مشتاق احمد بٹ کی تصنیف Flames of Soil میری نظر میں

Towseef
11 Min Read

سبزار احمد بٹ

مشتاق احمد بٹ کی تصنیف Flames of Soil نثر اور شاعری کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اس بات سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ زندگی دکھ اور سکھ کا سنگم ہے اور انہی جذبات کو مشتاق احمد بٹ نے اپنی اس کتاب میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔بٹ صاحب کے یہ مضامین اور انگریزی نظمیں مختلف اخبارات کی زینت بن چکی ہیں۔ انہی تحریروں کو انہوں نے کتابی شکل دے کر محفوظ کر لیا ہے اور اس وقت یہی خوبصورت تصنیف میرے ہاتھوں میں ہے۔مصنف نے اس کتاب کا انتساب اپنے مرحوم والد عبدالغنی بٹ اور اپنی شفیق والدہ محترمہ سعیدہ بیگم کے نام کیا ہے، جو ان کی خلوصِ دل سے بھرپور محبت اور عقیدت کی عکاسی کرتا
ہے۔
My Childhood (بچپن) کے عنوان سے شامل نظم میں بٹ صاحب نے بچپن کا ایک حسین اور دلکش نقشہ کھینچا ہے۔ یہ نظم پڑھ کر قاری اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔اسی طرح Queen of Dream (خوابوں کی ملکہ) کے عنوان سے ایک اور عمدہ نظم بھی اس کتاب میں شامل ہے، جسے پڑھ کر قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ نظم خود اس کے خوابوں کی ملکہ کے بارے میں لکھی گئی ہو۔ماں! اللہ ربّ العزت کا ایک حسین تحفہ ہے، جو اپنی اولاد کے لیے ہر مصیبت اور مشکل کا بڑی جرأت سے سامنا کرتی ہے۔ Somebody’s Mother کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں بٹ صاحب نے ماں کی محبت، قربانی اور ایثار کو نہایت شاندار اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ نظم قاری کے دل کو چھو لیتی ہے اور اسے ماں کی عظمت کا احساس دلاتی ہے۔

Complexion Discrimination نامی نظم میں مصنف نے معاشرے میں رنگ و نسل، ذات پات اور طبقاتی امتیاز پر گہری چوٹ کی ہے۔ نظم کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ ہم انسانوں میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر فرق کرتے ہیں، حالانکہ پانی اور ہوا جیسی بنیادی چیزوں کا کوئی رنگ نہیں، جو سب کے لیے برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو انسان بنایا ہے، مگر ہم نے خود ہی معاشرتی تقسیم پیدا کر کے دنیا کو بدصورت بنا دیا ہے۔ اس امتیازی سلوک نے بےشمار صلاحیتوں کو دبا دیا ہے۔ یہ نظم ایک عالمی مسئلے کی نہایت خوبصورتی سے عکاسی کرتی ہے، جس میں شاعر کسی حد تک کامیاب نظر آتا ہے۔چونکہ بٹ صاحب کے سر سے والد کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا تھا، اس لیے وہ یتیمی کی زندگی سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود اس تلخ تجربے کو جھیلا بلکہ اپنی والدہ کی بیوگی کی زندگی کو بھی قریب سے محسوس کیا۔ Visit to Widow’s House نامی نظم میں انہوں نے ایک بیوہ عورت کے دکھوں، مشکلات اور معاشرتی چیلنجز کو شاعری کے قالب میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ A Widow نامی نظم میں بھی یہی موضوع پیش کیا گیا ہے۔موصوف نے مہاتما گاندھی پر بھی ایک عمدہ نظم لکھی ہے، جس میں ان کی شخصیت اور فلسفے کی جھلک ملتی ہے۔ خواتین کی عظمت اور ان کے کردار کو بھی متعدد نظموں میں سراہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ A Teacher, Dalit Woman, First Love, اور Let There Be Peace in the World جیسی نظمیں اس مجموعے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔

Let There Be Peace in the World میں امن کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ شاعر نے واضح کیا ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے امن سے بڑھ کر کوئی چیز ضروری نہیں۔ نظم میں دنیا کے امیر و غریب، گورے و کالے، ہندو و مسلم سب کو امن و آشتی کا پیغام دیا گیا ہے۔کتاب کے اس حصے میں محبت کے موضوع پر بھی خوب شاعری کی گئی ہے۔ ایسی نظمیں قاری کے دل کو چھوتی ہیں اور اسے ماضی کی یادوں میں لے جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو شاعر نے دنیا کے عصری مسائل کو شاعری میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔شاعر ایک حساس دل رکھتا ہے؛ وہ اپنے اردگرد کے مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یہ مسائل اس کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے ہیں، اور وہ انہیں اپنی نثر اور نظم میں پیش کرتا ہے۔ یہی انداز ہمیں بٹ صاحب کی شاعری میں نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ شاعر نے شادی، محبت، خانہ بدوش لڑکی، موبائل فون، کتابیں، اور ٹرانس جینڈر یعنی متجنس افراد کے مسائل کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدرتی مناظر مثلاً کونثر ناگ اور اہربل کے حسن کو بھی اپنی شاعری میں شامل کر کے اس کی جمالیاتی قدر کو بڑھایا ہے۔کتاب Flames of Soil کے نثری حصے میں بھی نہایت حساس اور اہم موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ ان مضامین میں معاشرتی بیداری، اصلاحِ احوال، اور فکری رہنمائی کا عنصر نمایاں ہے۔اس حصے میں شامل مضمون Iqbal’s Philosophy of Khudi دس صفحات پر مشتمل ہے، جس میں علامہ اقبال کی شاعری میں خودی کے تصور کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے اقبال کے فلسفۂ خودی کو عصرِ حاضر کے تناظر میں پیش کر کے قاری کو فکر و آگہی سے روشناس کرایا ہے۔

اسی حصے میں امتیازی سلوک (Discrimination) جیسے حساس موضوع پر بھی بحث کی گئی ہے، جس سے معاشرتی ناانصافیوں کا ادراک ہوتا ہے۔

Suicide… The Cry of Existence کے عنوان سے تحریر کردہ مضمون میں خودکشی جیسے سنگین مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو آج کے معاشرے میں چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ مضمون میں موجودہ نسل میں قوتِ برداشت کی کمی، اسبابِ خودکشی، اور اس کے تدارک پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ بٹ صاحب کا مضمون The Menace of Child Abuse بچوں کی اہمیت، ان کے ساتھ ہونے والے مظالم اور استحصال پر ایک بیدار مغز اور درد دل رکھنے والے انسان کی تحریر ہے۔ اس میں بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی بحالی کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو کی گئی ہے۔جعلی پیروں اور فقیروں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی نہایت جرات مندی سے بے نقاب کیا گیا ہے۔ Fake Peer: A Social Disaster کے عنوان سے تحریر کردہ مضمون میں اس ناسور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں رد کرنے کی سعی کی گئی ہے، اور قاری کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ایسے دھوکہ بازوں سے ہوشیار رہے جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح عوام کو لوٹتے ہیں۔اس حصے میں ماحولیات، بچوں کے عالمی دن، اور یوم اساتذہ جیسے موضوعات پر بھی معلوماتی اور اصلاحی مضامین شامل ہیں۔کتاب میں ناول A Girl of Widow اور Complexion-Based Discrimination پر تنقیدی جائزے بھی شامل ہیں، جو نہایت فکر انگیز اور بصیرت افروز ہیں۔ اس کے علاوہ ہند-چین سرحدی تنازعے پر بھی ایک معلوماتی اور فکری مضمون موجود ہے۔Widows: The Dejected Lot of Society نامی مضمون انتہائی پراثر اور دل سوز ہے۔ اس کو پڑھ کر قاری کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دل غم سے بھر جاتا ہے۔ اس میں نہ صرف بیوہ خواتین کے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں بلکہ ان کے حل کے لیے تعمیری تجاویز بھی دی گئی ہیں۔اتنا ہی نہیں کتاب کے اس حصے میں Covid-19، نئی تعلیمی پالیسی، اور تبلیغی جماعت کے دعوتی کام پر بھی مثبت اور عمیق تحریریں موجود ہیں، جن سے مصنف کی وسعتِ نظر اور بالغ نظری کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اگرچہ کتاب کے ہر مضمون پر تفصیل سے بات کرنا ممکن نہیں، تاہم میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مشتاق احمد بٹ نے نہ صرف سماجی مسائل کی نشاندہی کی ہے بلکہ ان کے حل پیش کرنے کی بھی سنجیدہ کوشش کی ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس کتاب پر اس وقت کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بارہمولہ جناب محمد آسن میر، کیرالہ کی معروف ادیبہ املی اومنکٹن، اور ڈاکٹر ریاض احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان سب نے کتاب کی اہمیت کو سراہا اور مثبت رد عمل پیش کیا۔میں ذاتی طور پر مشتاق احمد بٹ کو اس قیمتی کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اسی تسلسل سے لکھتے رہیں گے۔ ان کی تحریریں معاشرے کے رِستے زخموں کی نشاندہی کرتی رہیں گی ، تاکہ ان زخموں کا علاج تلاش کرنے میں مدد ملے اور ایک صحت مند اور باشعور معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔
7006738436رابطہ ۔ [email protected]

Share This Article