ہماری اخباری دُنیا کے ایک فرد تھے جن کا نام ذہن سے محو ہورہا ہے، اُنھیں قدرت نے عجب وصف سے نوازا تھا وہ گلی کوچوں میں آواز لگا کر اخبار بیچتے تھے۔ اخبار بیچنا کیا عجب بات ہو سکتی ہے، مگر ان کا عمل واقعی عجب تھا۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اخبار کے دفتر سے پرانے اخبار اٹھا کر انھیں بھی ہاتھوں ہاتھ بیچنے کا گُر جانتے تھے۔ وہ اخبار پر ایک گہری نگاہ ڈال کر اس میں سے کوئی ایک خبر تلاش کر لیتے تھے اور اُس کی سرخی کا اپنے انداز سے آوازہ لگاتے تھے اور لوگ متوجہ ہو کر ان کی طرف بڑھتے تھے اور کچھ ہی دیر میں اخبار کی سو پچاس کاپیاں بیچ کر وہ اپنے گھر کا چولہا جلانے کا انتظام کر لیتے تھے۔ یہ سُنی سنائی نہیں بلکہ چشم دید واقعہ ہے۔
غلام رسول بدایوں سے کانپور روزی روٹی کی تلاش میں وارِد ہوئے اور انھوں نے صرف دہی بڑے بیچ کر کانپور کے کرنیل گنج میں نہ صرف مکان بنوا لیا بلکہ حج وغیرہ کر کے دُنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ بھی لوگوں کو متوجہ کرنے کاہنر جانتے تھے مگر صرف متوجہ کرنا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ایک بار اُن کو جو کھلا دِیا، کھانے والا پھر اس کا طالب نہیں بلکہ عادی ہو جاتا تھا یہ عمل دراصل انسانی نفسیات کو سمجھنے اور اس نفسیات سے کھیلنے کا ہنر ہے، جسےہاتھ آجائے۔ دور ِگزشتہ علم وادب ہی نہیں ہنر اور فن کے کامل لوگوں کا زمانہ تھا۔ ہر شعبے میں ایک سے ایک بڑھ کر کر دار ہوا کرتے تھے۔ ہم نے ابھی حاجی غلام رسول کا ذکر کیا ہے اسی طرح ایک صاحب سردیوں کی راتوں میں چار پہیوں کی گاڑی پرمونگ پھلی( سینگ) بیچتےتھے اُنکی مونگ پھلی کسی خاص کھیت سے نہیں آتی تھی ،وہی عام مونگ پھلی، ہنر اُن کی آواز لگانے کا تھا اور اس مونگ پھلی کے ساتھ ایک پُڑیہ میں نمک ہوتا تھا اس نمک میں کسی چیز کی آمیزش ہوتی تھی جس سے اس نمک کا ذائقہ زبان پر چڑھ جاتا تھا اور سردیوں کی راتوں میں صرف مونگ پھلی بیچ کر وہ شخص خاصی روزی کما لیتا تھا۔ گرمیوں میں ککڑی بیچنے والےبھی ہماری عمر کے لوگوں کی یادداشت میں ہونگے ، کیسی کیسی آوازیں اور ان کے فقرے کہ بس آپ سنتے ہی رہیں۔ ان میں توکچھ واقعی ذہین ہوتے تھے اور کچھ کو ان کے بڑے بوڑھے ، اُستاد سِکھا پڑھا کر گلی کوچوں میں بھیجتے تھے۔
یہ ساری باتیں ہمیں گزشتہ جمعے کو رئیس ہائی اسکول (بھیونڈی) میں ( بچوں) کے ایک تقریری مقابلے میں بے طرح یاد آئیں۔ دس بارہ برس کے بچوں نے اپنی خطابت اور زورِ بیان کے وہ وہ نمونے پیش کیے کہ بس ہم سنتے کیا رہے، دیکھتے رہ گئے۔ اپنے قد میں نہایت کم مگر اندازِ خطابت میں کہیں بلند۔ ہم ان بچوں کو جب سُن رہے تھے تو بار بار ہمیں اپنا بچپن یاد آرہا تھا کہ اس عمر میں بات بھی کرنی نہ آتی تھی، ہماری بزرگ خواتین بتاتی ہیں کہ ہم نے ایک خاص عمر تک زبان ہی نہیں کھولی تو دادی کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ گونگا تو نہیں۔ !!
اب ہماری آواز سُن کر لوگ ہاتھوں کو کان لگاتے ہیں کہ کہیں یہ کان نہ لے اُڑے۔ اللہ جس حمار کو چاہے پہلوان بنا دے۔ رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلے میں ظاہر تھا کہ یہ تقریریں ان کے اساتذہ یا سرپرستوں نے لکھ کر دِی ہونگی مگر تقریر کو یاد کر نا اور پھر سیکڑوں کے مجمعے میں بیساختہ اور پوری حرکات و سکنات کے ساتھ بولنا۔۔۔ ہر گز سہل نہیں۔ ابھی ہمارے ایک سینئر شاعر گزرے ہیں وہ تقریباً آدھی صدی کی شہرت کے باوجود جب مائیک پر آتے تھے تو ہماری آنکھیں شاہد ہیں کہ پشت پرانکے ہاتھوں کی کپکپی صاف نظر آتی تھی۔
رئیس ہائی اسکول( بھیونڈی) کا انتظامیہ اور بالخصوص اُسکے پرنسپل ضیا ٔالرحمان انصاری قابلِ تحسین ہیں کہ ا نہوں نے مقابلے کے انتظامات میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، مقابلےمیں شریک ہر بچے مقرر کو انعا م اور اعزاز دے کر اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ دھولیہ کا نو عمر انصاری محمد سدیس اوّل انعام لے گیا جب وہ کپ کے سامنے کھڑا ہوا تو ہمیں کپ کا قد اُس سے کچھ زیادہ لگا۔ کہنا یہ چاہتے ہیں، اتنی سی عمر میں وہ جواندازِ بیان کے نمونے پیش کر گیا وہ حقدار تھا کہ اسے ہی اول انعام دِیا جائے۔ اسی طرح بی بی مریم محمد مستقیم نے دوسرا انعام حاصل کیا۔ موضوعات بھی ایسے ایسے تھے کہ جس پر ہمیں بھی کچھ دِقت ہوتی مگر ان کے اساتذہ کی تربیت کامیاب رہی۔
کوئی پچاس برس اُدھر کی بات ہے کہ لکھنؤ سے ایک عالِم کانپور آتے تھے اور وہ گھڑی دیکھ کر منبر پر بیٹھتے تھے اور ایک گھنٹے کی تقریر میں وہ ایک منٹ بھی زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے، مذکورہ (بچوں کے) تقریری مقابلے میں بھی وقت کی قید تھی اور اکثر بچوں نے اپنے وقت پر تقریر ختم بھی کی مگر ایک بچی ذہن میں رہ گئی وہ اس وجہ سے کہ وہ واحد مقرر تھی جس نے متعینہ وقت سے کم دورانیہ لیا۔ بات یوں ہوئی کہ وہ بولتے بولتے بھول گئی مگر ہمیں تو ایسا لگا کہ وہ جہاں بھولی تھی وہاں اس کی بات مکمل تھی البتہ وقت (پانچ منٹ ) پورا نہیں ہوا تھا۔ دراصل بسا اوقات ہم اپنے ہی بنائے ہوئے ضابطےکے قیدی محسوس ہوتے ہیں۔ اس بچی کو جو وقت دیا گیا تھا وہ انتہائی وقت تھا، مگر اس نے جتناکچھ بولا وہ اپنے آپ میں مکمل تھا۔ منتظمین نے اسے بھی اعزاز وغیرہ سے نوازا مگر ہمارے نزدیک وہ کم عمر بچی کچھ زیادہ کی مستحق تھی۔( ہو سکتا ہے یہاں ہم جذباتی ہوگئے ہوں۔)
ہم نے ابھی تقریروں کے موضوعات کی بھی بات کی ہے جیساکہ اوپر لکھ چکے ہیں کہ ہم خود ان موضوعات پرسوچنے میں پیچھے ہی رہتے مگر ان بچوں کے منہ سے پھول کیا جھڑ رہے تھے کسی کسی کے ہاں تو شعلہ بیانی بھی مظہر بنی ہوئی تھی۔ ہم نے ابھی کانپور میں جس عالِم کے خطاب کا ذکر کیا ہے ان محترم کے بارے میں دور تک مشہور تھا کہ وہ جس آواز و لہجے میں اپنی بات شروع کرتے تھے ، اخیر تک ان کا لہجہ اسی سطح پر ہوتا تھا، نہ کبھی پست اور نہ کبھی بلند۔ رہی علم کی کی بات تو عالم یہ تھا کہ گھنٹے بھر کی تقریر میں لفظ ’پانی‘ اگرایک بار انکے منہ سے نکل گیا تو مجال تھی کہ وہ لفظ اسی تقریر میں دوبارہ استعمال ہو جائے، اگر اس لفظ کا محلِ استعمال ہو بھی تو وہ اُس کا کوئی مترادف یعنی پانی کے بجائے ’ آب ‘ استعمال کرتے تھے۔ سننے وا لوں کا انہماک بھی مثالی ہوتا تھا پوری توجہ اور ذہن ونظر کی حاضری کے ساتھ اخیر تک بیٹھے رہتے تھے کہ مبادہ توجہ ہٹی تو نجانے کس علم سے محروم رہ جائیں۔!! گھنٹے بھر کی خطابت میں سامعین کے سکوت و خموشی کا عالم یہ ہوتا تھا کہ جلسہ گاہ میں اگرسوئی گر جائے تو اس کی بھی آواز سنائی دے جائے ۔
ہمارے ہاں ہر دَور میں ایسے بھی مقرر گزرے ہیں جو مجمع کے ذہن کو جیسے اور جس طرف چاہیں موڑ دیں ان میں شعلہ بیاں لوگ تو بڑی تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے بلکہ دیکھے جاتے ہیں مگر ایسے مقرر کم کم گزرے ہیں جو مجمع میں شبنم افشانی کر سکیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا قومی رویہ شعلہ بیانی اور آتش مزاجی ہی کو قبول کرتا ہے مگر وقت اور تاریخ کی زنبیل میں کیا باقی رہتا ہے، یہ سب سے اہم بات ہے، یعنی اس کا نتیجہ کتنا دیر پااور مفید تر ہو تا ہے اسی پرساری تان ٹوٹتی ہے۔
اب ہم پر یہ منحصر ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے ذہنوں میں وقتی شعلہ بیانی کا بیج بوتے ہیں یا شبنمی مزاج کی تیاری کرتے ہیں۔ رئیس ہائی اسکول کا یہ تقریری مقابلہ برسوں سے اور کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جاری رہے گا مگر کیا ہم مندرجہ بالا باتوں پر بھی سوچنے کی زحمت کریں گے مگر اس میں بولنے سے زیادہ فکر کا کام ہے اور فکر کیلئے مطالعے کی ضرورت ناگزیر ہے، کیا ہم غلط کہہ رہے ہیں ۔؟
�������