ڈاکٹر فلک فیروز
نگاہ شوق اگر دل کی ترجماں ہو جائے
تو ذرہ ذرہ محبت کا راز داں ہو جائے
لبادہ اوڑھنا اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے ،جس کے معنی ہے چولہ پہننا یا لباس زیب تن کرنا ۔عمومی سطحوں پر ہو ،فرد اچھا سے اچھا لباس زیب تن کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی شخصیت پُرکشش لگے عین مطابق اگر ہم اپنی ترجیحات کو ایک پوشاک کی مانند اپنی ذات ،اپنے وجود پر زیب تن کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بہت سے امکانات پیدا ہوجائیںگے، ہماری کامیابی کے جس کے معنی ،اہداف اورنتایج اپنی اپنی الگ ترجیحات پر مشتمل ہیں۔حالانکہ یہ عمل انتہائی تجریدی اور نفسیاتی سطح کا ہے ۔ترجیحات کی عام لفظوں میں تعریف یوں بیان کی جاتی ہے ۔
Focusing on yourself means establishing a relationship with yourself that’s as caring and attentive ,….. By focusing on yourself, you acknowledge and address your mental, emotional, and physical needs consistently. You make a commitment to understand what makes you thrive and what you need to live your best life. It’s an essential aspect of self-care.”
تجربہ گاہ سے مراد ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر مختلف نوعیت کے علومِ کو عملی سطح پر سیکھ لیا جاتا ہے۔اس سیکھنے کے اصول و ضوابط کے مطابق ان تمام چیزوں کو اولین ترجیح پر تحقیق کے دفتر سے ہٹایا جاتا ہے جو اس کے کام کے متعلق فایدہ مند ثابت نہیں ہوتیں اور جن کی موجودگی نتائج پر منفی اعتبار سے اثر انداز ہوسکتی ہے ۔تب جاکر کے تحقیق کا کام سرانجام دیا جاتا ہے ۔اگر اس مشاہبت کی مانند انسانی زندگی،اپنی انفرادی ذات کو پرکھا جایے تو ہمیں پورا یقین ہوگا کہ ہمیں بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا تاکہ اپنا تعارف ،اپنے تیں معلومات کی جانکاری حاصل ہو سکے ،اعلاوا برین یہ بھی جانا جاسکے کہ اپنے حصے کی مجموعی اہداف تک پہنچ جانے والی منزلیں اپنے حیاتی وقت میں کیسے عبور کی جاسکتی ہیں ۔اپنی ترجیحات کا مکمل کنٹرول حاصل کر لینا ،گویا اپنی مرضی ،صلاحیتوں،لیاقتوں،پسند،ناپسند،خواہشات،جذبہ محنت و مشقت ،تخلیقی قوتوں ، اختیار ، اختراعیت ، اپنے اندر پنپنے والی روشنی ، صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے نیز پہچان دینے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔اپنی ترجیحات کا خاکہ کھینچنے سے آپ کا وقت ضایع ہونے سے بچ جائے گا اور یہ عمل انسان کی ذہنی ، جسمانی ، جذباتی ذہانت ، سماجی رواداری،اخلاقی ضوابط ،مذہبی پاسداری کے لیے از حد ضروری ہے۔مشہور زمانہ انگریزی ادب کے شاعر جان ملٹن جنھیں پروٹین دور کا ادیب گردانا جاتا ہے نے بھی اپنی نظم آن ہز بلاینڈ نس۔میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح سے انہوں نےاپنی ان صلاحیتوں کو استعمال میں لایا جن سے قدرت نے انھیں نوازا تھا۔ان کے اندر تخلیقات کا ایک دلچسپ سمندر غوط زن تھا ،ان کے نابینا ہونے سے ان کا کافی تخلیقی سرمایہ تخلیق ہونے سے رہ گیا جس کا انھیں بہت افسوس ہوا ،لیکن ساتھ ہی ان کا ماننا ہے کہ مجھے نیچر نے جتنا وقت دیا میں نے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا جو میرے لئے خوش نصیبی ہے ۔
” When I consider how my light is spent,
Ere half my days, in this dark world and wide,
And that one Talent which is death to hide
Lodged with me useless”.( On his blindness. by John Milton)
انسانی زندگی کا کتنا وقت اس کی مجموعی ترجیحات کے بغیر گزر جاتا ہے۔جس کا اس کے پاس کوئی معقول حساب نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اور اس کا وقت ایک تیز بہاؤ کی مانند بہہ جاتاہے اور اس کو کوئی خبر نہیں رہتی ہے کہ وہ کیوں کر بہہ رہا ہے، اس کا لوکس آف کنٹرول اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے بلکہ نامعلوم طاقتیں اس کے پس پردہ کام کرتی رہتیں ہیں جن کے ذریعے ایک فرد کی زندگی گزر جاتی ہے ۔بیسویں صدی عیسوی کی سب سے بڑی دین انسان یا فرد کے لئے یہ ہے کہ اس نے انسان کی انفرادی ذات اس کو اس کے وجود سے متعارف کروایا ،اس کو اپنی باہری ذات سے نکال کر اندرونی ذات اور وجود سے آشنا کرایا نیز ذہنی خیالات کو بدلنے کا ہنر سکھایا ولیم جیمس لکھتے ہیں۔ ’’بیس ویں صدی کی سب سے اہم دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن کے خیالات کو بدل کر اپنی زندگی کے حالات کو بدل سکتا ہے۔‘‘
اس عمل کے پہلے نکتے کو یوں سمجھا جاسکتا ہے ،اگر زندگی کو وسیع تجربہ گاہ کا ایک تجربہ تصور کیا جائے تو اصول تحقیق کی مانند تجربہ کے نتائج پر بری طرح سے اثر انداز ہونے والے غیر ضروری حصہ سے پاک کیا جائے تاکہ نتائج سالم سطح پر صحیح برامد ہوسکے۔جس کی باپت سب سے پہلے اپنے تخیلات اور خیالات کو بدلنے کی ضرورت ہے ،سوچ کے انداز کو تبدیل کرنے کی کوشش شروع کریں،اولیت کے مطابق درجہ بندی کرنا انسب ہے۔یہ ایک ایسا نظام فکر یا سوچ ہے جس میں اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کاموں ،اشیاء، اصولوں کی جانچ لازم ہے تاکہ کام کی تکمیل کا اجتماعی عمل بہتر بناکر سود مند ثابت ہو سکے۔اس لایحہ عمل سے ہم اپنے مقاصد کی پہچان حاصل کرتے ہیں۔افضل عمل یہ ہے کہ اگر چیزوں ،مسایل،کاموں کو ضمروں میں اولین ترجیح ،ضروری و غیر ضروری ،عام و خواص کے اعتبار سے تقسیم کرے تو عین ممکن ہے کہ ہماری ترجیحات ہمیں بہتر راستہ فراہم کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔
ترجیحات کیسے قایم کی جائیں کے تناظر میں چند ایک نکات ذہن نشین کریں۔اپنے مقاصد کی سالم سطح پر فہرست بناکر اس کی وضاحت کریں ۔مقاصد کے حصول کی بابت مقاصد کی رد تشکیل کرکے ان کو نئی شکل میں ترتیب دینا۔مقاصد کے حصول کی اہمیت کا اندازہ لگانا۔اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر توجہ مرکوز کرکے پیش رفت کی جانب قدم بڑھانا۔
اپنے مقاصد تک پہنچ جانے کی راہ میں لچک پیدا کرکے تمام کوششوں کو قابل اطلاق بنانا ۔
ترجیحات کو اپنی زندگی میں کیوں قایم کرنا لازمی ہےیا اس کے قایم کرنے سے کن کن فوائد سے آدمی فیض یاب ہو سکتا ہے ،کے حوالے سے درج ذیل وجوہات ،نکات کو نوٹ کیجئے تاکہ اس بات کی تصدیق مکمل سطح پر ہوسکے کہ ترجیحات کو اپنی زندگی میں شامل کرنا کیوں اور کتنا ضروری یا لازم ہے۔توانائی نیز معاشی حالت اور وقت کا موثر استعمال ممکن بن سکتا ہے کام کےتئیں دلچسپی بڑ سکتی ہے۔تناؤ ،ذہنی دباؤ نفسیاتی پیچیدگیوں کو کم کیا جا سکتا ہے ۔تمام صلاحیتوں کو یکجا کر کے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔اپنے مقاصد کی جانب پوری توجہ مبزول کی جا سکتی ہے۔فیصلہ سازی میں مدد مل سکتی ہے۔زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل ہونے کے وسیع امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔کمیت سے زیادہ معیاری کام ممکن بن سکتا ہے۔ناکامی کے امکانات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔اپنے اہداف حاصل کرنے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔
انسانی زندگی میں حیاتیاتی نظام کے ساتھ ساتھ خیالات کی دنیا بھی آباد رہتی ہے جو اس کے نظریات میں تغیرات کی مرکزیت کو اہم ترین کردار عطا کرتی ہے۔اپنی ترجیحات نیز مرضی کے مطابق درجہ بندی کرنا کہ کون سے کام کرنے ہیں اور کون سے کام نہیں کرنے ہیں ،کن افراد کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیے اور کس طرح کے لوگوں سے دوری اختیار کرنا فایدہ مند ہے ،کن اشخاص کی صحبت میں فرد کو اٹھنا بیٹھنا پسند کرنا چاہے اور بیداری کی تحریک اپنےتئیں کیسے پیدا کرنی لازمی ہے،کون سے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے فرد کی مجموعی کامیابی یقینی بن جائے ،کس طرح کے تعلقات قائم کرنے سے شخص کی شخصیت نکھر سکتی ہے ،مزید براں وقت کو کیسے تقسیم کرکے اپنے اہداف کے مطابق استعمال کیا جانا چاہئے، ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ماہرین نفسیات ،علوم کی جانکاری رکھنے والے علماء نے درج ذیل نکات پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔
اپنے اندر پنپنے والی روشنی ،صلاحیتوں کو پہچانئے۔ضروری اور غیر ضروری عمل و ردعمل کی تمیز کریں۔جانے دیجئے کے سبق آموز نسخے کو اپنانے کی کوشش کریں ۔باہر سے اندر کی جانب سفر کرنا شروع کریں ۔اپنی تنہائی کو خوبصورت ساتھی بنایں ۔اپنی بے بسی کا اظہار اپنے خالق کے سامنے پیش کریں۔اپنے آپ سے ملاقات کرنا اپنا معمول بنائیں۔تعلقات ،ترسیل و ابلاغ میں سرحد اور حد فاصل لازمی کھنچیں۔اپنے حصے کی مجموعی محنت کرکے نتائج الللہ تعالیٰ پر چھوڑدیں ۔ مشکلات میں صبر و استقامت سے کام لیا کریں خود کو خوش رکھنے کا ہنر سیکھنے کی ترغیب نکالا کرے۔سوچنے کے انداز میں تبدیلی لایں ۔زندگی کو دیکھنے کا،محسوس کرنے کے طریقہ کار میں تغیرات پیدا کریں۔ دوسروں کو خوش کرنے کی ناکام کوششیں کرناچھوڑ دیجئے کیونکہ آپ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتے ۔ہر فرد ،ہر بات،ہر واقعہ ردعمل یا جواب کا مستحق نہیں ہوتا ہے ۔
ہر شخص اپنی اپنی جگہ یوں ہے مطمئن
جیسے کہ جانتا ہو قضا کا ہے رخ کدھر
رابطہ۔ 8825001337