سرکاری وغیر سرکاری محکمہ جات اور عام صارفین سے 50کروڑ کی وصولیابی کا سرکیولر جاری
سرینگر //سرکاری وغیر سرکاری محکمہ جات اور عام صارفین سے پانی کی بلیں وصول کرنے کیلئے محکمہ پی ایچ ای نے وادی بھر میں ٹیموں کو تشکیل دیا ہے تاکہ برسوں سے واجب الادا پانی کی بلوں کا 50کروڑ روپیہ حاصل کیا جا سکے ۔ معلوم ہوا ہے کہ محکمہ پی ایچ ای نے پہلے اپنے محکمہ جات کیلئے ایک سرکیولر جاری کیا جس کی رو سے پی ایچ ای ملازمین سے لیکر افسران تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ دسمبر کی تنخواہ تب تک واگزار نہیں کی جائے گی جب تک وہ این او سی نہیں لاتے۔ذرائع کے مطابق محکمہ کا جو بھی ملازم بل ادا نہیں کرے گا اُس کی تنخواہ واگزار نہیں کی جائے گی ۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ پی ایچ ای کو سرکار کی جانب سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب تک محکمہ پی ایچ ای لوگوں سے واجب الادا بلوں کے پیسے وصول نہیں کرتا تب تک محکمہ کے عارضی ملازمین کی تنخواہ وقت پر واگزار نہیں ہو سکتی۔ معلوم ہوا ہے کہ اس فیصلے کے بعد محکمہ نے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کرتے ہوئے وادی بھر کیلئے ٹیموں کو تشکیل دیا ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ وادی بھر میں پانی کا استعمال کرنے والے سرکاری وغیر سرکاری محکمہ جات ،عام صارفین ، تاجروں اور فیکٹروں کے مالکان کے علاوہ دیگر صارفین کے پاس محکمہ کے قریب 50 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ہر ایک پی ایچ ای ڈویژن میں ضلع، تحصیل اور زونل سطح پر لوگوں کے گھروں میں جا کر انہیں یہ بلیں دیں جائیگی اور اُن سے رقومات حاصل کی جائیں گی ۔ جو لوگ غیر قانونی طور پر پانی کا استعمال کرتے ہیں اُن کے ایگریمنٹ بھی موقعہ پر کئے جائیں گے ۔محکمہ پی ایچ ای کے چیف انجینئر عبدالواحد نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ نے سرینگر کیلئے پانچ ٹیموں کو تشکیل دیا ہے جبکہ ضلع صدر مقامات اور تحصیل سطح پر بھی ٹیموں کو تیار کیا گیاہے کہ وہ گھر گھر جا کر ایک تو پانی کی فیس وصول کریں اور ساتھ میں جہاں اگریمنٹ نہیں ہوگا وہاں اگریمنٹ بھی کیا جائے۔انہوں نے تمام محکمہ جات اور لوگوں سے اس حوالے سے تعاون کی اپیل کی ہے ۔ چیف انجینئر نے کہا کہ محکمہ کا قریب 50کروڑروپے پچھلے کئی برسوں سے لوگوں اور دیگر محکمہ جات کے پاس ہے ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ اگلے ایک ماہ تک بلوں کو ڈیجیٹلائز کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو آن لائن پانی کی بلیں بھرنے میں آسانی ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے بلیں لینے کی شروعات پہلے اپنے محکمہ سے کی ہے اور آگے بڑے بڑے سرکاری اداروں اور دیگر محکمہ جات کے ملازمین سے بھی این او سی مانگی جائے گی ۔