بشیر اطہر
میں ہمیشہ سے یہ خواہش رکھتا تھا کہ اپنے بارے میں کچھ لکھوں… مگر ایسا کچھ جو میرے ماضی اور حال دونوں کی عکاسی کرے۔وہ زمانہ بھی یاد آتا ہے جب انسان، انسان کی آنکھوں میں محبت اور عزت تلاش کرتا تھا؛ جب رشتوں میں اعتبار کی روشنی تھی اور دلوں میں ایک دوسرے کے لئے درد۔مگر اب یہ سب کچھ ماضی کی کتاب کے چند پیلے اور بوسیدہ اوراق میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔اب کے زمانے میں زندگی ایک الجھن بن گئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو یوں دیکھتے ہیں جیسے سب کسی خفیہ ایجنسی کے رکن ہوں۔ہر بات، ہر رویّہ، ہر تعلق…… سب شک کی بنیاد پر ٹکے ہیں۔میں نے سوچا کہ ان مشتبہ نظروں کے پیچھے آخر راز کیا ہے؟ کیا زمانہ بدل گیا ہے، یا انسان؟یہ جاننے کے لئے میں نے خود کو تماشائی بنالیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ لوگوں کو ان کی روزمرہ زندگی میں دیکھوں گا، محسوس کروں گا، اور ان کے چہروں کے اتار چڑھاؤ سے جانچوں گا کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔پہلے سوچا کسی راشن اسٹور پر بیٹھ جاؤں، مگر وہاں لوگ کم آتے تھے۔ پھر نائی کی دکان ذہن میں آئی، مگر وہاں صرف مرد آتے تھے۔لوہار کی دکان پر بیٹھوں وہاں مخصوص طبقہ یعنی کسان آتے ہیں، سٗنار کی دکان پر بیٹھوں تو وہاں زیادہ تر عورتیں ہی آتی ہیں…. بالآخر تین مہینے سوچنے کے بعد مجھے مناسب جگہ مل گئی……… شاپنگ مال…………شاپنگ مال… وہ جدید مندر جہاں انسان خریدنے، دیکھنے، تولنے، اور ایک دوسرے کو پرکھنے آتے ہیں۔میں روز وہاں بیٹھنے لگا۔شروع میں سب کچھ معمول کے مطابق لگا، مگر رفتہ رفتہ میں نے ہر آنے جانے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔…….. کیا سب چور ہیں؟ کیا میں ہی واحد ایماندار انسان ہوں؟ایک دن ایک وجیہہ، دبنگ شخص آیا۔ صاف ستھرا، پُررعب، مگر چہرے سے نرم مزاج۔
خریداری کے بعد اس نے نہ صرف بِل بھرا بلکہ مجھے ایک ٹپ بھی دے دی۔ میں نے پوچھا:’’آپ یہ قیمت کیوں بار بار دیکھ رہے ہیں؟‘‘وہ مسکرا کر بولا: ’’میری بیوی اسی مال سے سامان خرید کر لے آتی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ جتنا روپے لے جاتی ہے، کیا اتنا سامان لاتی بھی ہے؟ بیٹا، یہ سب اپنے عیال کے لیے کرنا پڑتا ہے۔‘‘وہ یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ میں دیر تک اس کی گاڑی کو دیکھتا رہا۔دل میں شک کا بیج پھوٹ پڑا……… کیا یہ اپنے بیوی پر شک کر رہا ہے؟ کیا ان کے رشتے میں بھی بدگمانی ہے؟اسی سوچ میں تھا کہ ایک حسین عورت وہی بِل ہاتھ میں لیے شاپنگ مال میں داخل ہوئی۔وہ ہر اُس جگہ جا رہی تھی جہاں وہ مرد گیا تھا۔ میں نے غور کیا………. وہ چیزوں کو گن گن کر لکھ رہی تھی۔میں قریب گیا اور پوچھا:’’محترمہ، کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟ میں مدد کر دوں؟‘‘وہ چونکی، مگر مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔’’کچھ نہیں بیٹا، بس یوں ہی دیکھ رہی ہوں…‘‘پھر ہچکچاتے ہوئے بولی:’’بیٹا، عورتوں کے انڈر گارمنٹس کس طرف ہیں؟‘‘میں نے راستہ دکھایا۔وہ وہاں گئی، گنتی کی، کچھ نوٹ کیا، پھر چہرے پر ایک عجیب سی روشنی ابھری…….. جیسے کسی شک کی تصدیق ہو گئی ہو یا شاید دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔میں نے ہمت کی اور پوچھا:’’آپ نے کچھ خریدا نہیں، تو یہ بِل آپ کے ہاتھ میں؟‘‘وہ بولی:’’بیٹا، یہ بِل میرے شوہر کا ہے۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے یہی سامان خریدا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ شاید انہوں نے کچھ اور بھی لیا ہو۔ میں دیکھنے آئی کہ کہیں وہ مجھے دھوکہ تو نہیں دے رہے ہیں…‘‘
میں ساکت رہ گیا۔ اب بیوی شوہر پر شک کر رہی تھی۔اور کچھ لمحوں بعد ایک بوڑھا شخص آیا، جس کے چہرے پر زمانے کا نقش تھا۔’ ’بیٹا، اس عورت نے کیا خریدا؟‘‘
میں نے کہا: ’’کچھ نہیں۔‘‘
وہ بولا:’’یہ میری بہو ہے۔ میرے پوتے پوتی نے کہا کہ اس کا تعاقب کرو……… کہیں یہ خریدا ہوا سامان کسی اور کو نہ دے دے…‘‘
میں اُس بوڑھے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ اس نے لمبی سانس لی اور بولا:’’بیٹا، یہ زمانہ مشتبہ ہو گیا ہے۔باپ کو بیٹے پر شک ہے، بیوی کو شوہر پر، ماں کو بیٹی پر۔پرانے وقتوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا، اس لئے زندگی آسان تھی، دل مطمئن تھے، رشتے مضبوط تھے۔اب ہر کوئی ایک دوسرے کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔‘‘وہ یہ کہہ کر چلا گیا۔
میں دیر تک اس کی باتوں میں گم رہا۔ یوں لگا کہ مجھے اپنے سوالوں کے سارے جواب مل گئے۔
اور تب میں نے اپنی آنے والی کتاب کا عنوان طے کیا………. “مشتبہ”۔
���
خانپورہ، کھاگ بڈگام کشمیر
موبائل نمبر؛ 7006259067