ہلال احمد لون
حال ہی میں مرکزی سرکاروں نے عالمی سطح پر عالمی برادری کے تعاون سے ’’مشن لائف مہم ‘‘کا آغاز کیا۔ اس مشن کا صرف اور صرف مقصد اپنے اردگرد ماحول کو آلودگی سے بچانا یا قابو پانا ہی ہے۔ اس وقت دنیا میں زمین کی بڑھتی ہوئی درجہ حرارت ،ماحولیاتی آلودگی اور COVID-19 جیسی مہلک بیماریوں کے خطرات نے عالمی برادری میں تشویش پیدا کی ہے اور دُنیا کے تمام ملکوں پر ماحول بچاؤ اقدامات پر زور دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی آواز ’’لائف مشن اپنے ماحول کے لئے‘‘ایک اہم مقصد بن گیا ہے۔
ہم سب اس بات کی بخوبی واقفیت رکھتے ہیں کہ جب ہمارا ماحول اچھا ہوگا، تب ہی ہم اچھی زندگی گزار سکیں گے۔ جب سے اس ماحول میں منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں، تب سے ہمارا نظام درہم برہم ہوکے رہ گیااوراب ماہرین سائنس اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر انسان کو اپنی بقا ء بچانی ہے تو اُسے سب سے پہلے ماحول کو بچانا ہوگا۔ جب تک ماحول کا توازن ٹھیک نہیںہوجاتا، ہماری زندگی کو بہت سے خطرات کا لاحق ہوں گے۔ بلاشبہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی دورِ حاضر میں سب سے بڑاپریشان کُن مسئلہ بن چکا ہے۔ آج سے ۲۰۰سال قبل Global Warming, Green House Gases کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ لوگوں کے گھروں میں پنکھا تک نہ تھا ، اےسی اور دیگرکئی سہولیات کی نہ تو ایجاد ہوئی تھی اور نہ ہی ان چیزوں کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ سات آٹھ عشرے قبل بھی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔کیونکہ ہمارے اردگرد کا ماحول آلودگی سے صاف و پاک تھا ۔پیڑ پودوں کی بہتات تھی ۔آکسیجن کی فراوانی تھی ،جس کے باعث ہماری اس زمین کا درجہ حرارت اور توازن فطرت کے مطابق برقرار رہتا تھا۔ بدقسمتی سےانسان نے اپنی خودغرضی اور لالچ کے تحت نہ صرف پیڑ پودے اور سر سبز درختوں کا صفایا کردیا بلکہ اپنی کوتاہ اندیشی سے ماحول کے توازن کو پوری طرح برباد کرکے رکھ دیا۔ حالانکہ قدرت نے ہماری اس سرزمین کو بیش بہا قیمتی نظاروں سے سجا کے رکھ دیا تھا ، دلکش فضا اور روح پرور ہوائوں سے مزّین کیا تھا مگر ہم ہیں کہ قدرت کی ان ساری نعمتوں سے کھلواڑ کیا ۔صورت حال اب یہاں تک پہنچ گئی کہ اب ہمارے لئے سانس لینا بھی دشوار بن گیا ہے۔دورِ حاضر میں اب ماحولیاتی بگاڑ نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تشویش پھیلادی ہےاور عالمی برادری میں یہ طے پایا گیا کہ ہمیں ہر گھر اورہر ادارے میں ماحول دوست اور ماحول بچاؤ پیغام پہونچانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری بقاء محفوظ ہوسکے۔اس لئے لازم ہےکہ ہمیں اپنے اُس طرزِ عمل سے باز آنا ہوگا ،جس طرزِعمل سےقدرتی ماحول آلودہ اور مضرِ صحت بن جاتا ہے اور اُن لوگوں کو بھی سمجھانا ہوگا جو ماحول کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔گویا ہمیں سماجی اور انفرادی سطح پرماحول کو صاف و پاک رکھنے کےلئے خود بھی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اس لئے عالمی برادری اور ممبر ممالک نے ریاستی حکومتوں کے حدود کے اندر فارسٹ ڈپارٹمنٹ کی قیادت میں تمام تعلیمی اداروں میں اس مہم کو چلانے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔ جس کا نام ’’لائف مشن مہم برائے ماحولیات‘‘ رکھا گیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیںکہ ہمارے ماحول کا توازن کن کن چیزوں سے خراب ہورہا ہے، جن میں انسان کی لاپرواہی ،خود غرضی ، منفعت پرستی اور غیر ذمہ دارنہ رول کی کار فرمائی ہوتی ہے۔ ہمیں معلوم چاہئے کہ ہمارے جنگلات ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ جس حساب سے قدرت کے ان خزانوں سے ہمیں زندہ رہنے کے لئے آکسیجن فراہم ہوتا ہے،لاکھو ں،اربوںکے اخراجات کرکے بھی ایک انساناس آکسیجن کا پانچ فیصدتیار نہیںکر سکتا ہے۔ انسان کو روزانہ کتنے آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے اس کا اندازہ خود انسان نہیں لگا سکتا ہے۔اسی طرح ہو ا کے بعد انسانی زندگی کی بقا کے لئے صاف پانی کی کتنی اہمیت ہے ،اُس کا بھی ہمیں احساس ہونا چاہئے۔ ہماری زندگی کے لئے پانی کتنا اہم ہے، یہ تو ہم جانتے ہی ہیں۔ چنانچہ جب ہمیں پینے کےپانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تبھی ہمیں اس کی قدرو قیمت معلوم پڑتی ہے ،یہ پانی کہاں سے آتا ہے ، کیسے آتا ہے ۔اس پر ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا ہے۔ جتنا پیڑ پودوں کو زندہ رہنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے، اتنا ہی ضروری “Water Cycle” کو چلانے کے لئے پیڑ پودے اور سورج کی خاص مقدار کی تپش ضروری ہے۔ جس کی مدد سے ہمارے خوبصورت دریا سال بھر رواں دواں رہتے ہیں۔ ہمارے ہمالیائی پہاڑ ہمارے لئے قدرت نے کتنے اہمیت کے حامل ہیں، یہ ہمارے دریاؤں کی روانی سے عیان ہوتی ہے۔ ہمارے پیڑ پودوں کی مضبوط جڑیں ہمارے اونچے جنگلوں کو کس طرح پکڑ کر رکھتے ہیں اور مٹی کے کٹاؤ کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں،اس کو بھی ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے زمین کی زرخیزی اور شادابی بھی انہی عناصر سے برقرار رہتی ہے۔ لیکن انسان اپنے خود غرضانہ رویہ کے تحت ہمیشہ انمول خزانے جنگلات کو کاٹنے میں مشغول رہا ، پینے کے صاف پانی کو ضائع کرتا رہا اور اپنے گھروں سے نکلنے والی گند ،غلاظت ،کوڑا کرکٹ کو گلی کوچوں،سڑکوں ،میدانوں اور کھیت کھلیانوں میں پھینک کر اُنہیں آلودہ کرتا رہااور قدرت کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں سے کھلواڑ کرتا رہا ، جنگلات کو بے دردی کے ساتھ کاٹتا رہااورنئے پیڑ پودوں کو لگانے کے عمل کو نظرانداز کرتا رہا۔انسان کے انہی غیر ذمہ دارنہ کارناموں سے ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ،جس کے باعث اب ہمیں موسمی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب تو زمین کا درجہ حرارت (Mean Temperature) کافی حد تک بڑھ گیا ہے، جو نہ صرف انسانی بقاء کے لئے بلکہ دوسرے مخلوقات ،یہاں تک کہ نباتات جو ہماری زمین کا درجہ حرارت قابو میں رکھتے ہیں،کے لئے تباہ کُن ثابت ہورہا ہے۔ ہم نے پانی کے ذخائر کو بھی اپنی غلط پالیسیوں سے ناقص اور زہر آلودہ بناکے رکھ دیا ہے۔ندی نالوں اوردریائوںکو پراگندہ کرکے پینے کے صاف پانی پینے کے پانی کے انمول خزانوںکو بھی پالیتھین سے بھردیا ہے۔ ہر جگہ پالیتھین بکھرا پڑا ہے، جس کی وجہ سے ہماری زمین بنجر ہو رہی ہے۔ ہماری آنے والے نسلوں کا حال کیسا ہوگا۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
ہمیں چاہیے اس اچھے مقصد’’لائف مشن ماحولیات کے لئے‘‘ کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ ماحولیات کو بچانے کے لئے گورنمنٹ کے دئیے گئے ہدایات پر عمل کریں۔اپنے جنگلات کی حفاظت کریں ،زیادہ سے زیادہ پیڑ پودے لگائیں۔ پینے کے پانی کے ذخائر کو آلودگی سے بچائیں۔اپنے آبی جانوروں کی زندگی کو آلودگی کے بُرے اثرات سے بچائیں۔ گھروں سے نکلنے والے کوڈاکرکٹ کو دور کسی مناسب ایسی مقام پر جمع کریں ،جہاں سے وبائی بیماریاں پھیلنے کے خطرات نہ ہو۔ E-Waste Recycling کو اپنے کی کوشش کریں۔ یعنی پلاسٹک جو ہماری ذرخیز زمین کو بنجر بناتی ہے، اسے اس جمع کرکے Recycling کے لئے بھیج دیں۔ اپنے پاس ہمیشہ کپڑے یا کاغذ کے تھیلوں کا استعمال کرکے پالیتھین کو الوداع کہیں۔ ایسی طرزِ زندگی کو اپنائیں جو دوسروں کے لئےبہتری کی راہ ثابت ہوجائے۔ اگر ہم کورونا وائرس جیسی دوسری مہلک بیماریوں سے بچنا چاہتے تو ہمیں ماحول دوست طرزِ زندگی کو اپنانا ہوگی۔ سیلاب اور قدرتی طوفان جیسے آفات سے بچنا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ پیڑ پودے لگانے ہوںگے، جنگلات کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اپنے آنے والے نسلوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے ہمیں یہ سب کچھ کرنا ہوگا۔ورنہ زندگی کی بقاء غیر محفوظ ہوجائے گی۔
<[email protected]>