۲۰۱۶؍ کی سروے کے مطابق یورپ کی کل آبادی کا قریباً ۵؍ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یورپ کی کل آبادی ۷۴؍ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس حساب سے مسلمانوںکی کل تعداد زائد از ۶؍ کروڑ بنتی ہے۔ ان ممالک میں مسلمان سب سے زیادہ فرانس میں بحیثیت ایک اقلیت رہ بس رہے ہیں۔ یہاں کلمہ خوان تقریباً ۵؍ ملین نفوس پر مشتمل ہیں، یعنی ملک کی کل آبادی کے تقریباً ۹؍ فیصد مسلم ہیں۔ حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں امن و امان نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اپنے ممالک سے خروج کر ر ہے ہیں، مسلم آبادی کا یہ معتدبہ حصہ یورپی ملکوں میں سیاسی پناہ لیتا جارہا ہے ۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کے لیے یورپ میں بھی حالات کچھ زیادہ ہی ناموافق ہو چکے ہیں، کیونکہ مسلمانوں کی آمد نے یورپ کو حفاظتی اور آبادیاتی زاویۂ نگاہ سے خدشات اور تذ بذب میں ڈال دیا ہے ۔ ایک مغربی تھنک ٹینک Pew Research Centre نامی ادارے کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اگر بالفرض مسلم پناہ گزینوں کی یورپ میں آمد صفر فی صد تک بھی روک لی جائے ، تب بھی مسلمانوں کی یورپ میں مجموعی آبادی بڑھ کر موجودہ آنکڑوں کو پار کر کے ۲۰۵۰ ء میں ۸؍ فیصدی تک جا پہنچنے کی اُمید ہے۔ اس کی و جو ہات میں مغربی دنیا میں لوگوں کی ایک کثیر تعدادکا مسلمانوں کے متوازن خاندانی نظام اور شرعی زندگی کی جاذبیت وغیرہ دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہونا بھی شامل ہے۔ اس بارے میں تحقیقی سروے بتار ہے ہیں کہ یورپ کی مجموعی آبادی گھٹ رہی ہے اور اس صورت میں بھی مسلمانوں کے پھلنے پھولنے کے امکانات قوی نظر آتے ہیں۔
یورپ میں بود وباش رکھنے والی مسلم آبادی کا ایک حصہ پیدائشی مسلمانوں پر مشتمل ہے ، کچھ غیر یورپین مسلمان ہیںجو دیگر ملکوں سے یہاں رہ بس کر شہریت حاصل کر چکے ہیں اور کچھ نو مسلم ہیں ۔ یورپین مسلمانوں میں بعض لوگ اپنی مسلم شناخت گھر کی چار دیواری اور ذاتی معاملات تک محدود رکھتے ہیں، مگرکچھ لوگ اپنے مذہبی پہچان کو فخراً اپنی سماجی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ البتہ مسلم اقلیت کا یورپی معیشت میں بھی کافی بڑا حصہ ہے۔ غور طلب ہے کہ یورپی اور امریکن آئین ہر شہری کومذہبی آزادی ، بنیادی حقوق اورمساوات کا حق اور ضمانت دیتے ہیں لیکن یہ امرروز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مابعد ۹؍۱۱ مغربی ممالک میں جمہوری اصولوں کے منافی مسلمانوں کا قافیہ حیات مختلف بہانوں سے تنگ کیا جارہاہے۔ علی الخصوص مغرب کی سیاسی قیادت کو کھٹکا لگاہے کہ مسلمان اگر دین رحمت کے سائے تلے جمع ہوئے تو اُن کی خیر نہیں ۔ اسی لئے عالمی میڈیا میں منظم سازش کے تحت مسلمانوں کے خلاف زہر افشائی اور کردار کشی کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں چھوڑ ی جارہی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اور سازشی عناصر وقتاً فوقتاً اپنے کذب بیان میڈیا کے ذر یعے دہشت پسندانہ حرکات اور جرائم کے لئے مسلمانوں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں اور یہ سفید جھوٹ سننے اور دیکھنے والے غیر مسلم اس منفی پروپگنڈے کوعین الیقین کا درجہ دیتے ہیں ۔یوں مسلمانوںکے نجی ، مذہبی اور سیاسی حقو ق پر شب خون مارنے کے حیلے بہانے ہی نہیں آزمائے جاتے ہیں بلکہ دنیا ئے انسانیت کے سامنے اسلام کی غلط شبیہ پیش کردی جاتی ہے کہ اصل حقائق دب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ فرانس اور بیلجم میں حجاب پر پابندی ، سوئزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر قدغن، ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں اسلام دشمنی کی لہر ، اذان بلند کر نے پر مسلمانوں کی ہراسانیاںوغیرہ اسی مہیب داستان کے مختلف روپ ہیں ۔ ان وجوہ کی بنا پر دیار ِ مغرب میں مسلم اقلیت کو طرح طرح کے مسائل اور چلنج درپیش ہیں :
مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے لیے سب سے پہلا مسئلہ یابڑا چلنچ اپنی مذہبی پہچان اورثقافتی شناخت کو قائم رکھنا ہے۔ جہاں ہرسو عریانی ، فحاشی ، لادینیت، خدابیزاری، مادیت کا دور دورہ اور زر پرستی کا غلبہ ہو، وہاں اپنے دینی تشخص کو بچائے رکھنا کارے درد والا معاملہ ہونا ظاہر سی بات ہے۔ ان نازک حالات کی زد میں انسان کے ایمان و اعتقاد پر براہ راست پڑنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ ایک مسلمان اگرا پنے خود کا تشخص برقرار رکھ نہ پائے تو اس کا بُرا اثر بچوں سمیت پورے خاندان پر پڑنا فطری بات ہے۔ اس سلسلے میں مغرب میں رہ رہے والدین کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں ۔ اس چلنج کوقبول کر تے ہوئے ایک مسلمان کو دین سے چمٹے رہنے میں دارین کا اجر وثواب کمانے کے کئی مواقع میسر رہتے ہیں مگر یہ لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ بہر صورت اپنے گرد وپیش ناموافق حالات میں بھی اپنا تشخص ، دین داری، نیک نیتی، امانت داری، سنت نبویﷺ کی پیروی کرنا ، بالفاظ دیگر بہ حیثیت مجموعی مسلمانانہ زندگی جینا اور اپنے بہترین کنڈکٹ سے دوسروں کو دعوتِ دین دینا بڑے اجروثواب کا کام ہے۔ بات صاف ہے جہاں کہیں غیر مسلم اکثریت یا اقلیت میںرہ رہے ہوں، وہاں مسلمان کا معاملات میں کھرااُترنا اس کی دعوت وشخصیت کا تعارف بنتا ہے۔ اس سلسلے میں بتاتاچلوں کہ مغربی ممالک میں ناموافق کلچر کے باوجود اللہ کے نیک اور صالح بندے لوگوں کو اسلام کی طرف پورے خلوص ومحبت سے طرف بلا تے رہے اور اب بھی یہ کام کئے جارہے ہیںْ یہ انہی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ ان ملکوں اور قوموں میں بہت سارے لوگ مشرف بہ اسلام ہو بھی چکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں ۔ بنابریں اسلام دشمن قوتوں کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود عالم دنیا میں سب سے بڑی تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔
دیارِمغرب میں رہ رہے مسلم اقلیت کا دوسرابڑا مسئلہ اسلام کے خلاف رات دن عالمی میڈیا کا منفی پروپیگنڈا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 9/11 کے بعد مسلمان بحیثیت مجموعی اس چیز کا بارہا مشاہد ہ کر تے جارہے ہیں کہ محض اسلامی نام ، مسلمانی وضع قطع اور مخصوص تراش خراش والالباس زیب تن کر نے پر اغیار انہیں شک وشبہ کی نظرسے دیکھتے ہیں بلکہ کہیں کہیں مسلمانوں سے ڈیل کر تے ہوئے غیر مسلم حکام کی روشِ کار اور نیتیں تک یکسر بدل جاتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے یورپ میں کوئی کوئی باپردہ مسلم عورت کسی پبلک مقام پر ہو تواسے مشکوک نظروں سے دیکھاجاتا ہے اور جو کوئی اسلا می شعائر پر عامل ہو، ناواقف لوگ اس سے طرح طرح کے اُلٹے سیدھے سوالات کرتے ہیں جو ان کی تذلیل کے متراف ہوتا ہے، چناں چہ ہوائی اڈے پر کوئی داڑھی والامسلم نوجوان ہو با حجاب عورت ہو تواس کی جامہ تلاشی میں پولیس وغیرہ کاکچھ زیادہ انہماک دکھانا اسی منفی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ لہٰذاجو مغرب آزادیٔ اظہار اور آزادی ٔافکارکا دَم بھرتے تھکتا نہیں، وہاں جب مسلمانوںکے وجود کے گرد ہی شک ا ورسوال کا دائرہ کھینچا جائے تومسلم اقلیت کی زندگی میں نفسیاتی مسائل پیدا ہونا ظاہر سی بات ہے، بایں ہمہ یہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان کا دل گردہ ہے کہ وہ ان پیچیدہ حالات میں بھی اپنے دین و ایمان کے ساتھ زندہ رہنے کی جرأتِ رندانہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔
مسلمانانِ مغرب کا تیسرا بڑا چلنج اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے برادرانِ وطن سے زندگی کی دوڑ میںپیچھے نہ رہیں۔ ا س لئے وہ ہمیشہ ا سی فکر اور سوچ میں گھلے رہتے ہیں کہ یہ چاہے تعلیم و تربیت ہو ، معیشت وسیاست ہو یا دیگر معاملات ِ زندگی ، ہر شعبے میں ان کی مجموعی کار کردگی امتیازی شان کی حامل ہو۔ اس مثبت سوچ کے بے شمار فوائد میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے زندگی کے عام دھارے سے الگ تھلگ نہیں پڑتے اور اپنے ہم وطنوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتے ہیں۔ پورپین مسلمانوںکااوروں کے ساتھ قریبی مراسم رکھنا، تجارتی لین دین میں اصول پسندی بر تنا اور بقدر ضرورت سب کے دُکھ درد میں شرکت کرنا وہ آزمودہ طریقے ہیں جن سے اپنے بنیادی تشخص پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر یہ لوگ جئے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی اگر بالفرض یہ اقلیتی طبقہ اپنے وطن کی ترقی و فلاح میں شریک ہونے سے لا تعلق ر ہے تو اس کے لیے مغرب میں زندہ رہناممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ مسلمان کے لئے وطن کی محبت اوروں سے عناد یا نفرت کا باعث نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے معاملہ ع
مسلم ہے ہم وطن ہے سار اجہاں ہمارا
والا ہوتا ہے ۔ مغرب میں یہی طریق عمل اپنا نے سے مسلمانوں کو خود اسلا م پر عامل رہنے کا موقع ملتا ہے اور دین حق کی تبلیغ وتشہیرکے مواقع فراہم ہوتے ہیں ۔باوجودیکہ مغرب میں مسلم اقلیت سماجی ، ثقافتی ، سیاسی ، معاشی ،مذہبی شعبوں میں کئی اور طرح کے مسئلوں کے گرداب میں الجھی رہتی ہے مگرا س کے باوجود اسے کثیر الثقافت اور کثیر التمدن ہم وطن غیر مسلمین میں دعوت و تبلیغ کا کام کرنے میںکوئی دقت در پیش نہیں۔ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف فی الوقت تعصب وتنفر کا کتنا بھی زہر دلوں میں پایا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر چارہ بھی نہیں کہ مسلمانوں کو اپنے آبائی ممالک میںا تنی حریتِ فکر اور حق ِحیات میسر ہی نہیں جتنا کہ مادر پدر آزاد تہذیب کے حامل اور اخلاقی بحرانوں و روحانی ناآسودگیوں والے مغرب میں مذہبی اور معاشرتی معاملات میں کلمہ خوان انجوائے کرتے ہیں۔ اس فضا کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھ کرشیش گہہ ٔ مغرب کے کلمہ خوان باسیوں کو اظہار تشکر کے طور ان ممالک میں جمہوری آزادیوں اور ملکی قوانین کی حرمت برقرار رکھتے ہوئے اپنے ہم وطن غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچاننے اور صلیبی جنگوں کے زمانے سے لے کر آج تک عام مغربیوں کی اُ ن تمام بے اصل غلط فہمیاں کا ازالہ کر نا چاہیے جو انہیں مسلمانوں کے تئیں خدا واسطے بیر میں جکڑ چکی ہیں ۔ مغرب میں رہ رہے مسلمانوں پر خودا پنے دنیوی اور اُخروی مفاد میںفرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قران و سنت کے پیش کردہ نظام کے چلتے پھرتے سفیر بن کر تہذیبِ مغرب کی کھوکھلاہٹ سے تنگ امن ،آشتی اور رُوحانی طمانیت کے متلاشیان ِ غرب تک اسلام کی پیغام رسانی کے لئے تمام تر جدید پیرائے بروئے کار لائیں ۔ ایسا کیا گیا تو بعید نہیں کہ عنقریب مغرب سے لاالہٰ الا اللہ کی صد ا ئیں چہار سُو بلند ہوں۔