سرینگر// نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ 9اگست 1953کو جب مرحومشیخ محمد عبداللہ کو طاقت کے بلپر، غیر جمہوری اور غیر آئینی طور معزول کیا گیا اُسی وقت جموں وکشمیر میں تمام بحرانوں کی بنیاد پڑی ، ملک اور ریاست کے رشتوں میں شگاف پڑھ گیا،جموں وکشمیر کے عوام اور نئی دلی کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں اور آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ان دوریوں کو پاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن محسوس ہورہاہے۔ نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے پارٹی ہیڈکوارٹر پر پارٹی عہدیداروں کیساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے دفعہ370سے متعلق جو وضاحت کی ہے، ہم اُس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس وضاحت سے اُن لوگوں کے زبان بند ہونی چاہئے جو بار بار اس دفعہ کو ختم کرنے باتیں اور سازشیں کرتے آئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ 9؍اگست1953کو جمہور کش اقدامات کے لئے دروازہ کھول کر جمہوریت کے دعویداروں نے ریاست کی آزادی اور خودمختاری کا قلع قمع کرنے کے لئے وزیر اعظم اور صدرِ ریاست کے عہدوں کا تنزل کیا۔ ریاست کی اپنی جوڈیشری کا خاتمہ کردیا۔ ریاست کو مرکزی قوانین کے دائرے میں لایا گیا۔انہوں نے کہا کہمرحوم شیخ محمد عبداللہ کی بحیثیت وزیر اعظم گرفتاری نے کشمیریوں کے دلوں پر ایک زخم دیا جو وہ کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 9اگست1953کے بعد جموں وکشمیر میں بخشی غلام محمد، جی ایم صادق، سید میر قاسم کے ادوار میں 1975 تک 40سے زائد مرکزی قوانین کو لاگو کیاگیا اور اس طرح سے ریاست جموں و کشمیر اٹانومی کا تہیہ تیغ کیا گیا۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ اگر 1975میں شیخ محمد عبداللہ نے ریاست کا نظام نہ سنبھالا ہوتا تو ریاست کی بچی کچی خصوصیات، جن میں دفعہ370اور سٹیٹ سبجیکٹ قوانین شامل ہیں، کو بھی ختم کرکے یہاں غیر ریاستیوں کو آباد کرکے کشمیریوں کی آواز کو کب کا دبا دیا گیا ہوتا اور آج یہاں نہ آزادی اور نہ ہی اٹانومی کے نعرے کی آواز کسی کے کانوں تک پہنچتی۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح حیدرآباد دکن میں کیا گیا۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ 2002اور2015میں مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی کے دورِ حکومت میں بھی کشمیر دشمنی کے ریکارڈ مات کردیئے اور اس دوران آدھ درجن مرکزی قوانین ریاست پر ٹھونس دیئے گئے۔