ہاں! بطحا قریش کی اس بستی میں جامع امام احمد ابن حنبل ؒ میں کئی بار سجدہ ریز ہو ئے تو اس صاحب دعوت و عزیمت کی قربانیوں کی تاریخ کا ورق ورق سامنے آتا رہا اور اس روشنی میں اپنے ’’علماء و عقلاء ‘‘کو دیکھا جا نچا تو شرمند گی کا احساس ہوا۔ عربوں کا بات بات پر بارک اللہ اور ہداک اللہ کے دعائیہ کلمات روح پرور و دل مسرور کئے دیتے ہیں… اور ہاں ! پھر وہ ساعت ہمایوں آہی گئی جب آٹھویں ذوالحجہ کو ہمارا قافلہ شب کو سوئے منیٰ روانہ ہوا ، منیٰ جو تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ خود ایک تاریخ ہے، جہاںچشم فلک نے بوڑھے باپ کو اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان گاہ کی جانب لے جادیکھا ہے ، ہاں! ہنسی خوشی اپنے تابعدرا بیٹے کا اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے انداز سے بھی واقف ہے، منیٰ جہاں اس وقت بھی جب نبی دوعالم صلعم پر مکہ کی زمین تنگ کی جارہی تھی ، مدینہ منورہ کے کچھ سعادت مندوں نے رات کی تاریکی میں ہی ان سے عہد وفا باندھا اور واردِ مدینہ ہونے کی درخواست دی۔ منیٰ جہاں غارو المرسلات بھی ہے جس کی آخری آیت امت کو خاص پیغام دے گئی، منیٰ جہاں مسجد خیف بھی ہے، جہاں کئی انبیاء و رسل ؑ نے بارگاہِ صمدیت میں سر نیاز خم کئے ہیں۔ ہاں منیٰ جہاں آج رابطہ عالم اسلامی کا مرکز گیسٹ ہاؤس بھی ہے، جہاں اس ادارے کی جانب سے خصوصی دعوت پر آنے والے مہمانان ِگرامی کے قیام و طعام کا بندوبست رہتا ہے، اسی منیٰ میں ظہر و عصر کی نماز قصر کے ساتھ باجماعت ادا کی، نوویں ذوالحجہ کی شب کو ہی عرفات کی جانب روانگی کی ہدایت ملی، فجر کے قریب میدان عرفات میں پہنچ گئے۔ وہا ں حاجیو ں کی نماز کی باجماعت ادائیگی میری ہی پیشوائی میں ہوئی، جبل رحمت کو دور سے دیکھ لیا حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہاں ہی خطبہ حجۃ الوداع دیا تھا اور انسانیت کو تا قیام قیا مت ایک اس پیغمبرانہ منشور سے نوازا تھا جو عالم انسانیت کیلئے واحد پرا وانۂ آ زادی ہے، یہاں ہی ملت اسلا میہ کو اخوت و مساوات کا درس ملا تھا، یہاں ہی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا سے وداع ہونے کے واضح اور بلیغ اشارات فر ما دئے تھے، یہاں ہی زبا ن ِ حق بیا ں سے فرما یاگیا تھا کہ حسب و نسب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تمہیں کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ، معیار صرف تقویٰ( یعنی خدا خوفی)ہے، قومیت اور قبیلہ نہیں ،خا ندان اور کو د تراشیدہ نسبتیں نہیں۔ عرفات کا یہ بے مثال عظیم اجتماع بزبان حال کہہ رہا تھا ؎
بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی نہ طورانی نہ افغانی
مسجد نمرہ میں خطیب نے خطبہ دیا۔خیمے میں ظہر و عصر کی نمازیں قصر کے ساتھ پھر میری ہی پیشیوائی میں سینکڑوں بندگانِ خدا نے ادا کی ، پھر ایستادہ دعاؤں کا ایسا دور چلا کہ ہر سو آہ بکا اور گریہ وزاری کی دل گداز صدائیں سنائی دینے لگیں۔ یہاں نمازوں کے علاوہ اذکار و تلاوت و مناجات کا حکم ہے اور اس مقام پر ٹھہرنے کو ہی کلام نبوی ؐ میںحج کہتے ہیں۔جس نے وقوف کیااس کا حج ہوا۔ جویہاں نہ آسکا کوئی فدیہ بدلہ یا نذر و نیاز اس کا بدل نہیں، آخر یہ وقوف عرفات ہے کیا؟ میرے سامنے اس وقت بھی نامور مفکر شیخ علی طنطاوی کی ایک زندہ جاوید تحریر کایہ اقتباس ہے۔ آپ کو بھی انشاء اللہ حج کی یہ سعادت حاصل ہو ئی تو اس عبارت کو بطور خاص ذہن نشین رکھئے حجاج کرام کے اجتماعِ عرفات کے با رے میں آ پ لکھتے ہیں:
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ باریک رگیں کیسے جسم کے کناروں سے خون اٹھاکر بڑی بڑی رگوں میں پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ وہ خود اپنا چکر پورا کرلیتا ہے، دل میں اکھٹاہوکر اور پھیپھڑے میں منتشر ہوکر پھر وہ گدلے پن کے بعد صاف ہوتا ہے اور متحرک رگوں میں نیا سرخ خون بن کر لوٹتا ہے۔ بعد اس کے کہ وہ رگوں میں کالا اور فاسد خون کی شکل میں تھا، ایسے ہی حج ہے۔ مسلمان زمین کے چاروں طرف سے آتے ہیں، پھر عرفات میں جو اسلامی جسم میں پھیپھڑے کی حیثیت رکھتا ہے منتشر ہوجاتے ہیں، تو یہ پھیپھڑا ان کے نفس کو شہوتوں کے گدلے پن سے صاف کردیتا ہے اور گناہوں کے میل سے پاک کردیتا ہے اور وہ اپنے وطن کو اس حال میں لوٹتے ہیں کہ اپنے نفس کو جدید نفس میں بدلے رہتے ہیں، گویا یہ نفس گناہوں کو جانتی ہی نہ تھی‘‘۔
جی ہاں! عرفات میں تو سب گناہوں کی ایسی بخشش ہوتی ہے جس کا کوئی حد و حساب نہیں ۔ بہر حال نماز مغرب کا وقت قریب تھا، عقل تو کہتی ہے کہ نماز ادا کی جائے پھر چلا جائے لیکن حکم یہ ہے کہ اٹھو اور مغرب و عشاء ایک ساتھ مزدلفہ میں ادا کرو۔ اللہ کے مخلص بندوںکے قافلوں کے قافلے مزدلفہ پہنچے، مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں ، کنکریاں چن لیں، صبح پھر منیٰ روانگی ہوئی، جمرہ عقبہ کی رمی اللہ اکبر کہتے ہوئے کی۔ہاں اللہ ہی سب سے بڑا ہے، قانون سازی اور حکمرانی اسی کو زیب دیتی ہے، باقی ہر شئے فانی ہے ۔ اب قربانی کا عمل تھا ختم ہوا، پھر منڈاہوا سر منڈایا کہ اس میں رضائے رب ہے ،پھر سوئے کعبہ چلے، طواف و سعی سے فراغت ہوئی پھر دعاؤں کا سلسلہ چل پڑا۔ بعد ازاں منی کی جانب لوٹے۔۱۱؍ اور ۱۲ ؍ ذوالحجہ کو پھر شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حجاج یہ عہد کرتے ہوئے لوٹتے ہیں کہ ہر شیطانی اکساہٹ کو بھانپ کر اس کے شر سے بچنے کی ہر کوشش و سعی کریں گے۔ ۱۲؍ ذوالحجہ رہائش گاہ کی جانب واپسی ہوئی۔ حج کا مرحلہ اختتام کو پہنچ گیا، اب مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی صلعم کی زیارت کے لئے سینوں میں رقصاں تھا۔ جب یہ ہدایت ملی کہ یہ سعادت اگلے روز نصیب ہورہی ہے تو پھر خانہ کعبہ کا رُخ کیا پھرسے درکعبہ پر دستک دے دی اور لگا کہ رحمت رب ہنسی خوشی رخصت کررہی ہے۔ طوافِ وداع کرتے ہوئے بچشم نم پھر بلانے کی صدادیتا رہا اور لب پر بس ایک ہی صدا تھی:
خدایا ایں کرم باردگر کن
مدینتہُ ا لنبی ……اے خنک شہر ے کہ آنجادِ لبراست
الوداع اے مکۃ المکرم! ہاں اب وہ ساعت سعید آہی گئی جب ہم نے مدینہ النبی ؐ کی جانب رختِ سفر باندھا۔پوری رات اس سفر شوق میں گذر گئی اور جب شہر نبی صلعم میں قدم رکھے تو دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے تھی۔ اس شہر مبارک کی عظمتوں کے کیا کہنے، خود پیغمبر مدنیصلعم کا ارشاد ہے کہ (قیامت کے قریب) ایمان سمٹ کر مدینہ میں آئے گا، ایسے جیسے سانپ اپنے سوراخ کی طر ف سمٹ کر پناہ لیتا ہے۔ یوں کہئے کہ اس مقدس سرزمین کا ہر ذرہ ماہتاب اور ہر خار گلوں کا تاج وقار ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ’’جذب القلوب ‘‘میں لکھتے ہیں کہ امام مالکؒ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر یہ کہہ کر سوار نہ ہوتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس مبارک زمین کوگھوڑے کے سم سے نہ روندوں جس پر محبوب خداصلعم کے قدم مبارک پڑے ہوں۔ مدینہ طیبہ! جی ہاں مدینہ جس کے باسیوں نے حبیب کبریاصلعم سے عہد وفاباندھا تو لاج کچھ اس طرح رکھی کہ فلک پیرا اس جانثاری پر ہنوز عش عش کرتا نظر آرہا ہے۔ہم کیا اور ہماری اوقات ہی کیا ۔ دنیا کے بڑے صلحا ء عبقری شخصیات ، اولیاء ، علماء ، اتقیاواصفیا اس مبارک سرزمین میں کیا آئے تو ادب و تعظیم کے ایسے نقوش چھوڑگئے جو ابدتک نمونہ عمل بنے رہیں گے۔ اقبال تو ساری عمر اس شہر منور کے تعلق سے اپنے قلبی جذبات کا اظہار یوں کرتا رہا ؎
خاک یثرب ازدوعالم خود شتراست
اے خنک شہرے کہ آنجادِ لبراست
دور سے محبوب خدا صلعم کی مسجد کے دروبام نظر آنے لگے ،گنبد خضریٰ آنکھوں میں سماگیا تو روح و دل نے عجب طرح کی لذت محسوس کی، شوق گویا تھا کہ دوڑ کے چل اور ادب کا تقاضا تھا کہ سبک خرام رہ ،مقام مقدس کی عظمتوں کو پیش نظر رکھ کر۔ عجب بیم و مسرت کا عالم تھا، صحن مسجد نبویؐ میں قدم کیا رکھا کہ پو رے وجود میں ارتعاش پیدا ہوا، زبان خوددرودوسلام کا ورد کرنے لگی، کہاں میں کہاں مولا ئے کا ئینات کی یہ کرم نوازیاں! اپنی قسمت پر خود رشک ہونے لگا، مسجد میں داخل کیا ہوا عجب وارفتگی کا عالم تھا، دل چاہتا تھا کہ نظریں بچھاؤں یا قلب و جگر قربان کردوں ۔ دو رکعت نماز بہ چشم نم ادا کی اور پھر دل روضۂ محبوب صلعم کی جانب فوری طور حاضری کی بے تا با نہ آرزواورخواہش ۔ آخر یہ امید بھی بر آئی، ہزاروں لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل ہوا۔یہ آسمان کے نیچے سب سے بڑ یاو برتر ادب گاہ ہے، یہاں کوئی شوروشغب نہیں اور نہ کوئی اچھل کود۔ اس مقام کے ادب کے حوالہ سے قرآنی آیات خود اس روضہ کی جالی پر تحریر ہیں۔ سسکیوں اور ہچکیوں کا عجب عالم تھا۔ ہر شخص درود و سلام کی سوغات لئے روضہ انور کے سامنے سے گزر رہا تھا، میری بد اعمالیاں مجھے خون کے آنسو رلارہی تھیں۔ یہ عا صی وننگ ِاسلا ف حضور صلعم کے مبارک روضہ ٔ مبارک کے سامنے کیا حاضر ہواکہ ایسا لگا کہ خود اپنے پر قابو پا نہیں رہا ہوں۔ امت کا درد اور اپنے محور سے اس کی دوری کے نتائج بھی سامنے تھے، اپنے عروج کا زمانہ بھی یاد آرہا تھا اور زوال امت کی خون چکاں داستان بھی۔ آقاؐ کے سامنے درود سلام کانذرانہ پیش کیا کیا کہ روتے روتے آواز رندھ ہوگئی۔ محبوب صلعم کے دو عظیم ساتھیوں کی مبارک مرقدوں سے جبینِ نیا ز جھکا جھکا کرگذرا ، سلام عقیدت پیش کیا تو ایک سنہری تاریخ یا خیرالقرون کی جھلکیاں آنکھوں میں پھرنے لگیں۔ شیخینؓ کی جاں بازیاں او ر وفاداریاں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں۔ حجرۂ عائشہؓ اس کی عظمتیں اور اس میں بار بار جبرئیل امین ؑ کا وحی ربانی لے کر آنا ایسا لگا جیسے ابھی یہ سب کچھ ہورہا ہے،نفسی الضرا ء لِقبرِ انت ساکنہُ کی حسانی ؓمدح اور وصال نبوی صلعم پر ان کے جگر خراش جذبات آج بھی مقدس جالی کے اوپر تحریر نظر آتے ہیں جو دل کی دنیا کو تہ وبالا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ یہاں زیادہ دیر ٹھہرا نہیں جاسکتا کہ قافلوں کے قافلے اس سعادت سے بہرور ہونے کے لئے قطا ر اندر قطار اپنی باری کے منتظر نظر آتے ہیں ۔باہر آگیا آنسو پونچھ لئے ،کچھ دیر صحن مقدس میں بیٹھ گیا اور حسانؓ وجامیؒ کا محبوب صلعم کے تئیں نذرانۂ عقیدت خودبخود زبان پر آگیا۔ عجب وارفتگی کا عالم تھا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مسجد نبوی ؐمیں آمد اور نمازوں کی بلاناغہ ادائیگی ہوتی رہی، یہ مسجد ہے کیا؟ دراصل اس کی ہر شئے سے ایک عظیم تاریخ وابستہ ہے۔ اس کی باطنی عظمتوں کے کیا کہنے۔ اس کا ظاہری جلال و جمال بھی مبہوت کرکے رکھ دیتا ہے ۔ چلئے کچھ اس حوالہ سے بھی بات ہو۔توسیع مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک ۹بار یہ وسعت پاچکی ہے اور آج اس میں ۵۳۵۰۰۰ نمازیوں کی گنجائش موجود ہے ۔اس کی بلند وبالا اور دل کش میناروں کی تعداد دس ہے۔ متحرک گنبد حرکت میں آتے ہیں تو عجب سماں بندھ جاتا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے یہ ۲۷ ہیں جن پر ۶۸ کلو گرام سونا استعمال ہوا ہے۔ عام سیڑھیوں کے علاوہ چار متحرک سیڑھیاں زائرین کو دوسری منزل پر پہنچانے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ مسجد میں ۵۴۳ نگران کیمرے ہر نمازی کے حرکات وسکنات عکس بند کرتے رہتے ہیں ۔مسجد کے گرد مبارک صحن کا رقبہ ۰۰۰ــ۲۳۵ ہزار میٹر ہے ، گرینائٹ پتھروں سے مزیں رقبہ ۴۵۰۰۰ مربع میٹروں پر مشتمل ہے۔ جی ہاں، مسجد نبوی ؐجہاں قدم قدم پر رحمتِ رحمٰن برستی ہے، یہاں ہی ’’ریاض الجنۃ‘‘ بھی ہے جو کلام نبوی صلعم کی روشنی میں جنت کے باغات میں سے ایک باغیچہ ہے۔ یہاں دورکعت نماز کی ادائیگی کے لئے بھیڑ لگی رہتی ہے۔ خدائے لم یزل کا شکر و سپاس کہ یہ سعادت بھی حاصل رہی۔ یہاں لگے کئی ستو نوں کو دیکھنے کو تو سب دیکھتے ہیں لیکن ان کی تاریخ سے حا ل حا ل ہی لو گ واقف ہو تے ہیں ۔ منبر و محراب نبوی ؐ رلارلا کر بے حال کرکے رکھ دیتے ہیں۔استوانہ حنانہ پر لگا ستون آج بھی حنانہ کی فراق یار میں جدائی کے موقع کے اضطراروبے قراری کا بزبان حال اظہار کرتا ہے ، استوانہ ابولبابہؓ ،حضرت ابولبابہؓ کے توبہ اور داستانِ قبولیت توبہ کی ساری تاریخ بیان کرتا ہے۔ استوانہ سریر اور استوانہ مخلقہ بھی اپنی تاریخ کا اظہا ر بہ زبان حال کرتے ہیں۔ کاش سبھی زائرین ان باتوں سے واقف ہوں تو جذب شوق کی حدت وشدت میں اضافہ دراضافہ ہوگا۔ عام زایئرین تو ان اہم اور تاریخی مقامات کو بھی دیکھ نہیں پاتے جو مسجد نبوی ؐ کے بالکل گردونواح میں ہیں۔ ہاں، اس کے متصل ہی عیدگاہ ہے جہاں مختلف مواقع اور مقامات پر نبی ؐ نے عیدین و استسقا کی نمازیں اد ا کیں اور یہی میدان ہے جہاں آپؐ نے نجاشی کی غائبا نہ نماز جنازہ کی ادائیگی کرکے نجاشی کی عزتوں اور شہرتوں کو بام عروج پر پہنچادیا۔ ان مقامات پر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے مساجد تعمیر کی ہیں۔جنوب مغر ب میں ۳۰۵میٹر کے فاصلے پر مسجد غمامہ ہے اور اس مسجد سے ۴۰ میٹر کے فاصلے پر مسجد علی ابن طالب ؓہے ۔ سلطان محمدترکی نے ان مساجد میں سے کئی کی دوبارہ تعمیر کی۔ اور ۱۴۱۱ھ میں شاہ فہد نے ان کی مرمت و تجدید کی۔ یہ مساجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ہاں! یہاںپہ بھی بتاتا چلوں کہ مسجد نبویؐ سے مغرب کی جانب ۲۰۶ میٹر کے فاصلے پر وہ تاریخی جگہ بھی ہے جوسقیفہ بنو ساعدہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں ہی حضور اکرمؐ کے انتقال پرملال کے موقع پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب عمل میں آیا تھا، آج یہاں ایک الیکٹرک پاور اسٹیشن قائم ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک باغیچہ بھی ہے ۔ مسجد نبویؐ کے قریب ہی وہ تاریخی قبرستان بھی ہے جو مزار بقیع کے نام سے موسوم ہے۔ اس زمین میں کتنے آسمان آسودہ ہیں، تاریخ کا مطالعہ بتائے گا۔ یوں اس میں دس ہزار صحابہؓ کی تدفین عمل میں آئی ہے ا ور مزید کتنے صالحین ؒاور تابعین ؒاس میں آسودہ ہیں، ان اقبال مندانِ ازلی کا کوئی شمار فی الوقت نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہاں تشریف لاکر مدفون حضرات کے لئے بارگاہ ربانی میں ان کی درجات کی بلندی کی دعائیں فرماتے تھے(صحیح مسلم)۔حضرت عثمان بن مظعونؓ،حضرت عثمان بن عفان ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت رقیہؓ ، حضرت ام کلثوم ؓ ، آپ ؐ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ او ر حضرت خدیجہ ؓ او ر حضرت میمونہؓ کے سوا ساری ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس ؓ اور پوپھیاں صفیہؓ اور عاتکہؓ ، حضرت حسن ؓ، فاطمہ بن اسدؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بھی یہاں ہی آسودہ ہیں اور یہاں ہی حضرت امام مالکؒ ، امام نافعؒ ، امام زید العابدین ؒ، امام جعفر صادقؓ اور حضور صلعم کی رضائی والدہ حلیمہ سعدیہ کی آخری آرام گاہیں بھی ہیں۔اس گورستان میں تاریخ و سیرکا کوئی طالب علم داخل ہوجائے تو اسلام کی تاریخ کا ایک وسیع باب اسے دور بہت دور تک لے جاتا ہے۔اس مزار میں شرکیات و بدعات سے اجتناب کی سخت تاکید بھی ہے اور اہتمام بھی ۔شاہ فہد کے زمانہ میں اس کی آخری توسیع ہوئی اور اس کا رقبہ ۱۷۴۹۶۲مربع میٹر ہے ،جس کے گرد چار میٹر اونچی اور ۱۷۲۶ میٹر لمبی دیوار ہے۔ ہاں شارع قربان پر واقع مسجد قربان اور مسجد بلالؓ تو قربانی کی تاریخ اور بلالی صدائے حق کی یاد ایک بار پھر دلاتی ہیں…مسجد قبا کو تو ہماری تاریخ میں اہم ترین اہمیت حاصل ہے ۔ یہ وہی مسجد جس کے بارے میں خدائے قدوس نے کہا’’ یہ وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ وہی زیادہ موزون ہے کہ تم اس میں عبادت کے لئے کھڑے ہوں‘‘ مسجد دارخثیمہ بھی اس سے متصل تھی جو شاہ فہد کے دور میں مسجد قبا ء میں ہی شامل کردی گئی ۔ مسجد قبا مسجد نبوی صلعم شریف سے ۳ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہا ں آسانی سے عازمین کے واسطے ٹرانسپورٹ دستیاب رہتا ہے۔ مسجد قبلتین کی تاریخ سے سبھی واقف ہوں نہ ہوں نام ضرور سنا ہوگا۔ شارع خالد بن ولید ؓ کے کنارے اور وادی عقیق کے قریب یہ عظیم مرکز عبادت اپنے نام سے ہی اپنی تاریخ بیان کررہا ہے۔ یہ وہ مرکز ہے جہاں امام دوعالم صلعم نے عین نماز کے دوران ہی اپنا مقدس رخ کعبہ کی جانب کردیا۔ ہاں یہاں ہی تحویل قبلہ کا حکم ملا تھا۔ جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۴ میں ہوا ہے ، یہ مرکز عبادت مسجد نبوی صلعم سے ۳۵ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں یہ بھی نہ بھولئے کہ مسجد قبا سے صرف ایک کلو میٹر کی دوری پر تاریخی مسجد جمعہ واقع ہے۔ مدینہ تشریف آوری کے وقت حضور صلعم نے بنوسالم کی بستی میں یہاں ہی نماز جمعہ ادا کی تھی۔ مسجد عتبان و مسجد نبی انیف کی بھی اپنی تابناک تاریخ ہے، مسجد نبوی صلعم شریف کے شمالی جانب ۹۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد ابی ذؓرفقر بوذرؓ کی یاد دلاتی ہے ۔مسجد اجاجہ مسجد نبی ظفر ، مسجد فضیح، مسجد سیقیا، مسجد نبی دینار ، مسجد نبوی کے شمال مغر میں ۵۲۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد بسبق ، شارع سید الشہداء ؓ کے قریب مسجد مستراح کے جنو ب میں ۳۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد شیخین اور مسجدمستراح کی کڑیاں تاریخ سے ملاکر دیکھ لی جائیں تو ہرزائر عرصہ تک تاریخ کی وادیوں میں سیر کرتے ہوئے عجب حظہ ولطف وسرور وعزم و ہمت کا احساس کرے گا۔
ثینتہ الوداع اپنی تاریخ خود بتائے گا، شارع سید الشہداء اورشارع ابوبکر ؓ کے سنگم پر واقع تھا۔مسجد نبویؐ کے شمالی مغربی کونے سے قریباً ۷۵۰ میٹر یہاں ایک مسجد قائم ہے،دوسرا ثنیتہ قبا کی طرف تھا۔ مکہ مکرمہ آنے جانے والے یہاں سے گذر تے تھے ۔یہاں ہی آمد مدینہ کے موقع پر چھوٹی بچیوں نے حضور صلعم کے استقبال کے دوران’’طلع البدرعلینا‘‘ کے مسرت بھرے گیت گائے تھے ۔ یہاں آج ایک گرلز اسکول قائم ہے ۔یہ جگہ بھی حضورؐ کے سفر ہجرت کی یاد دلاکر ذہن و دل میں انقلاب بپاکئے دیتی ہے۔ یہاں عبرت کے لئے اس قلعے کے کھنڈرات بھی دیکھے جاسکتے ہیںجو قلعہ کعب بن اشرف کے نام سے موسوم ہے۔ یہ قلعہ اسلام کے خلاف سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مکروفریب کے تانے بانے بُننے کا مرکز رہا۔ کعب بن اشرف ایک مالدار شاعر تھا، ماں یہودی تھی ۔ یہودیت رگ و پے میں سرایت کرچکی تھی۔ بدترین اسلام دشمن تھا، اپنے اشعار میں اسلام اور پیغمبر اسلا م صلعم اور صحابہ ؓ کیخلاف زہر افشانیاں کرنے کا عادی تھا۔ اپنے ہی قلعہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے اس قلعہ کے کھنڈرات آج بھی مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں بطحان ڈیم کے راستے میں دائیں جانب ہر دیکھنے والے کو ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘ کہہ کر نصیحت حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں جبل احد اور میدان احد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔کچھ زائرین یہاں آتے ہیں لیکن تاریخ سے عد م واقفیت کی بنا پر بس ادھر ادھر نظر دوڑاکر اپنا راستہ لیتے ہیں۔جبل احد جس کے بارے میں حضور صلعم نے فرمایا کہ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘ اسی میدان احد اور جیل رماہ میں ہوئے حق و باطل کے درمیان ہونے والے معرکہ نے عجب غلغلہ پیدا کیا ۔ مین
9419080306
(بقیہ بدھوار کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)