوم ترجمعہ ’’نغمہ نظرانہ‘‘ کے نام سے شایع ہوئی ہے ۔جبکہ ’’فرش رقص‘‘اور نعت سومبرن’’ نورانہ‘‘ کے علاوہ بھی دیگر کئی اہم تواریخی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ،جن میں ’’جوم صوبس منز کاشر زبان و ادبک تواریخ‘‘،’’طاوس بانہالی حیات تہ ادبی خدمات‘‘،’’بانہال گیٹ وے آف کشمیر تواریخ بانہال‘‘،’’تحسین جعفری و شہباز راجوری پر مونوگراف‘‘احمد بٹواؔری اور غلام نبی فراق پر کتابوں کے علاوہ اسوقت بھی ایک تنقیدی کتاب ’’اخترستان ‘‘زیر طباعت ہے۔
’’یتھ واو ہالے ژونگ کُس زالے‘‘یہ شعری مجموعہ صاحب تصنیف کاکشمیری قوم کے لئےایک یادگار تحفہ ہے۔ اس کتاب کو کئی حصوں میں بانٹ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ جس میں کئی نئے صنف کا اضافہ کر کےسانیٹ،ہایئکو،اور پنجابی ماہیا سہ حرفی کا تجربہ بھی نہایت ہی دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
منشورؔ بانہالی کی حلاوت و چاشنی سے بھرپور شاعری محبوب اور محبوبہ،عاشق و معشوق کے عشق و محبت کے اردگرد ہی نہیں گھومتی بلکہ اسمیں آپ زماں ومکاں سے آزاد ایک آفاقی پیغام دے رہے ہیں۔آپ اپنی شاعری میں نازک استعاراتی نظام اور تشبیہ گری استعمال کرکے اپنے کلام میں حساس سماجی صداقتوں سے پردہ اٹھا رہے ہیںاورحقیقی معنوں میں ادبی سماج کی ترجمانی کر رہے ہیں۔اسیر کشتواڑی اپنی کتاب ’’کشیر تہ جیمس منز کاشر زبان وادب تواریخ تہ تنقید‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں۔’’منشور کی غزلوں میں رومانی اور جمالیاتی پہلو بہت زیادہ دلکش ہے۔جن میں رُسل میر اور رسا جاودانی جیسا عشق اور رنگ موجود ہے۔‘‘
منشور بانہالی ایک باشعور عقیدت مند کے علاوہ گہرا مطالعہ بھی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی ذہنی اور فنی صلاحیتوں ایسے مثالی نظارے پیش کر رہے ہیں کہ کسی بھی سنگدل انسان کو پگلنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔آپ کی تواریخی شاعری کئی مشاہدات،حادثات،واقعات اور لافانی شخصیتوں کا مجموعہ کلام ہے۔ خواہ وہ ہمارے ولی اللہ ہوں یا درویش۔ نامساعد حالات کا پر آشوب دور ہوںیا دنیا کی بے ثباتی اور انسانیت سازی کا پیغام ہو، ادیبوں اور فلسفیوں کی عقیدت ہو یا رومانیت کی بھرپور عکاسی،دارالفنا کی رنگینیوں کا حسن و جمال ہو یا پھر دارالبقا کی منظر کشی۔الغرض آپ نہ تو توحیدی شاعر ہیں نہ رومانوی بلکہ آپ نے قلم کی جنبش سے یہ بات ثابت کردی کہ منشور ہر رنگ کا شاعر ہے۔
آپ کا اصلی نام عبدلالغنی گیری اور منشور تخلص ہے۔آپ بانہال کے بنکوٹ گاوں میں پیدا ہوئے۔ پیشے سے سرکاری استاد تعینات ہو کرپرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ پیدائش سے تا ایں دم مادر وطن میں ہی مقیم حال رہ کر مادری زبان کو پالنا انکی اونچی شخصیت کا ثبوت ہے۔آپ ایک ماہر استاد،عظیم قلمکار،ترجمہ کار،ادیب اور مصنف ہیں۔ سن1972ء میں کاشر بزم ادب کی بنیاد رکھی اور نو آموز قلمکاروں کے جذبات ابھارنے میں کامیاب ہوئے تو سن1979ء میں تنظیم کی رجسٹریشن کرکے کاشر ادبی مرکز بانہال کے نام سے تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا گیا اور کارواں چلتا گیا جبکہ ’’گلاب‘‘ کے نام سے تنظیم کا آفیشل رسالہ بھی شایع ہوتارہا۔اس کاشر ادبی مرکز بانہال کے بنیادی ممبران میں حسن بانہالی،دلفگار بانہالی،شیدا بانہالی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں،جبکہ منشور بانہالی اس تنظیم کے روح رواں رہے ہیں۔جن کے بارے میں مرحوم ڈاکٹر عزیز حاجنی کہتے ہیں کہ منشور پیدائشی شاعر ہے ۔جبکہ پروفیسر ڈاکٹر شادرمضان لکھتے ہیں کہ منشور صوبہ جموں کے شاعری کاروان کی ایک ایسی آواز ہے۔جس نے بہت کم وقت میں اپنا منفرد شاعرانہ وجود تعمیر کیا۔ارشاد علی ارشاد آپ کی شخصیت کو اپنی ایک نظم میں قلمبند کرتے ہوےلکھتے ہیں کہ:
اکھ مار موند احساس اکھ ڈکھ تہِ اکھ ارداس
سر تا بہ پا اتہاس سُے ناو گو منشور
بہر حال منشورصاحب پر لکھنے کے لئے اخبار کے کالم نہیں بلکہ ایک ضخیم کتاب درکار ہے،کیونکہ یہ وادئ چناب کا ایک روشن ستارہ ہیں۔
رابطہ ۔ بانہال، رام بن ،جموں