عبدالحلیم منصور
ملک میں آوارہ کتوں کا مسئلہ ایک خطرناک سماجی، صحتِ عامہ اور قانونی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ محض سڑکوں پر بھٹکنے والے جانوروں کا معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسے انسانی المیے کا استعارہ بن گیا ہے جس میں خوف، بربریت، بے بسی اور حکومتی غفلت ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد چھ کروڑ سے زائد ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کتوں کی بے لگام افزائش، ناقص بلدیاتی نظم و نسق اور غیر مؤثر حکومتی پالیسیوں نے ملک کے گلی کوچوں کو خوف و دہشت کا منظر بنا دیا ہے۔ہندوستان میں ہر سال تقریباً پچاس لاکھ افراد کتے کے کاٹنے کے واقعات کا شکار ہوتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں ریبیز سے ہونے والی اموات کا 36 فیصد حصہ صرف ہندوستان میں ہوتا ہے جو زیادہ تر آوارہ کتوں کے کاٹنے کے بعد ویکسین نہ ملنے یا بروقت علاج نہ ہونے کے باعث ہوتا ہے۔ اندازوں کے مطابق ریبیز سے سالانہ 18 سے 20 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیںجب کہ پچاس سے ساٹھ لاکھ لوگ ہر سال کتوں کے کاٹنے سے متاثر ہوتے ہیں — جن میں سب سے زیادہ متاثر بچے ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ملک کے صحت عامہ کے نظام پر سنگین سوال کھڑا کرتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار کسی رپورٹ کی سطریں نہیں بلکہ لاکھوں گھروں کے المیے ہیں۔ اتر پردیش، مہاراشٹر، تامل ناڈو، کیرالا، کرناٹک اور جموں و کشمیر جیسی ریاستوں میں آئے دن کتوں کے حملوں سے ہونے والی اموات عوامی غم و غصے کو بھڑکا چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں بچوں پر حملوں کے مناظر اس خوف کی شدت کو عیاں کرتے ہیں جس میں شہری زندگی بسر کر رہے ہیں۔
عدالت ِ عظمیٰ نے حالیہ دنوں میں اس مسئلے پر سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ اسکولوں، اسپتالوں، ریلوے اسٹیشنوں، بس اسٹینڈز اور دیگر حساس مقامات سے آوارہ کتوں کو ہٹایا جائے اور انہیں مناسب شیلٹرز میں رکھا جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ کسی بھی کتے کو غیر انسانی طریقے سے مارنا یا زخمی کرنا قانوناً جرم ہے، البتہ عوامی تحفظ اور جانوں کی سلامتی کو مقدم رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اس عدالتی ہدایت نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف عوام خوف اور غصے کے عالم میں فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب حیوانات کے حقوق کی تنظیمیں اس بات پر اصرار کر رہی ہیں کہ کتوں کے حقوق اور ان کی فلاح کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ یہ تضاد ملک کے سماجی رویّوں، اخلاقی الجھنوں اور حکومتی ناکامیوں کا عکس بن گیا ہے۔آوارہ کتوں کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ شہری بے ترتیبی اور بلدیاتی ناکامی ہے۔ شہروں میں کچرے کے انبار، کھلے ڈمپس اور غیر منظم صفائی کا نظام ان جانوروں کے لیے خوراک اور افزائش کا آسان ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف عوام کا رویّہ — کبھی رحم دلی کے نام پر سڑکوں پر فیڈنگ تو کبھی پالتو کتوں کی لاپرواہ افزائش — مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جہاں انسان خود اپنے شہر میں غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ دہلی، بنگلورو، ناگپور، حیدرآباد اور جموںو کشمیر جیسے شہروں میں حالیہ برسوں میں سینکڑوں سنگین واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے باوجود، حکومتی ردِعمل سست اور غیر مربوط ہے۔ کہیں وقتی مہم چلائی جاتی ہے، تو کہیں ناقص انتظامات کیے جاتے ہیں، مگر طویل المدتی حل کہیں نظر نہیں آتا۔
حکومت نے 2001 میں Animal Birth Control (Dogs) Rules نافذ کئے، جن کے تحت کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے نس بندی (Sterilization) اور ویکسینیشن کو لازمی قرار دیا گیا۔ لیکن ان پروگراموں کا دائرہ محدود، بجٹ کم اور عملدرآمد غیر مؤثر رہا۔ متعدد ریاستوں میں نس بندی کی شرح 30 فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق کم از کم 70 فیصد کتوں کی نس بندی کے بغیر آبادی میں کمی ممکن نہیں۔کئی ریاستوں نے بلدیاتی سطح پر این جی اوز کے اشتراک سے مہمات شروع کیں، مگر فنڈز کی کمی، افرادی قلت اور بدعنوانی کے سبب ان کا اثر معمولی رہا۔ متعدد شہروں میں شیلٹرز قائم کئے گئے مگر ان کی حالت ِ زار اس قدر خراب ہے کہ وہاں جانوروں کے بجائے بدبو، گندگی اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آوارہ کتوں کی وجہ سے نہ صرف جسمانی حملے بلکہ ذہنی خوف اور نفسیاتی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اکیلے اسکول بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں اور کئی جگہوں پر کتوں کے حملوں سے ہونے والی اموات نے عوامی غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر روزانہ درجنوں ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن میں آوارہ کتے معصوم بچوں، بوڑھوں یا راہ گیروں پر حملہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس تمام صورتحال کے باوجود حکومتی رویّہ بے حسی پر مبنی ہے۔ بیشتر ریاستی حکومتیں اس مسئلے کو وقتی ردعمل سے آگے نہیں لے جا سکیں۔ کوئی طویل المدتی قومی پالیسی، واضح ہدف یا جامع نگرانی کا نظام موجود نہیں۔ ریبیز کے خلاف ویکسین کئی اضلاع میں یا تو ختم ہو چکی ہوتی ہے یا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔
حیوانات کے حقوق کے کارکنوں کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت نے صحیح معنوں میں شیلٹر سسٹم، ویکسینیشن اور عوامی آگاہی مہمات چلائیں تو نہ انسانوں کو نقصان پہنچے گا، نہ جانوروں کو مارنے کی نوبت آئے گی۔ لیکن جب تک انتظامیہ کچرے کے ڈھیر ختم نہیں کرتی، بلدیاتی صفائی کا نظام مؤثر نہیں بناتی اور پالتو کتوں کی افزائش پر قابو نہیں پاتی، اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔یہ بحران دراصل قانون، سماج اور اخلاقیات کے درمیان ایک کشمکش بن گیا ہے۔ ایک طرف انسانی زندگیوں کا تحفظ ہے تو دوسری طرف جانوروں کے حقوق کی پاسداری۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری — شہریوں کی سلامتی — ہی ادا نہیں کر پاتی تو قانون کی معنویت باقی کیسے رہتی ہے؟
حل کے طور پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ ہندوستان کو ایک مربوط قومی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی — ایسی حکمتِ عملی جس میں بڑے پیمانے پر نس بندی و ویکسینیشن مہمات، شیلٹرز کے قیام، مقامی کمیونٹی کی شمولیت اور عوامی تعلیم شامل ہو۔ شہری علاقوں میں فیڈنگ زونز کو منظم کیا جائے تاکہ کچرا اور خوراک ایک جگہ مرکوز ہو اور کتے سڑکوں پر نہ بھٹکیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی حکومتوں کو عدالتی ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا — نہ محض کتے مارنے کے ذریعے بلکہ انسانی اور سائنسی بنیادوں پر ان کی تعداد کو قابو کرنے کے ذریعے۔آخرکار آوارہ کتوں کا مسئلہ صرف کتوں کا نہیں بلکہ ایک ایسا سماجی آئینہ ہے جو ہماری شہری بے ترتیبی، حکومتی غفلت اور انسانی رویّوں کی سچائی کو بے نقاب کرتا ہے۔ اگر ہم ایک مہذب، محفوظ اور انسانی معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے شہروں کو نہ صرف صاف بلکہ ذمہ دار بھی بنانا ہوگا — جہاں انسان اور جانور دونوں کے جینے کا حق محفوظ ہو۔ جب سڑک پر چلنے والا انسان خود کو غیر محفوظ سمجھےتو یہ کسی ملک کی ترقی نہیں بلکہ اس کے ضمیر کی شکست ہوتی ہے۔
رابطہ۔[email protected]