مسلمانوںکی تاریخ میں ہمیشہ مذہب نے عام انسانوں اور قیادت کو بڑا بنایا ہے۔ اقبال کی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے دو شعر بنیادی ہیں۔ ایک یہ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
دوسرا شعر یہ ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یعنی مسلمانوں کی زندگی کے دو ہی مراکز ہیں: ایک خدا اور اس کا کلام، دوسرا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ۔ ان دونوں مراکز سے جو جتنا وابستہ ہوا، وہ اتنا عظیم ہو گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ تک کا معاملہ یہی ہے، باقی کسی اور کی تو بات ہی کیا ہے۔
کہنے کو جلال الدین خوارزم شاہ ایک شہزادہ تھا، مگر وہ تاتاریوں کی بے پناہ طاقت کے مقابل کھڑا ہوگیا، اور اگر خلیفۂ بغداد اس کی مدد کرتا تو جلال الدین تن تنہا تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیتا اور ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان نہ چنگیزی یلغار سے شہید ہوتے، نہ مسلمانوں کے سیاسی، تہذیبی اور علمی مرکز بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجتی۔ جلال الدین کی ’’عظمت‘‘ پر غور کیا جائے تو اس کا مرکز اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ جلال الدین شہزادہ ہونے کے باوجود انتہائی دین دار اور سخت کوش تھا، اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سوتا بھی گھوڑے کی پیٹھ پر ہے۔اورنگ زیب عالمگیر بھی بادشاہ تھا، مگر اقبال جیسی شخصیت نے اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کے ترکش کا آخری تیر قرار دیا ہے۔ اورنگ زیب کی ساری عظمت بھی اس کی دین سے وابستگی میں ہے۔ اس نے چالیس سال کی عمر کے بعد قرآن حفظ کیا۔ وہ تہجد گزار تھا۔ اس کی سخت کوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ 80 سال کی عمر میں بھی میدانِ جنگ میں اُترتا تھا اور دادِ شجاعت دیتا تھا۔ اورنگ زیب نہ ہوتا تو برصغیر میں مسلمان فنا ہوجاتے یا ہندوازم کا ایسا حصہ بن جاتے کہ مسلمان اور ہندو کی تفریق مٹ جاتی۔ اورنگ زیب نہ ہوتا تو شاید نہ برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کرنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒاور ان کے فرزند ہوتے، نہ کوئی سر سید اور مولانا سیدمودودی اور اقبال ہوتا، نہ کوئی جناح اور پاکستان ہوتا مگر ایک بادشاہ کی مذہب سے وابستگی نے ہر چیز کو بچالیا۔
شاہ فیصل عصرِ حاضر کے ’’بادشاہ‘‘ تھے۔ اس اعتبار سے اُن کا مرتبہ شاہ سلمان یا ان کے ولی عہد محمد بن سلمان سے بلند نہ تھا، مگر امریکہ شاہ فیصل کے بارے میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ آپ کا اقتدار میرے دم قدم سے قائم ہے۔ میں نہ ہوں تو دو ہفتوں میں آپ کی حکومت جاتی رہے۔ ایک وقت آیا کہ شاہ فیصل اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوئے اور امریکہ نے شاہ فیصل کو دھمکی دی کہ ہم تمہارے تیل کے کنوئوں پر قبضہ کرلیں گے۔ شاہ فیصل نے سعودی عرب میں تعینات امریکی سفیر کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ انہوں نے امریکی سفیر کو محل میں بلانے کے بجائے صحرا میں لگائے گئے خیمے میں طلب کیا۔ شاہ فیصل نے امریکی سفیر کو کھانے کے لیے کھجوریں اور پینے کے لیے قہوہ دیا اور اُس سے کہا کہ ہماری کئی نسلیں اس غذا پر پلی ہیں۔ تم ہمیں تیل کے کنوئوں پر قبضے کی دھمکی دیتے ہو! یاد رکھنا اس سے قبل ہم خود اپنے تیل کے کنوئوں کو آگ لگادیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم زندہ رہنے کے لیے کافی کھجوریں اور قہوہ پیدا کر ہی لیا کریں گے۔ شاہ فیصل کی اس جرأت کی پشت پر بھی اسلام کھڑا تھا۔
مذہب کا عنصر حکمرانوں کے حوالے ہی سے نہیں، عظیم علمی شخصیات اور سیاست دانوں کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اقبال استاد داغؔ کے شاگرد تھے اور رعایت لفظی کی شاعری کی کھل کر داد دیتے تھے۔ اقبال قوم پرست بھی تھے اور خاکِ وطن کا ہر ذرہ انہیں دیوتا نظر آتا تھا اور رام کو وہ ’’امامِ ہند‘‘ کہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمالہ انہیں پورے ہندوستان کا پاسباں اور سنتری یعنی حفاظت کرنے والا سپاہی نظر آتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو کو بدل دیا۔ وہ ہندوئوں کی ’’ارضی تہذیب‘‘ کے کنویں سے نکل بھاگے اور اسلامی تہذیب کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی کتاب قرآن اور کا ئنات کی سب سے بڑی پیغمبرانہ ذات یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک ہوگئی اور ان کے انسلاک میں کیفیتِ عشق در آئی۔ چنانچہ داغؔ کا شاگرد، بیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر بن کر کھڑا ہوگیا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کا تجربہ بھی بہت بڑا ہے۔ اکبرؔ کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے عشق تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی شاعری میں وہ جنگ جیت کر دکھا دی جسے مسلمان میدانِ کارزار میں ہار چکے تھے۔ مولانا مودودیؒ ابتدا میں صرف ایک صحافی تھے۔ بڑے صحافی لیکن مولانا کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے عشق تھا۔ اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ وہ گفتار کے غازی ہیں، کردار کے غازی نہیں ہیں، مگر مولانا گفتار کے بھی غازی تھے اور کردار کے بھی۔ چنانچہ ان کے عشق نے انہیں مجددِ وقت بنادیا۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے متکلم اور مسلم دنیا پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والے مفکر ہیں۔
محمد علی جناح اپنے ظاہر میں ایک لبرل انسان نظر آتے ہیں، اور ایک زمانے میں وہ ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر کہلاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی محبت عطا کردی، اور اس محبت نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنادیا۔ ایک قومی نظریے کا نعرہ لگانے والا دو قومی نظریے کا سب سے بڑا سیاسی شارح بن گیا، اور انہوں نے امتِ مسلمہ کو پاکستان کی صورت میں جدید مسلم دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست کا تحفہ دیا۔ یہ اسلام سے وابستگی ہی ہے جس کی وجہ سے اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا قلب قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: افغان باقی کہسار باقی۔ اتفاق دیکھئے کہ اقبال کا یہ تجزیہ زمانے کے طویل سفر میں بار بار دُرست ثابت ہوا۔ افغانوں نے سکندر کو ہرایا، انگریزوں کو شکست دی، سوویت یونین کو پسپا کیا اور اب وقت کی واحد سپر پاور امریکہ 17 سال سے طالبان کے رحم و کرم پر ہے۔ ملاّ عمر کو لوگ ’’ملاّ‘‘ اور ’’دیہاتی‘‘ سمجھتے رہے، مگر ملاّ عمر کے دینی جوش وجذبے اور مقابلے کی ہمت اور حوصلےتنے انہیں تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے والا کردار بنادیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
اقبال کے اس شعر پر کس نے عمل کیا ؟ صرف لٹے پٹے افغان مزاحمت کاروں کے نقیب وسالار اسی ملاعمرنے ۔ پاکستان کے حکمران سمجھتے تھے کہ امریکہ سے بڑا کچھ نہیںمگر ملاّ عمر کو معلوم تھا کہ خدا ہی سب سے بڑا ہے۔ چنانچہ امریکہ 17 سال میں طالبان کو ختم نہ کرسکا اور اسے افغانستان میں ویت نام سے بڑی شکست کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ وہ طالبان سے آئے دن مذاکرات کی بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس جنرل پرویزمشرف کے سیکولر اور لبرل ذہن کا ’’کارنامہ‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ اُن کے بعد آنے والے جرنیل اور سیاسی حکمران بھی امریکہ کی خدائی کے آگے سجدہ ریز رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جنرل پرویز پر ایسی ذلت مسلط کردی گئی ہے کہ کسی سے نہ ڈرنے کا نعرہ بلند کرنے والا کمانڈو آج اپنے ملک واپس آنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
انسانوں کو ان کی آرزو اور جستجو بھی بڑا بناتی ہے۔ اقبال اور مولانا مودودی کی دین سے وابستگی کے حوالے سے ان کی بڑی آرزو کا ذکر ہوچکا ہے۔ جدید سوشلزم کا بانی کارل مارکس باطل پر کھڑا تھا مگر اُس کی آرزو سوشلسٹ انقلاب تھا۔ اس کی آرزو دنیا کی تبدیلی تھی۔ چنانچہ اس کی بڑی آرزو نے روس میں انقلاب برپا کیا، اور یہ انقلاب 70 سال تک آدھی دنیا پر چھایا رہا اور باقی آدھی دنیا سوشلسٹ انقلاب کی آمد سے کانپتی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اَنا بڑی تھی۔ بڑی اَنا بڑے تجربات ہی سے تسکین پاسکتی تھی۔ چنانچہ یہ بڑی اَنا انہیں بڑی آرزو کی طرف لے گئی۔ وہ قائدایشیا بننا چاہتے تھے، مسلم دنیا کی قیادت کرنا چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ عربوں کا سرمایہ اور پاکستان کا ایٹم بم مل جائیں تو وہ مسلم بلاک کے قائد بن کر اُبھر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ مسلم حکمرانوں کی آرزوئیں بہت چھوٹی چھوٹی اور حقیر ہیں۔ وہ مطلق العنان حکمران بننا چاہتے ہیں، قوم کامال لوٹنا چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے یا لٹیروں عرف Electables کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے۔
آرزو اور جستجوکے حوالے سے مسلم دنیا اور مسلم دنیا کی قیادت کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آرزو کچھ ہوتی ہے اور جستجو کچھ اور۔ ہماری آرزو مذہب ہے مگر جستجو دنیا۔ ہم آرزو کی سطح پر اللہ اللہ کرتے ہیں اور جستجو کی سطح پر پیسہ، پیسہ، طاقت، طاقت۔ ہم آرزو کی سطح پر مکہ اور مدینہ جانا چاہتے ہیں اور جستجو کی سطح پر نیویارک، لندن، پیرس اور بیجنگ۔ ہماری شخصیتیں ’’دونیم‘‘ ہیں، اور بڑی شخصیت ہمیشہ ایک ’’اکائی‘‘ ہوتی ہے، ایک ہم آہنگ اکائی۔ جس شخص کی شخصیت میں آرزو اور جستجو ایک دوسرے کے خلاف تلواریں لیے کھڑی ہوں وہ اقتدار میں آکر بھی یہی سوچتا اور کرتا رہتا ہ ے ۔ وہ کیا خاک قوم کارہنما یا قائد بن پائے؟ اس لیے کہ اصل ِ عظمت اور خبط ِعظمت میں فرق ہوتا ہے۔ قائداعظم کو انگریزوں نے ’سر‘ کا خطاب دینا چاہا تو قائداعظم نے فرمایا: مجھے اپنا نام پسند ہے اور میں اس کے ساتھ کوئی لاحقہ نہیں لگانا چاہتا۔ یہ کوئی سیاسی چال نہیں، حقیقی عظمت کے اظہار کی ایک جھلک تھی۔ قائداعظم ایک بار ریل سے سفر کررہے تھے۔ ایک اسٹیشن پر طالب علموں کی ایک ٹکڑی نے قائداعظم کے ڈبے کو گھیر لیا اور قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ قائداعظم ریل کے ڈبے کے دروازے پر آئے اور کہنے لگے کہ اپنا وقت حصولِ علم پر صرف کرو۔ یہ ایک فطری بے نیازی تھی۔ ہر بڑے آدمی اور رہنما میں یہ فطری بے نیازی موجود ہوتی ہے۔ مسلم دنیا کے موجودہ حکمران اس بے نیازی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
بڑی آرزو ’’اجتماعی آدمی‘‘ کی عطا ہوتی ہے، اور سلیم احمد کے مطابق ہمارے اندر اجتماعی آدمی مر رہا ہے یا مرچکا ہے۔ سلیم احمد کا ایک قطعہ ہے:
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کِن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جا رہا ہوں ایک نقطے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
اب ہم میں سے بیشتر افراد فرد ہیں، گروہ ہیں، پارٹی ہیں، طبقہ ہیں، ادارہ ہیں، فرقہ ہیں، مسلک ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی پوری تہذیب نہیں ہے، پوری تاریخ نہیں ہے، پوری امت نہیں ہے، پوری ملّت نہیں ہے، پوری قوم نہیں ہے۔ ہم لوگ عصبیت اور علاقائیت سے اوپر اُٹھ کر آفاقیت کے سمندر میں آنےکے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس ماحول میں اجتماعی آدمی مرے گا نہیں تو اور کیا ہوگا؟ مگر ہمارے اندر اجتماعی آدمی کی موت بلند خیالی کی موت ہے، بڑے اہداف کی موت ہے، بڑے تجربے کی موت ہے۔ یعنی انسان کی عظمت کی موت ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ عرب و عجم میں ہم پر مسلط صدور ، وزرائے اعظم ، بادشاہ اور جنرل گھٹیا اور بونے قد کے ہیں… بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی قصیدہ خوانی کر نے والے ، جی حضوری ، درباری اور انہیں ووٹ دینے والے عوام بھی گھٹیا اور گئے گزرے ہیں۔ جس طرح ہمارے ان لٹیرے حاکموں اوررہنمائوں میں کوئی اجتماعیت پسند آدمی موجود نہیں، اسی طرح ان رہنمائوں کو پسند کرنے اور انہیں ووٹ دینے والوں میں بھی کوئی سلیم العقل فرد بشر موجود نہیں۔ ایک حق پرست آدمی کیا ہوتا ہے کسی کو یہ دیکھنا ہو تو اقبال کے مردِ مومن کو دیکھے، اقبال کے عشق سے ملے، اقبال کے شاہین کے ساتھ وقت گزارے، اقبال کے تصورِ اُمت کو اُلٹ پلٹ کر دیکھے۔ میر تقی میرؔ کا تجربہ اقبال کے تجربے سے مختلف ہے، مگر ان کے اندر بھی حق پسند آدمی زندہ تھا، اس لیے میرؔ کا عشق اور میرؔ کی کائنات کچھ ایسی تھی:
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭٭
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭٭
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بنا یہ ادب نہیں آتا
٭٭
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا
شاعر کے اندر سے اجتماعی آدمی مرجاتا ہے یا مرنے لگتا ہے تو پھر ایسی شاعری ہوتی ہے:
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دلہن سجائوں گی
(پروین شاکر)
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
روح نہ عشق کا فریب رہا
جسم کو جسم کی عداوت میں
میرے کمرے کا کیا بیاں کہ یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں
(جون ایلیا)
کمرہ
مجھے نہ کھولو
میرے اندھیرے میں
ایک لڑکی
لباس تبدیل کررہی ہے
(رئیس فروغ)
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
(احمد فراز)
ایک چہرہ تھا کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا کہ جان کا بیری نکلا
(ساقی فاروقی)
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
(عبید اللہ علیم)
ہمارے زمانے تک آتے آتے لفظ روایت بہت غریب ہوگیا ہے مگر روایت اجتماعیت پسند انسان کی علامت ہے اور جب کوئی واقعتاً روایت سے وابستہ ہوتا ہے تو اس میں اجتماعی آدمی کا کوئی نہ کوئی رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ رئیس فروغ کی نظم ’’کمرہ‘‘ آپ نے پڑھی۔ یہ ایک ’’فرد‘‘ کی نظم ہے، مگر جب اسی فرد کا تعلق غزل کی روایت سے قائم ہوا تو رئیس فروغ نے کہا:
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
ساقی فاروقی کی شاعری گھٹیا خیالات سے بھری ہوئی ہے، مگر ان کے ایک شعر میں شعوری یا لاشعوری طور پر روایت در آئی تو انہوں نے کہا:
میرے لہو میں تیرتا پھرتا ہے ایک نام
یہ نام ہے شبیہ سے باطل نہ کر اسے
یہاں بھی مشاعروں کے موضوعی تصورات یعنی Subjective Reality ، مذہب، تہذیب، تاریخ اور اجتماعی انسانی موت سے فراہم ہونے والی معروضی حقیقت یا Objective Reality کا مسئلہ موجود ہے۔ یعنی جو بھی کچھ ہے ’’شکوہ ‘‘ اور ’’جواب شکوہ ‘‘ کا پھیلائو ہے۔
(ختم شد)