رمیش کیسر
نوشہرہ // قدرت کی خوبصورت عطاؤں میں شامل منار دریا، جو راجوری سے نکل کر نوشہرہ کے بیری پتن سے گزرتا ہوا پاکستان کی طرف بہتا ہے، اس وقت شدید آلودگی کا شکار ہو چکا ہے۔ کبھی یہ دریا اپنی شفافیت، ٹھنڈے میٹھے پانی اور خوبصورتی کے لئے مشہور تھا، مگر آج یہی پانی انسانوں اور جانوروں کے لئے خطرناک بنتا جا رہا ہے۔منار دریا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا پانی پیر پنجال کے پہاڑوں میں واقع قدرتی چشموں، آبشاروں، جھیلوں اور باولیوں سے نکل کر آتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں اس دریا کا پانی سردی اور گرمی، دونوں موسموں میں لوگ بلا جھجک پیا کرتے تھے۔ تقریباً 10 سے 15 سال قبل تک دریا کے کنارے گاؤں کے لوگ گرمیوں کے دو مہینے اپنے مال مویشیوں کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔ یہ دریا ان کے لئے نہ صرف پانی کا ذریعہ تھا بلکہ فطرت کے قریب رہنے کا سہارا بھی تاہم وقت کے ساتھ ساتھ منار دریا کی فطری خوبصورتی اور شفافیت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ راجوری سے نوشہرہ تک دریا کے کناروں پر بے شمار اسٹون کریشر، تارکول تیار کرنے والی مشینیں اور غیر قانونی کان کنی کے مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ ان سرگرمیوں نے دریا کے پانی کو اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ اب نہ یہ جانوروں کے پینے کے قابل رہا ہے اور نہ ہی انسانوں کے لئے محفوظ ہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دریا کے بیچوں بیچ جے سی بی مشینوں کے ذریعے مٹی اور ریت نکالنے سے گہرے گڈھے بن چکے ہیں۔ حالیہ چار ماہ کی بارشوں اور شدید سیلابوں کے باوجود یہ گڈھے پْر نہیں ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دریا کی فطری ساخت بْری طرح متاثر ہو چکی ہے۔اس کے ساتھ ہی نوشہرہ قصبے کا فضلہ بھی کئی سالوں تک اسی دریا میں پھینکا جاتا رہا، جس سے آلودگی مزید بڑھ گئی۔ مقامی شہریوں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے متعدد بار احتجاج کے بعد نوشہرہ میونسپل کمیٹی نے ایک ڈمپنگ سسٹم تیار کیا ہے تاکہ شہر کا فضلہ دریا میں جانے کے بجائے کسی محفوظ مقام پر پھینکا جا سکے۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور انتظامیہ نے فوری طور پر کوئی موثر حکمتِ عملی نہیں اپنائی، تو منور دریا کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔ دریا کے کناروں پر جاری ناجائز کان کنی، کریشر پلانٹس اور صنعتی فضلے کے خلاف سخت کارروائی نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں یہ دریا صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ جائے گا۔منار دریا، جو کبھی قدرت کی نعمت اور حیات کی علامت تھا، اب ماحولیاتی بدانتظامی، انسانی لالچ اور بے توجہی کے باعث اپنی شناخت کھو رہا ہے اور اگر یہی روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہ دریا صرف یادوں میں باقی رہ جائے گا۔